سیاستمضامین

جائیدادوں کی خرید سے پہلے چند احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں تو نقصان کا امکان باقی نہیں رہے گا’’ زیر خرید جائیداد کی فروخت کا پہلے کوئی معاہدہ نہیں ہوا‘‘ اور وقت کے تعین کا اظہار ضروری ہے۔

محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد۔

٭ اگر فروخت کنندہ نے پہلے کوئی معاہدہ کیا ہو تو خریدار مشکل میں پڑسکتا ہے۔
٭ وقت کا تعین ضروری ہے ورنہ نقصان ہوگا۔
٭ اگر مدت معینہ کے اندر رجسٹری نہ ہو تو فروخت کنندہ معاہدہ کو منسوخ کرسکتا ہے۔ معاہدہ میں اس بات کا اظہار ضروری ہے۔
٭ معاہدہ بیع صرف قانون دانوں سے لکھوانا چاہیے اور اعلانِ خریدی کی اخبار میں اشاعت ضروری ہے۔
زیرِ تحریر مضمون کے محرکات دو واقعات ہوئے جو جاریہ ہفتہ ہمارے علم میں لائے گئے۔ ایک واقعہ ایسا ہے کہ ایک صاحب نے ایک زمین خریدنے کا معاہدہ کیا اور وقتِ مقررہ کے اندر تمام رقم (کروڑوں میں) ادا کرکے جائیداد کی رجسٹری بھی کروالی۔ جس جگہ یہ زمین خریدی گئی وہاں سرکاری قیمت اور مارکٹ میں ایک اور دس کا فرق ہے۔
خرید کی رقم نقد ادا کی گئی اور جو سرکاری رقم تھی اسے ڈیمانڈ ڈرافٹ سے ادا کیا گیا اور اس بات کا تذکرہ رجسٹر شدہ بیع نامہ میں موجود ہے۔ مابقی رقم (کروڑوں میں) نقد رقم کی شکل میں ادا کی گئی۔ خریدار صاحب نے خریدی ہوئی اراضی پر قبضہ بھی حاصل کرلیا۔
خریدار صاحب کی حیرت کی اس وقت انتہاء نہ رہی جب ان کو اور فروخت کنندہ کو ایک نوٹس ملی جس میں خریدی ہوئی اراضی کے رجسٹریشن کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا گیا اور اس کی بنیاد ایک معاہدہ بیع تھا جو فروخت کنندہ نے سابقہ خریدار سے کیا تھا۔ اب خریدار صاحب ایک مصیبت میں مبتلا ہوگئے ہیں۔ ان کو عدالت میں جوابدہی کرنی ہے۔ ان کے ساتھ سراسردھوکہ دہی کی گئی ہے کیوں کہ سابق میں کئے گئے معاہدۂ بیع سے خریدار کو لاعلم رکھا گیا تھا۔ اگر یہ صاحب فروخت کنندہ کے خلاف دھوکہ دہی کا مقدمہ دائر کرتے ہیں تو اس رقم کا تذکرہ کرنا ہوگا جو کہ بیع نامہ میں لکھی گئی ہے۔ گویا 90 فیصد رقم کا مطالبہ نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ اس کا تذکرہ بیع نامہ میں نہیں ہے۔ اگر معاہدۂ بیع کو اساس بنایاجائے اور ادا کی گئی نقد رقم کا مطالبہ کیا جائے تو کروڑوں روپیہ کا حساب دینا ہوگا کہ اس رقم کے حصول کے قانونی ذرائع کیا تھے اور آیا اس بھاری رقم پر انکم ٹیکس ادا کیا گیا تھا بھی یا نہیں۔ اس بات کا امکان ہے کہ صاحبِ موصوف نے اتنی بھاری رقم سے جائیداد کی خریدسے قبل کسی قانون داں سے مشورہ نہیں کیا ہوگااور فروخت کنندہ کی جانب سے تیار کئے گئے معاہدہ بیع پر دستخط کرکے رقم ادا کردی ہوگی کیوں کہ اصولی اور قانونی طور پر ایسے معاہدات صرف ایڈوکیٹ صاحبان سے ہی تحریر کروانے کی ضرورت ہے اور ایسی خریدی کا اعلان اخباروں میں شائع کروانا چاہیے۔ مگر ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ہوگا۔
دوسرا معاملہ کچھ ایسا ہے کہ ایک صاحب نے بھونگیر کے قریب اپنی زرعی اراضی کی فروخت کا معاہدہ کیا اور اس میں تکمیل معاہدہ کی مدت کا اظہار نہیں تھا۔ ایک بھاری رقم کے عوض معاہدہ بیع ہوا اور جو رقم اڈوانس میں ادا کی گئی تھی وہ صرف چند ہزار تھی۔ خریدار دراصل رئیل اسٹیٹ ایجنٹس تھے جو نئے خریدار کو تلاش کررہے تھے۔ ایک سالہ مدت گزرگئی پھر بھی مابقی رقم ادا نہ ہوسکی اور نہ ہی زمین فروخت ہوسکی۔ ایک سال بعد ایک حقیقی خریدار نے بھاری رقم کا آفر دیا جو سابق رقم سے تقریباً دوگنی تھی۔ آخر کار ان رئیل اسٹیٹ ایجنٹس کو بلایا گیا اور انہیں بھاری رقم ادا کرکے معاہدۂ بیع کے کاغذات واپس لینے پڑے اور پھر اس کے بعد ہی اس زمین کی فروخت ہوئی۔
وقت کا تعین۔ معاہدہ کی اساس ہے
انگریزی کہاوت ہے ” TIME IS THE ESSENCE OF AGREEMENT ” یعنی معاہدہ کی اساس وقت ہے اور وقت کا تعین ہر معاہدہ کا جزوِ لاینفک ہے۔ کسی معاہدہ میں اگر تکمیل معاہدہ کی مدت کا اظہار نہ ہو تو کیا معاہدہ کی مدت ایک سو سال ہوسکتی ہے؟ اگر کسی وجہ سے وقت پر تکمیل نہ ہوسکے تو معاہدہ کی تکمیل کی مدت واجبی حد تک بڑھائی جاسکتی ہے اور وہ بھی مصیبت کے اوقات مثلاً جنگ‘ آفاتِ سماوی‘ کورونا جیسے امراض۔ ایسی صورت کو(FORCE MAJEURE) کہتے ہیں۔ لیکن اگر ایسا نہ ہو تو معاہدہ کی تکمیل وقتِ مقررہ کے اندر ہونی چاہیے۔ معاہدہ میں اس شق کا ہونا ضروری ہے کہ اگر وقتِ مقررہ کے اندر معاہدہ کی تکمیل نہ ہو تو فروخت کنندہ کو اختیار ہوگا کہ وہ معاہدہ کو ایک قانونی نوٹس کے ذریعہ منسوخ کردے اور اس تنسیخ کی اشاعت کم از کم ایک اخبار میں کروائے۔ اس مرحلے کے بعد جائیداد کو فروخت کیا جاسکتا ہے ۔ اگر معاہدہ میں اڈوانس میں ادا کی گئی رقم کی ضبطی کا اظہار ہو تو بھی اڈوانس میں دی گئی رقم سوخت کرلی جاسکتی ہے۔ اگر اس مرحلے کے بعد خریدار معاہدۂ بیع پر عمل درآمد کے لیے عدالت سے رجوع ہو تو معاہدۂ بیع کی منسوخی کی نوٹس اور اخباری اشتہار دفاع کاکام کریں گے اور یقینی طور پر دعویٰ خارج کردیا جائے گا۔ اس بات کو یاد رکھنا ضروری ہے کہ معاہدہ بیع پر عمل درآمد کے لیے عدالت سے رجوع ہونے کی میعاد تین سال ہے یعنی تین سالہ مدت کے اندر ہی معاہدۂ بیع پر عمل درآمد کے لئے عدالت سے رجوع ہوسکتے ہیں ۔ بعد میں نہیں۔
ایک اور ضروری بات یہ ہے کہ معاہدۂ بیع کرتے وقت کم سے کم40 فیصد بطورِ اڈوانس وصول کریں اور نقد پیسوں کی لین دین اپنے گھر پر ہی کریں۔ رجسٹریشن آفس میں نہیں۔ جائیداد کی خرید سے پہلے اپنے ایڈوکیٹ کی رائے حاصل کریں اور تمام کاغذات جو فروخت کنندہ نے دیئے ہیں انہیں اپنے ایڈوکیٹ کے مطالعہ کے لئے پیش کریں۔ اس ضمن میں تجربہ کار ایڈوکیٹس وہ سب کچھ جانتے ہیں جو آپ نہیں جانتے ۔
ایڈوکیٹ زیرِخرید جائیداد کے TITLE کی ابتداء سے تحقیق کریں گے اور آپ کو زمین کے قانونی موقف کے بارے میں تفصیل سے بتائیں گے۔ اگر کوئی فلیٹ زیرِ خرید ہو تو نہ صرف زمین کے کاغذات دیکھیں گے بلکہ یہ بھی دیکھیں گے کہ تعمیری اجازت ملی بھی ہے یا نہیں اور اگرملی ہے تو کتنی منزلوں تک محدود ہے اور یہ کہ آیا آپ جو فلیٹ خرید رہے ہیں وہ منظورہ حد کے اندر ہے یا اوپری منزلوں پر جن کی تعمیری منظوری نہیں ملی ہے اور جس کی رجسٹری نہیں ہوسکتی۔ اگر فروخت کنندہ گیارنٹی دے رہے ہیں کہ رجسٹری کروادیں گے تو کبھی یقین نہ کریں کیوں کہ رجسٹری ہو ہی نہیں سکتی اگر زمین اربن لینڈ سیلنگ میں فاضل قرارشدہ ہے ‘ گورنمنٹ اراضی کا حصہ ہے ‘ لاونی پٹہ کا حصہ ہے‘ اگر کاغذات نہیں دیئے جارہے ہیں تو مکان نمبر کی مدد سے متعلقہ رجسٹرار سے زیرِ خرید جائیداد کا E.C نکالیں۔ آپ کو تمام درکار ضروری اطلاعات مل جائیں گی۔
ہر معاہدہ بیع کی اخبار میں اشاعت ضروری ہے
اگر آپ نے معاہدہ بیع کرلیا ہے تو اس کی اطلاع عوام الناس کے لیے اخباروں میںایڈوکیٹ کے ذریعہ شائع کروایئے آٹھ دس دن کی مدت کے اندر کوئی اعتراض نہ آئے تو آگے کے اقدامات کئے جاسکتے ہیں۔
اگر آبائی جائیداد ہو تو آپ کو بہت محتاط رویہ اختیار کرنا ہوگا
اگر زیرِ خرید جائیداد آبائی جائیداد یا اس کا حصہ ہو اور فروخت کنندہ اس کے ورثائ/مالک ہوں تو سب سے پہلے اس بات پر اصرار کریں کہ وہ عدالت سے جاری (SUCCESSION CERTIFICATE) پیش کریں۔ اگر وراثتی سرٹیفکیٹ پیش کیا جائے تو معاہدہ کیا جاسکتا ہے۔ ورنہ بعد کوئی اور وارث اٹھ کھڑا ہوگا اور اپنا حق جتائے گا اور بہت ممکن ہے کہ وہ عدالت سے رجوع ہوجائے۔
اگر آپ فروخت کنندہ ہوں تو ان باتوں پر دھیان دیں
اگر آپ اپنی اراضی ‘ مکان وغیرہ فروخت کررہے ہیں تو اس بات کا ضرورخیال رکھیں کہ آپ قانونی مشورہ کے زیر اثر معاملت کررہے ہیں ۔ کبھی بھی اور کسی بھی صورت میں خریدار کے ایڈوکیٹ کے دفتر پر نہ جائیں اور جو بھی معاہدہ کرنا ہو تو اپنے ایڈوکیٹ کے مشورہ کے مطابق ہی کریں اورمعاہدہ اپنے ایڈوکیٹ ہی سے تحریر کروائیں اس میں آپ کو یہ فائدہ ہوگا کہ آپ کے مفادات کا مکمل تحفط ہورہا ہے۔ یہ بات ضروری ہے کہ آپ جس شخص کے ساتھ معاہدہ کررہے ہیں‘ اسی کے نام رجسٹری کروائیں۔ خریدار کی جانب سے لائے گئے کسی تیسرے شخص کے نام کی رجسٹری ہرگز ہرگز نہ کریں۔ اس میں بہت بڑا دھوکہ ہوسکتا ہے۔ آج کل ایسا ہورہا ہے کہ درمیانی افراد بعض صورتو ںمیں کروڑوں روپیہ سے آپ کو محروم کررہے ہیں۔ آپ سے کئے گئے معاہدہ کی رقم کچھ اور ہوتی ہے اور جس شخص کے نام رجسٹری کرنے کی سفارش کرتے ہیں ان سے بھاری رقومات حاصل کرتے ہیں اور آپ کو بھاری نقصان سے دوچار کرتے ہیں۔ لہٰذا صرف حقیقی خریدار کے نام ہی رجسٹری کیجئے جس سے آپ نے معاہدہ کیا ہے۔ درمیانی افراد سے چاہے وہ کتنے ہی بارسوخ ہوں کسی بھی قیمت پر معاہدۂ بیع مت کیجئے۔ اگر آپ ایسے درمیانی فرد کو اپنے ایڈوکیٹ سے روبرو کریں گے تو حقیقت کھل کر سامنے آجائے گی۔
اس بات کا خیال ضرور رکھیں کہ فروخت کے ہر مرحلے پر آپ کو اپنے ایڈوکیٹ کی رائے کی ضرورت پڑے گی۔
زیرِ تعمیر رہائش کامپلکس میں اپارٹمنٹ کی خرید سے گریز کریں
کوئی بلڈر چاہے کتنا ہی نامی گرامی نہ ہو‘ ان کی جانب سے زیر تعمیر رہائشی کامپلکس میں اوپری منزلوں کے فلیٹس کبھی نہ خریدیں۔ آپ ضرور خریدسکتے ہیں لیکن تعمیر مکمل ہونے کے بعد‘ کیوں کہ آپ کو پتہ نہیں کہ تعمیر کب مکمل ہوگی اور ہوگی بھی یا نہیں کیوں کہ کوئی قانونی زاویہ نکل آسکتا ہے۔ صرف زیرِ تعمیر رہائشی کامپلکس کے مالک/ بلڈر سے معاہدۂ بیع کرنے کی ضرورت ہی نہیں۔ کیوں کہ عام پریکٹس یہ ہے کہ آپ کے پیسوں سے ہی کامپلکس کی تعمیر ہوتی ہے۔ اگر بلڈر صاحب معاشی طورپر مستحکم ہوں تو وہ جلد از جلد تعمیر مکمل کرکے اپنے حصہ میں آئے ہوئے رقبہ کو فروخت کرسکتے ہیں۔ کیوں کہ ایسی کئی شکایتیں آئی ہیں کہ چار پانچ سال گزرگئے ۔ معاہدہ ہوا تھا اور بھاری رقم ادا کی گئی تھی لیکن کسی قانونی مشکل کی وجہ سے تعمیر مکمل نہ ہوسکی۔ خریدار بھیانک نقصان سے دوچار ہوئے۔ کبھی بھی اور کسی بھی صورت میں کسی بلڈر/ڈیولپر کی دولت اور آفس سے متاثر نہ ہوں۔ زندگی بھر کی کمائی۔ سرمایۂ حیات کو اس طرح سے ظاہری شان و شوکت سے متاثر ہوکر برباد نہ کریں۔ ایک بار آپ اڈوانس کی بھاری رقم ادا کردیں تو آپ ایک شکنجہ میں پھنس جائیں گے اور باہر نکلنا مشکل ہوجائے گا۔ اگر اپنے سرمایہ ‘ زندگی بھر کی کمائی کا تحفظ مقصود ہو تو اس قانونی رائے پر عمل کریں تاکہ آئندہ پچھتانا نہ پڑے۔ لہٰذا جب تعمیر مکمل ہوجائے ‘ لفٹ لگ جائے تو ضرور معاہدہ بیع کریں۔ اس سے پہلے کچھ بھی کرنا نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔
خریدار اور فروخت سے پہلے آپ کو قانون دان‘ کی خدمات کو اسی طرح ضرورت درکار ہوگی جس طرح ایک مرض میں ایک ڈاکٹر کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔ ڈاکٹر کے علاج سے آپ صحت یاب ہوسکتے ہیں جبکہ دوسری جانب اگر آپ قانونی مشورہ کے بغیر کوئی قدم اٹھائیں تو جو نقصان ہوگا اس کی تلافی نہ ہوسکے گی کیوں کہ مرض کے بعد شفایاب ہوا جاسکتا ہے لیکن معاشی طور پر بربادی کے بعد دوبارہ اٹھنا بہت ہی مشکل ہوگا۔؎
بہت ہے مشکل گر کے سنبھلنا
تیس سال قبل معاہدۂ بیع کی اساس پر گھر پر قبضہ
سوال:- میں نے آج سے 29-30 سال پہلے ایک صاحب سے ایک مکان خریدنے کا معاہدہ کیا۔ ان کو پیسوں کی جلدی تھی کیوں کہ وہ امریکہ معہ فیملی منتقل ہورہے تھے۔ میں نے تقریباً ساری رقم ادا کردی اور 20 روپیہ مالیتی اسٹامپ پیپر پر معاہدۂ بیع کیا۔ میں نے تین سو مربع گز پر مشتمل مکان پر قبضہ حاصل کرلیا اور اس طویل مدت سے مکان پر قابض ہوں۔ صاحبِ موصوف نے ساری رقم جو اس وقت کی قیمت کے مطابق تھی وصول کرلی اور خاموشی کے ساتھ معہ فیملی امریکہ چلے گئے ۔ میں گزشتہ تیس سال سے مکان کا ٹیکس ادا کررہا ہوں۔ برقی کا بل بھی میں ہی ادا کررہاہوں۔ میں اسی مکان سے ووٹ دیتا ہوںاور میری فیملی کے تمام افراد بھی ووٹ دیتے ہیں اوران کا ووٹر آئی ڈی کارڈ اور آدھار کارڈ بھی اسی مکان کے پتہ پر ہے ۔ لیکن میرے نام پر نہ یہ جائیداد ہے اور نہ ہی نل اور لائٹ کا بل میرے نام پر آرہا ہے۔ پراپرٹی ٹیکس بھی میرے نام نہیں آرہاہے۔
ایسی صورت میں بعض افراد کہہ رہے ہیں کہ آپ کے گھر پر حکومت قبضہ کرلے گی کیوں کہ آپ کے پاس مکان کے دستاویز نہیں۔ مکان کے دستاویزات میرے پاس موجود ہیں لیکن اس رجسٹر شدہ بیع نامہ میں فروخت کرنے والا صاحب کا نام ہے اس ضمن میں آپ کی رائے درکار ہے۔
X-Y-Z ۔ مانصاحب ٹینک حیدرآباد
جواب:- آپ اگر بروقت قانونی رائے حاصل کرتے تو سب کچھ ٹھیک ہوتا۔ فریق مخالف کے خلاف تین سالہ مدت کے اندر اگر معاہدۂ بیع پر عمل درآمد کا مقدمہ دائر کیا جاتا تو سب کچھ ٹھیک ہوتا۔
لیکن آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ قانون کی نظر میں اور طویل قبضہ معہ معاہدۂ بیع آپ کے حق میں ہے۔ آپ کو کوئی بھی بشمول حکومت اس گھر سے بے دخل نہیں کرسکتا۔