تعلیم و روزگار

ہندوستان میں یکساں سیول کوڈ کا نفاذ مشکل: پروفیسر فیضان مصطفی

یکساں سیول کوڈ کا ہندوستان جیسے ملک میں نفاذ دشوار کن مرحلہ ہے جہاں ہر ریاست کا کلچر، تہذیب و تمدن مختلف ہے۔ حکومتیں اور سیاسی جماعتیں اسے انتخابی وعدے کے طور پر استعمال کرتی آئی ہیں، اور مابعد انتخابات اسے بُھلا دیا جاتا ہے۔

حیدرآباد: یکساں سیول کوڈ کا ہندوستان جیسے ملک میں نفاذ دشوار کن مرحلہ ہے جہاں ہر ریاست کا کلچر، تہذیب و تمدن مختلف ہے۔ حکومتیں اور سیاسی جماعتیں اسے انتخابی وعدے کے طور پر استعمال کرتی آئی ہیں، اور مابعد انتخابات اسے بُھلا دیا جاتا ہے۔

متعلقہ خبریں
سی اے اے اور این آر سی قانون سے لاعلمی کے سبب عوام میں خوف وہراس
اگر یکساں سیول کوڈ نافذ ہوجائے تو طلاق و خلع کے لئے تڑپنا پڑے گا
حکومت کچھ خطرناک قوانین لارہی ہے: جائیدادوں کی بذریعہ زبانی ہبہ تقسیم کردیجئے
یکساں سیول کوڈ کو مسلط نہیں کیا جاسکتا:ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کے پوتے پرکاش امبیڈ
کثرت ازدواج، کمسنی کی شادی پر مکمل امتناع کی سفارش

ان خیالات کا اظہار پروفیسر فیضان مصطفی سابق وائس چانسلر نلسار یونیورسٹی نے اولین صغرا ہمایوں مرزا یادگاری خطبے میں مہمان مقرر کی حیثیت سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔

شعبہ تعلیمِ نسواں، مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی نے صفدریہ گرلز ہائی اسکول کے اشتراک سے اس یادگاری لیکچر کا انعقاد کیا تھا۔ پروفیسر سید عین الحسن وائس چانسلر، مانو نے صدارت کی، جبکہ پروفیسر فاطمہ علی خان سابق صدر شعبہئ جغرافیہ عثمانیہ یونیورسٹی نے مہمانِ خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی اور خطاب بھی کیا۔

ابتداء میں صدرِ شعبہ ڈاکٹر آمنہ تحسین نے خیر مقدم کیا اور اس یادگاری لکچر کے اغراض و مقاصد بیان کئے۔ اس موقع پر سماجی مصلح اور حیدرآباد میں تعلیم نسواں کی علمبردار صغری ہمایوں مرزا کی زندگی پر تیار کی گئی ایک ڈاکیومنٹری کی بھی نمائش کی گئی۔ پروفیسر فیضان مصطفی نے واضح انداز میں کہا کہ آزادیئ مذہب کی بنیاد پر یکساں سیول کوڈ کی مخالفت زیادہ دیر تک نہیں کی جاسکتی۔

اس کے بجائے آرٹیکل 29 کے تحت حق ثقافت اس کے لیے بہترین ڈھال ہوسکتی ہے۔ پروفیسر فیضان مصطفی نے اپنا سلسلہئ خطاب جاری رکھتے ہوے کہا کہ ماضی میں جہاں خواتین کی تعلیم کو اتنی اہمیت نہیں دی جاتی تھی، ایسے وقت میں مرزا صغری ہمایوں کا تعلیم حاصل کرنا اور پھر لڑکیوں اور خواتین کو اس کے لئے ترغیب دینا ایک عظیم کارنامہ ہے۔

انہوں نے اپنے لکچر کے دوران کئی اہم مقدمات کی مثالیں بھی پیش کیں۔ پروفیسر سید عین الحسن وائس چانسلر نے اپنے صدارتی خطاب میں شعبہ تعلیمِ نسواں کو مبارکباد پیش کی اور کہا کہ آج کے مسابقتی دور میں لڑکیوں اور خواتین کا خواندہ ہونا بے حد ضروری ہے۔

انھوں نے صغری ہمایوں مرزا کی جانب سے لڑکیوں کی تعلیم کی غرض سے کیے گئے اقدامات کی ستائش کرتے ہوئے، ان کی خدمات کو خراج پیش کیا اور کہا کہ ان کے نام پر قائم ادارے کے لیے وہ نیک تمنائیں پیش کرتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ اردو یونیورسٹی لڑکیوں اور خواتین کے تعلیمی اقدامات کے لئے پابندِ عہد ہے۔ آخر میں صفدریہ گرلس ہائی اسکول کے سکریٹری ہمایوں علی مرزا نے ہدیہئ تشکر پیش کیا۔