انٹرٹینمنٹ

الفاظ اور شاعرانہ اصطلاحات کے سلطان تھے مجروح سلطان پوری

مجروح نے صرف ساتویں جماعت تک اسکول میں پڑھاتھا۔ اس کے بعد انہوں نے عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی تھی جس کے ساتھ ہی انہوں نے سات سال کا کورس پورا کیا تھا۔ درس نظامی کا کورس مکمل کرنے کے بعد عالم قرار پائے تھے۔

ممبئی: اردو زبان کے مشہور شاعر اور نامور نغمہ نگار مجروح سلطان پوری کا حقیقی نام اسرار الحسن خان تھا۔ وہ یکم اکتوبر 1919 ء کو اترپردیش کے ضلع سلطانپور میں پیدا ہوئے۔ اُن کے والد ایک سب انسپکٹر تھے۔

مجروح نے صرف ساتویں جماعت تک اسکول میں پڑھاتھا۔ اس کے بعد انہوں نے عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی تھی جس کے ساتھ ہی انہوں نے سات سال کا کورس پورا کیا تھا۔ درس نظامی کا کورس مکمل کرنے کے بعد عالم قرار پائے تھے۔

 اس کے بعد لکھنؤ کے تکمیل الطب کالج سے یونانی طریقہ علاج میں تعلیم حاصل کی اورحکیم بن گئے۔ مجروح حکیمی دواخانہ کے ساتھ ساتھ سلطان پور میں مشاعروں میں بھی حصہ لیتے تھے ۔ ایک مرتبہ سلطان پور میں مشاعرے میں غزل پڑھی جسے سامعین نے بے حد سراہا۔ اِس طرح، مجروح نے حکمت چھوڑ کر شاعری کے ذریعے معاشرے کی نبض پہ ہاتھ رکھنے کا سوچا ۔پھر لفظوں سے لوگوں کا علاج کرنے لگے۔

ایسے وقت میں جگر مراد آبادی سے ملاقات اور ان کی صحبت نے اپنا رنگ دکھانا شروع کیا۔ کم عمری سے ہی مشاعروں میں شرکت کرنے کے عادی مجروح اب بیرون ریاست مشاعروں میں بھی شرکت کرنے لگے تھے۔

شعر و شاعری اور فلموں میں نغمہ نگاری کے دوران انھوں نے اپنا تخلص مجروح رکھا اور پھر مجروح سلطان پوری کے نام سے ہی معروف ہو گئے۔ مجروح اردو غزل کے منفرد شاعر تھے، لیکن اُن کی غزلیات کی تعداد ستر سے آگے نہیں بڑھ سکی۔ اُن کا شمار ترقی پسند شعراٴ میں ہوتا ہے۔

مجروح اردو غزل کے منفرد شاعر تھے۔ اُن کا شمار ترقی پسند شعراٴ میں کیا جاتا ہے۔ جگر مرادآبادی کو مجروح اپنا استاد مانتے تھے۔ مجروح نے اپنا پہلا فلمی گیت‘غم دئیے مستقل’ 1945ء میں فلم شاہجہاں کے لیے تحریر کیا تھا۔ اسی نغمے نے مجروح کو فلمی نغمہ نگاروں کی پہلی صف میں لا کھڑا کیا۔ ان کا فلمی گیت لکھنے کا اپنا ایک خاص انداز تھا ۔ فلمی گیتوں میں بھی مجروح نے ادبی تقاضوں کو برقرار رکھا۔

ان کے فلمی گیتوں میں خیالات کی نازکی سے بخوبی اندازا لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ایک ایسے تخلیق کار کے قلم سے وجود میں آئے ہیں جوغزلیہ شاعری کا گہرا ادراک رکھتا ہے اور جس نے تمام رموز سامنے رکھ کر اپنے تجربات اشعار کے قالب میں ڈھالے ہیں۔مجروح نے پچاس سال فلمی دنیا کو دیئے۔ انھوں نے300 سے بھی زائد فلموں میں ہزاروں گیت لکھے۔ ان کے سینکڑوں نغمے آج بھی ان کے شیدائیوں کے ذہنوں میں محفوظ ہیں۔

سال 1945ء کی بات ہے جب مجروح نے ممبئی کے ایک مشاعرے میں شرکت کی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب ان کی شاعری ادبی حلقوں میں اپنا پرچم لہرا رہی تھی۔ ممبئی کا اس مشاعرے نے مجروح کی زندگی کا رخ ہی موڑ دیا۔ مذکورہ مشاعرے میں فلم انڈسٹری کے مشہور پروڈیوسر اے آر کاردار بھی شریک تھے جنھیں ان کی شاعری نے اپنا دلدادہ بنا لیا۔

 کاردار نے فوراً مجروح کے پاس نغمہ نگاری کی پیش کش کی۔ حالانکہ اس وقت انھوں نے منع کر دیا لیکن جب جگر مراد آبادی نے مجروح کو سمجھایا تو وہ راضی ہو گئے۔ پھر کاردار نے موسیقار نوشاد سے مجروح کی ملاقات کرائی۔ یہ وہ موقع تھا جب دو بڑی شخصیتوں کا ‘ملن’ ہو رہا تھا۔ نوشاد نے فوراً ایک دھن پیش کی اور نغمہ لکھنے کی فرمائش کی۔ گویا مجروح کا پہلا فلمی نغمہ منظر وجود پر آیا۔ وہ نغمہ تھا:

جب اس نے گیسو بکھرائے بادل آیا جھوم کے، مست امنگیں لہرائی ہے رنگیں مکھڑا چوم کے۔ مجروح نے اپنی زندگی میں کم و بیش 70 غزلیں لکھی ہیں جب کہ فلمی نغموں کی تعداد تقریباً 4000 ہے۔

مجروح اردو غزل کے منفرد شاعر تھے۔ اُن کا شمار ترقی پسند شعراٴ میں کیا جاتا ہے۔ جگر مرادآبادی کو مجروح اپنا استاد مانتے تھے۔ مجروح نے اپنا پہلا فلمی گیت‘غم دئیے مستقل’ 1945ء میں فلم شاہجہاں کے لیے تحریر کیا تھا۔ اسی نغمے نے مجروح کو فلمی نغمہ نگاروں کی پہلی صف میں لا کھڑا کیا۔ ان کا فلمی گیت لکھنے کا اپنا ایک خاص انداز تھا ۔ فلمی گیتوں میں بھی مجروح نے ادبی تقاضوں کو برقرار رکھا۔

ان کے فلمی گیتوں میں خیالات کی نازکی سے بخوبی اندازا لگایا جا سکتا ہے کہ یہ ایک ایسے تخلیق کار کے قلم سے وجود میں آئے ہیں جوغزلیہ شاعری کا گہرا ادراک رکھتا ہے اور جس نے تمام رموز سامنے رکھ کر اپنے تجربات اشعار کے قالب میں ڈھالے ہیں۔مجروح نے پچاس سال فلمی دنیا کو دیئے۔ انھوں نے300 سے بھی زائد فلموں میں ہزاروں گیت لکھے۔ ان کے سینکڑوں نغمے آج بھی ان کے شیدائیوں کے ذہنوں میں محفوظ ہیں۔

سال 1945ء کی بات ہے جب مجروح نے ممبئی کے ایک مشاعرے میں شرکت کی تھی۔ یہ وہ دور تھا جب ان کی شاعری ادبی حلقوں میں اپنا پرچم لہرا رہی تھی۔ ممبئی کا اس مشاعرے نے مجروح کی زندگی کا رخ ہی موڑ دیا۔

مذکورہ مشاعرے میں فلم انڈسٹری کے مشہور پروڈیوسر اے آر کاردار بھی شریک تھے جنھیں ان کی شاعری نے اپنا دلدادہ بنا لیا۔ کاردار نے فوراً مجروح کے پاس نغمہ نگاری کی پیش کش کی۔ حالانکہ اس وقت انھوں نے منع کر دیا لیکن جب جگر مراد آبادی نے مجروح کو سمجھایا تو وہ راضی ہو گئے۔

 پھر کاردار نے موسیقار نوشاد سے مجروح کی ملاقات کرائی۔ یہ وہ موقع تھا جب دو بڑی شخصیتوں کا ‘ملن’ ہو رہا تھا۔ نوشاد نے فوراً ایک دھن پیش کی اور نغمہ لکھنے کی فرمائش کی۔ گویا مجروح کا پہلا فلمی نغمہ منظر وجود پر آیا۔ وہ نغمہ تھا:

جب اس نے گیسو بکھرائے بادل آیا جھوم کے، مست امنگیں لہرائی ہے رنگیں مکھڑا چوم کے مجروح نے اپنی زندگی میں کم و بیش 70 غزلیں لکھی ہیں جب کہ فلمی نغموں کی تعداد تقریباً 4000 ہے۔