سیاستمضامین

کیا آزاد کریں گے کشمیر میں بھاجپا کا خواب پورا

سوال یہ ہے کہ غلام نبی آزاد نے یہ قدم جلد بازی میں اٹھایا ہے یا پھر اس کے کچھ سیاسی معنیٰ ہیں ۔ وزیراعظم نریندرمودی کے ذریعہ پارلیمنٹ میں آزاد کی تعریف، پدم بھوشن سے نوازا جانا اور 5 ساؤتھ ایونیو کے بنگلہ کو خالی نہ کرائے جانے کو جموں وکشمیر کے الیکشن سے جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے ۔ آزاد نے اپنے استعفیٰ میں جن نکات کو اٹھایا ہے ان میں کئی باتیں ایسی ہیں جن پر کانگریس پارٹی کو توجہ دینی چاہئے ۔ مگر استعفیٰ کے بجائے یہ باتیں انہیں ورکنگ کمیٹی میں اٹھانی چاہئے تھی ۔ ا

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی

کانگریس چھوڑنے والوں میں غلام نبی آزاد پہلے شخص نہیں ہیں ۔ پارٹی سے علیحدہ ہونے والوں کی لمبی فہرست ہے ۔ جن میں کے کام راج، مورارجی دیسائی، چودھری چرن سنگھ، بہوگنا، پی اے سنگما، وی پی سنگھ جیسے سینئر اور جیوترادتیہ سندھیا، سنیل جاکھڑ، ہیمنتا بسوا سرما، جے ویر شیرگل اور جتن پرساد جیسے نوجوان لیڈران کا نام شامل ہے ۔ پارلیمنٹ میں کانگریس کو چھوڑ کر بی جے پی کا دامن تھامنے ممبران کی تعداد قابل ذکر ہے ۔ کئی ایسے بھی ہیں جنہوں نے پارٹی کو چھوڑا پھر گھر واپسی کی ۔ سیاسی جماعتوں میں لیڈروں کا شامل ہونا اور چھوڑنا عام بات ہے ۔ کانگریس میں اس کی سیاسی فکر، نظریہ اور سوچ پر عہدہ اور اقتدار میں بنے رہنے کا تصور حاوی رہا ہے ۔ حالانکہ کانگریس سیوا دل کارکنوں کے درمیان پارٹی کی فکر و نظریہ کو مضبوطی دینے کے لئے کام کرتا ہے ۔ سیوا دل کے غیر فعال ہونے اور ہائی کمان کلچر کے بڑھنے سے (مینیجرس) چاپلوسوں کی چاندی ہوگئی ۔ کام کرنے والے زمین سے جڑے کارکنان پیچھے رہ گئے ۔ ان کے ذمہ دری بچھانے اور بھیڑ جمع کرنے کا کام رہ گیا ۔ انہیں نہ ٹکٹ دیا گیا نہ پارٹی میں جگہ ۔ عہدے، راجیہ سبھا اور حکومت میں وزارت سب خوشامدیوں کے حصہ میں آئی ۔ ان میں سے اکثر کانگریس کی لہر میں بھی الیکشن لڑنے کی ہمت نہیں کر سکے ۔ پھر بھی پارٹی میں ان کی طوطی بولتی رہی ۔ مگر جب بھی ایسے لوگوں کو عہدہ، راجیہ سبھا یا حکومت میں شامل ہونے کا موقع نہیں ملا انہوں نے کانگریس کو الوداع کہہ دیا ۔ اشوک گہلوت نے غلام نبی آزاد کو سنجے گاندھی کی ٹیم کا ممبر بتاتے ہوئے ایسے ہی لوگوں میں شامل کیا ہے ۔
کانگریس سے غلام نبی آزاد ایسے وقت مستعفی ہوئے ہیں جب پارٹی تنظیمی انتخاب کی طرف آگے بڑھ رہی ہے ۔ پارٹی کے صدر کو منتخب کرنے کی تاریخوں کا اعلان ہو چکا ہے ۔ آزاد نے اس انتخاب کو ڈھکوسلہ بتاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ کانگریس پوری طرح ختم ہو گئی ہے ۔ کانگریس نے قومی سطح پر بی جے پی کے اور ریاستی سطح پر ریجنل پارٹیوں کے لئے جگہ خالی کردی ہے ۔ انہوں نے الزام لگایا کہ یہ سب کچھ اس لئے ہوا کہ گزشتہ آٹھ برسوں سے پارٹی پر ایسے شخص کو تھوپنے کی کوشش کی گئی جو سنجیدہ نہیں ہے ۔ انہوں نے راہل گاندھی کے ذریعہ یو پی اے حکومت کے ایک بل کی کاپی پھاڑے جانے کا ذکر کرتے ہوئے اسے بچکانہ قدم قرار دیا اور کہا کہ اس کی وجہ سے کانگریس 2014 کا الیکشن ہار گئی ۔ 2013 کے بعد راہل گاندھی کی سربراہی میں لڑے گئے49 میں سے39 اسمبلی انتخابات میں پارٹی کو ہار کا منھ دیکھنا پڑا ۔ انہوں نے کہا کہ راہل گاندھی 2019 میں جلد بازی میں مستعفی ہو گئے ۔ انہوں نے پارٹی میں صلاح مشورے کے نظام کو درہم برہم کر دیا اور سینئر لیڈروں کو نظر انداز کر بے عزت کیا ۔ آزاد اپنے خط میں یہ بتانا بھول گئے کہ انہوں نے پارٹی کو الیکشن جتانے کے لئے کیا کیا؟ پارٹی کی کمیوں کو دور کرنے کے لئے کیا قدم اٹھائے ۔ انہوں نے راہل گاندھی کے فیصلوں پر انگلی اٹھاتے ہوئے کہا راہل کے فیصلے ان کی متر منڈلی اور ان کا گارڈ لیتے ہیں ۔ مگر وہ یہ بھول گئے کہ کرناٹک، مدھیہ پردیس، راجستھان، چھتیس گڑھ میں پارٹی کو جیت کس نے دلائی ۔ گجرات اور ہریانہ میں کانگریس بی جے پی کو ٹکر کس کی منصوبہ بندی کی وجہ سے دے پائی ۔ آزاد نے پانچ صفحات پر مشتمل اپنے استعفیٰ کے تین صفحات میں پارٹی کے تئیں اپنی وفاداری کو بیان کیا ہے ۔ ڈیڑھ صفحے میں راہل گاندھی پر سنگین الزامات لگائے اور آخر میں کہا کہ بھاری من سے یہ قدم اٹھا رہا ہوں ۔
مئی 2019 میں انہی غلام نبی آزاد نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اگر کانگریس کو کوئی لیڈر شپ دے سکتا ہے تو وہ راہل گاندھی ہیں ۔ اگر کوئی قومی سطح پر اپوزیشن کا رول ادا کر سکتا ہے تو وہ صرف راہل گاندھی کر سکتے ہیں کیونکہ انہوں نے پچھلے چند سالوں میں یہ کیا بھی ہے ۔ غلام نبی آزاد کا راجیہ سبھا ٹرم جنوری 2021 میں پورا ہوا ۔ اسی کے ساتھ وہ راجیہ سبھا میں اپوزیشن کے لیڈر بھی نہیں رہے ۔ اس وقت پارٹی انہیں دوبارہ نومی نیشن دینے کی حالت میں نہیں تھی ۔ انہوں نے فروری میں سینئر لیڈروں کے ساتھ جموں میں طاقت کا مظاہرہ کرکے پارٹی پر دباؤ بنانے کی کوشش کی ۔ مارچ 2021 میں انہوں نے جی 23 بنا دیا ۔ جی 23 میں بھوپینڈر ہڈا کے علاوہ کوئی لیڈر ایسا نہیں ہے جو زمین سے جڑا ہو ۔ اپنی بنیاد پر الیکشن جیت سکتا ہو یا کسی کو جتا سکے ۔ ویسے راجیہ سبھا کے چار ٹرم سے زیادہ کسی کو نہ دینے کی کانگریس میں روایت رہی ہے ۔ نجمہ ہیبت اللہ سمیت ایسے لوگوں کی طویل فہرست ہے جنہوں نے چار ٹرم پورے ہونے کے بعد یا تو پارٹی چھوڑ دی یا پھر سیاست سے سنیاس لے لیا ۔ مگر کسی نے بھی تہذیب کے دامن کو نہیں چھوڑا ۔ غلام نبی آزاد کے بھی چار ٹرم پورے ہو چکے ہیں ۔ پھر بھی پارٹی نے انہیں تمل ناڈو سے راجیہ سبھا لانے کی کوشش کی تھی مگر بات نہیں بنی ۔ آزاد کو پارٹی انتخاب میں نمبر دو بننے کی امید تھی ۔ لیکن کارگزار صدر کے لئے جن ناموں پر غور کیا جا رہا ہے اس میں آزاد کا نام نہیں ہے ۔ آزاد کا استعفیٰ اسی کا نتیجہ مانا جا رہا ہے ۔
آزاد کے استعفیٰ کی ٹائمنگ ٹھیک نہیں ہے کیونکہ پارٹی پہلی مرتبہ ملک گیر”بھارت جوڑو یاترا” شروع کرنے والی ہے ۔ یہ یاترا کانگریس بغیر جھنڈے کے نکالے گی ۔ اس کے ذریعہ مہنگائی، بے روزگاری، پولرائزیشن کے خلاف تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لانے کی کوشش کی جائے گی ۔ سچن پائلٹ نے آزاد کے استعفیٰ پر اپنا تاثر دیتے ہوئے کہا کہ کہ غلام نبی آزاد اپنی ذمہ داری سے پیچھے ہٹے ہیں ۔ آج جب کانگریس کو مل کر کام کرنے اور بی جے پی کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے ۔ ایسے وقت وہ پارٹی چھوڑ کر چلے گئے ۔ اجے ماکن نے ان کے استعفے کو افسوسناک بتاتے ہوئے کہا کہ انہوں نے پارٹی کو دھوکہ دیا ہے ۔ وہیں جے رام رمیش نے ان کا رموٹ کنٹرول وزیراعظم نریندرمودی کے پاس بتاتے ہوئے کہا کہ انہیں پارٹی قیادت نے سب سے زیادہ عزت دی، وہ پارٹی کے سبھی عہدوں پر رہے، سبھی ریاستوں کے نگراں، مرکز میں جنرل سکریٹری، ورکنگ کمیٹی کے ممبر، کابینہ وزیر اور راجیہ سبھا میں اپوزیشن لیڈر لیکن انہوں نے کانگریس قیادت پر حملہ کرکے اپنا اصلی چہرہ دکھا دیا ۔ پون کھیرا نے اسے پارٹی کو کمزور کرنا بتایا اور کہا کہ ایسے لوگوں کی وجہ سے ہی کانگریس کی یہ حالت ہوئی ہے ۔ علامتی ہی سہی آزاد کی پارٹی میں اپنی اہمیت تھی ۔ دور سے دیکھنے والوں کو آزاد کا استعفیٰ پارٹی کو جھٹکا محسوس ہوگا ۔ لیکن انتخابات پر ان کی علیحدگی کا کوئی اثر پڑے گا اس کا امکان کم ہے ۔
سوال یہ ہے کہ غلام نبی آزاد نے یہ قدم جلد بازی میں اٹھایا ہے یا پھر اس کے کچھ سیاسی معنیٰ ہیں ۔ وزیراعظم نریندرمودی کے ذریعہ پارلیمنٹ میں آزاد کی تعریف، پدم بھوشن سے نوازا جانا اور 5 ساؤتھ ایونیو کے بنگلہ کو خالی نہ کرائے جانے کو جموں وکشمیر کے الیکشن سے جوڑ کر دیکھا جا رہا ہے ۔ آزاد نے اپنے استعفیٰ میں جن نکات کو اٹھایا ہے ان میں کئی باتیں ایسی ہیں جن پر کانگریس پارٹی کو توجہ دینی چاہئے ۔ مگر استعفیٰ کے بجائے یہ باتیں انہیں ورکنگ کمیٹی میں اٹھانی چاہئے تھی ۔ استعفیٰ میں شامل کئے گئے نکات کا مخالفین فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔ آزاد کی حمایت میں ان کے استعفیٰ کے چند گھنٹوں کے اندر جموں کشمیر کے آٹھ سینئر کانگریسی لیڈران کے استعفیٰ کی خبر آئی۔ ان میں وزیر رہے آر ایس چب، جی ایم سروری اور عبدالرشید شامل ہیں ۔ سابق ایم ایل اے محمد امین بٹ، گلزار احمد وانی، چودھری محمد اکرم ودھان پریشد کے سابق ممبر نریش گپتا اور پارٹی لیڈر سلمان نظامی وغیرہ شامل ہیں ۔ اب 64 اور کانگریسیوں کے استعفیٰ کی خبر آئی ہے ۔ اس پس پردہ کسی بڑے سیاسی کھیل کا احساس ہوتا ہے ۔
آزاد کا تعلق جموں کے ڈوڈا علاقہ سے ہے ۔ یہ ایسی جگہ واقع ہے جہاں جموں کا میدانی علاقہ ختم ہوتا ہے اور کشمیر کی وادی شروع ہوتی ہے ۔ یہ بھی دو حصوں میں بٹا ہے کشت واڑ مسلم اکثریتی اور بھدروا ہندو اکثریتی علاقہ ہے ۔ دہشتگردی کے دور میں حفاظتی دستوں کے لئے یہ سب سے بڑی چنوتی رہا ہے ۔ آزاد یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اکیلے ایسے لیڈر ہیں جو جموں کے بھی ہیں اور کشمیر کے بھی ۔ جبکہ نہ ڈوگری بولنے کی وجہ سے جموں والے انہیں اپنا مانتے ہیں اور نہ کشمیری بولنے کی وجہ سے کشمیری ۔ کیونکہ انہوں نے جموں وکشمیر کے لئے کبھی بھی کچھ نہیں کیا ۔ اس لئے ان کا زمینی سطح پر کوئی خاص اثر نہیں ہے ۔ کانگریس نے آزاد کو ریاستی صدر بنانے کی پیشکش کی تھی جسے انہوں نے ٹھکرا دیا ۔ پھر کیمپین کمیٹی کا چیرمین بنایا گیا لیکن چند گھنٹوں کے بعد ہی انہوں نے اس سے بھی استعفیٰ دے دیا تھا ۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ جموں وکشمیر میں کبھی بھی انتخابات ہو سکتے ہیں ۔ جو بی جے پی کی حکومت بنانے کے لئے ہوں گے ۔ غلام نبی آزاد ایک مہرے کے طور پر پنجاب کے امریندر سنگھ کی طرح نئی سیاسی پارٹی بنا کر انتخاب میں ووٹ کٹوا پارٹی کا رول ادا کر سکتے ہیں ۔ انتخابی حلقوں کی نئی حد بندی کے مطابق جموں میں 43 اور کشمیر میں 47 اسمبلی سیٹوں پر انتخاب ہونا ہے ۔ بی جے پی چاہتی ہے کہ آزاد کانگریس، نیشنل کانفرنس اور پی ڈی پی کے ووٹ کاٹیں اور بی جے پی وہاں سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھرے ۔ تاکہ وہ پہلی مرتبہ جموں وکشمیر کا وزیر اعلیٰ کسی غیر مسلم کو بنا سکے ۔ اگر ایسا ہوا تو اس میں غلام نبی آزاد کا رول اہم ہوگا ۔ انتظار کیجئے آنے والا وقت ہر راز سے پردہ اٹھا دے گا ۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰