مضامین

بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے 10 سال

منور مرزا

حالیہ زمانے میں شاید ہی کسی ترقّیاتی منصوبے سے عالمی تجارت میں اِتنی غیر معمولی تبدیلیاں آئی ہیں، جتنی چین کے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے سے آئیں۔یہ منصوبہ صدر شی جن پنگ کے معاشی ویژن کا عکّاس ہے اور وہ اس کے علم بردار بھی ہیں، جس کے ذریعے وہ دنیا کو اقتصادی طور پر قریب لانے کا فریضہ سرانجام دے رہے ہیں۔ ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ اِس منصوبے کے لیے سارا سرمایہ، ٹیکنالوجی اور مہارت چین فراہم کر رہا ہے۔ اِس میں سرمایہ کاری کے پراجیکٹس بھی ہیں اور انفرا اسٹرکچر کے منصوبے بھی۔چین کا دعویٰ ہے کہ اس نے 150 ممالک میں براہِ راست سرمایہ کاری اور جدید ٹیکنالوجی کی فراہمی سے دنیا بدلنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور یہ درست بھی ہے۔
دس سال قبل جب بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا آغاز ہوا، تو اس کی کام یابی سے متعلق بہت سے شکوک و شبہات کا اظہار کیا گیا۔اس کی مخالفت ہوئی اور اس میں شمولیت سے انکار کیا گیا، لیکن چینی قیادت کے عزم نے ان سب مشکلات پر نہ صرف قابو پایا، بلکہ پائیدار ترقّی کی ایک ایسی راہ داری فراہم کردی، جو اپنی مثال آپ ہے اور آج دنیا کی دوسری بڑی طاقتیں اس کی پیروی پر مجبور ہیں۔ دہلی میں ہونے والی حالیہ جی۔20 کانفرنس میں ہندوستان، مِڈل ایسٹ اور یوروپ کے درمیان جس تجارتی راہ داری کا اعلان کیا گیا، وہ دراصل چین کی کامیابی کا اعتراف ہے۔
چین کے صدر مقام، بیجنگ میں بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے دس سال مکمل ہونے پر ایک شان دار تقریب ہوئی، جس میں 133ممالک کے سربراہان اور رہنماؤں نے شرکت کی۔پاکستان اِس منصوبے کا ایک اہم شراکت دار ہے اور اس کے حصّے کو سی پیک، یعنی چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور کا نام دیا گیا ہے۔ گوادر پورٹ اور اس سے منسلک شاہ راہیں، جو چین اور وسط ایشیا میں رابطے کا ذریعہ بنیں گی، چین، پاکستان ترقّیاتی تعاون کی ایک بڑی عملی مثال ہے۔پاکستان کے وزیرِ اعظم، انوارالحق کاکڑ نے اِس تقریب میں شرکت کی اور یقین دلایا کہ پاکستان ہر حال میں سی پیک منصوبے کو تکمیل تک پہنچائے گا۔
بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا آغاز2013 ء میں ہوا۔قدیم شاہ راہِ ریشم کی طرز پر یہ جدید منصوبہ، جہاں دنیا کو تجارت کے ذریعے منسلک کرنے کی راہیں کھولتا ہے، وہیں تاریخ میں پہلی بار چین کو عالمی سیاست اور معیشت میں مستحکم کرنے کا بھی ذریعہ ہے۔اگر چین کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے، تو اِس عظیم ایمپائر نے ہمیشہ اپنی طاقت اور اثرات علاقائی حد تک ہی محدود رکھے۔
اِس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ چین کے غیر معمولی طور پر بڑے رقبے اور آبادی کی کثرت کے سبب اس کے حْکم رانوں نے اپنے ہی ملک کے عوام کی خوش حالی پر توجّہ مرکوز رکھی۔لیکن اِس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ اس کا باقی دنیا سے رابطہ نہیں تھا۔سِلک رْوٹ بیرونی دنیا سے رابطے کا واضح ثبوت ہے، جس کے ذریعے تجارتی مال ایشیا سے مشرقِ وسطیٰ تک پہنچتا رہا اور پھر وہاں سے یوروپ کی مارکیٹس تک جاتا۔
سیّاح مارکو پولو کے سفر نامے کے مطالعے سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صدیوں پہلے جب یوروپ اور آج کے ترقّی یافتہ ممالک پس ماندہ تھے، اْس وقت بھی چین ترقّی میں آگے آگے تھا۔سِلک رْوٹ اور بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کا موازنہ بتاتا ہے کہ چین کی قیادت نے ہمیشہ عالمی رابطوں کے لیے تجارتی راہ داری کو ترجیح دی ہے۔یہ اِس لیے بھی ایک بہتر انتخاب ہے کہ راہ میں آنے والا ہر مْلک اس سے مستفید ہوتا ہے۔
بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں بیلٹ اْن زمینی راستوں پر مشتمل ہے، جو چین کو وسط ایشیا سے ملاتے ہیں، ان میں جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا شامل ہیں۔روڈ سے مْراد وہ سمندری راستے ہیں، جو ایک نیٹ ورک کی شکل میں چین کی بڑی بندرگاہوں کو افریقہ اور یوروپ سے منسلک کریں گے۔ پاکستان کا گوادر پورٹ اِسی کا حصّہ ہے۔
اِس منصوبے کے شروع میں چین نے سرمایہ کاری کے ذریعے متعلقہ ممالک کے بنیادی ڈھانچے مضبوط کیے۔اِس ضمن میں انرجی اور ٹرانسپورٹ کے منصوبے خاص طور پر اہم ہیں، جن کے ذریعے پاور پلانٹس اور ریلوے نظام بہتر بنائے گئے یا جہاں موجود نہیں تھے، وہاں تعمیر کیے گئے۔ اِس مقصد کے لیے ایک کھرب ڈالر کی سرمایہ کاری کی گئی۔اس سے دو فائدے ہوئے،ایک تو اْن ممالک کی ترقّی کی صلاحیت بہتر ہوئی، جن کے پاس سرمائے اور ٹیکنالوجی کی کمی تھی۔پھر یہ کہ عوام کے معیارِ زندگی پر بھی بہتر اثرات مرتّب ہونے کے امکانات سامنے آئے۔
دوسرا فائدہ چین کو ہوا، وہ ایسے کہ اْس کی کمپنیز کو دوسرے ممالک میں کام کا موقع ملا۔اپنی افرادی قوت کو روزگار فراہم کیا، جب کہ اْس کے بینکس بھی مضبوط ہوئے، کیوں کہ مختلف ممالک کو زیادہ تر قرضے اِنہی چینی بینکس کے ذریعے فراہم کیے گئے۔نیز، منصوبوں کی تکمیل سے چین کی ساکھ میں اضافہ ہوتا ہے اور یہ تاثر اْبھرتا ہے کہ چین، ساری دنیا کی ترقّی میں شراکت دار ہے اور وہ ہر چھوٹے، بڑے مْلک کو اپنی ترقّی میں شریک کر رہا ہے۔پھر اقتصادی میدان میں اس نے ایک اور کارنامہ انجام دیا۔وہ یہ کہ چین کا یوآن پہلی مرتبہ بین الاقوامی کرنسی کے طور پر سامنے آیا ہے۔نہ صرف یوآن میں لین دین عام ہوا، بلکہ یہ بحث بھی چِھڑ گئی کہ کیا یوآن ایک دن ڈالر کے مقابلے پر بھی آ سکتا ہے۔ اور مالیاتی دنیا میں یہ کوئی معمولی بات نہیں۔
چین نے اپنے اِس عظیم منصوبے کے تحت دس سال میں 19.1کھرب ڈالرز کی تجارت کی، جس میں تیار مال کی برآمدات کو فوقیت حاصل رہی۔تاہم، جیسے جیسے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے میں وسعت آتی گئی، چین کو تیل، گیس اور دیگر معدنیات تک بھی رسائی حاصل ہوتی چلی گئی، جو اس کی ترقّی کی ضرورت تھی۔خاص طور پر اس نے جو معاہدے مشرقِ وسطیٰ، افریقہ اور جنوبی امریکہ میں کیے، اْن سے بہت فائدہ ہوا۔چین کی مقامی کمپنیز، ملٹی نیشنل کمپنیز میں بدل گئیں، جب کہ اسے وہ وسائل حاصل ہونے لگے، جو کسی بھی بڑی طاقت کا لازمہ ہیں۔
چین نے مغرب سے مقابلے کے لیے میدانِ جنگ کی بجائے مارکیٹ کا چُناؤ کیا، اِسی لیے ہر طرح کے فوجی تصادم سے گریز کرتے ہوئے مسلسل آگے بڑھتا گیا۔مغرب اِسی لیے چین کو اپنا سب سے طاقت وَر حریف سمجھتا ہے۔ایک طرح سے چین نے بھی جاپان اور جرمنی کی طرح کا رویّہ اختیار کیا کہ آج کی دنیا میں اقتصادی قوت، فوجی قوت سے برتر ہے۔ جب سرمایہ ہو، تو فوجی طاقت حاصل کرنا کچھ مشکل نہیں رہتا۔
دِل چسپ بات یہ ہے کہ یہ تینوں بڑی طاقتیں دوسری جنگِ عظیم کی وجہ سے تباہ ہوئیں۔جاپان نے ایٹم بم کی صورت تباہی دیکھی، جرمنی کو جنگ میں شکست فاش ہوئی اور وہ دو حصّوں میں بٹ گیا، جب کہ چین پر جاپان نے قبضہ کرلیا اور اسے1945 ء میں اْس وقت آزادی ملی، جب جاپان ایٹم بم کے بعد کسی قابل نہیں رہ گیا تھا۔چین نے اِس منصوبے میں انرجی کو ترجیح دی ہے، جو کسی بھی مْلک کی ترقّی کا بنیادی پیمانہ ہے۔ وسط ایشیا اور روس سے گیس پائپ لائنز نے اس کی انرجی ضروریات پورا کیں، جس کے لیے وہ کبھی جاپان، جنوبی کوریا اور امریکہ پر انحصار کیا کرتا تھا۔
یہ مغرب کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے کہ چین اب خود مختاری کی پالیسی میں بڑی حد تک کام یاب ہوچْکا ہے اور اب اس پر سیاسی دباؤ ڈالنا ممکن نہیں رہا۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے تحت مختلف پراجیکٹس اْن قرضوں سے مکمل کیے جاتے ہیں، جو چینی بینکس فراہم کرتے ہیں اور یہ قرضے اب کھربوں ڈالرز تک جا پہنچے ہیں۔ جو مْلک یہ قرضے لیتے ہیں، اْنھیں ان کی فوری واپسی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، کیوں کہ ان کی کم زور معیشتیں اس کی اجازت نہیں دیتیں۔ اِسی لیے چین قرضوں کی وصولی کی مدّت میں بار بار توسیع کرتا رہتا ہے، لیکن وہ قرضے معاف بالکل بھی نہیں کرتا۔
مغرب، چین پر تنقید کرتا ہے کہ اْس کے یہ قرضے چھوٹے ممالک پر بوجھ بنتے جارہے ہیں، لیکن اس میں اْن ممالک کا بھی قصور ہے، جو ان قرضوں کا درست استعمال نہیں کرپاتے۔ اگر کوئی منصوبہ تین سال میں مکمل کرنا ہے، تو چین اْسے ہر حال میں مقرّرہ وقت پر مکمل کر رہا ہے، اب یہ میزبان ممالک کی ذمّے داری ہے کہ وہ ان منصوبوں سے فوری فوائد حاصل کرنے کا انتظام رکھیں تاکہ اْن کے منافعے سے قرضوں کی ادائی میں آسانی ہو۔ بہرحال، یہ قرضے کئی پیچیدگیوں کا باعث ضرور ہیں۔ مغرب کا یہ بھی الزام ہے کہ چین یہ قرضے اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کرتا ہے۔تاہم، چین ان الزمات کی تردید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ یہ راہ داری کسی ایک مْلک کی نہیں ہے، اسے سب استعمال کرسکتے ہیں اور ان منصوبوں سے فوائد سمیٹنے کے لیے تمام مْلک آزاد ہیں۔
صدر شی جن پنگ نے بجا طور پر کہا تھا کہ ”اب وقت آگیا ہے کہ چین دنیا کے مرکزی اسٹیج پر اپنا کردار ادا کرے۔“ یعنی ایک اہم بین الاقوامی طاقت کے طور پر سامنے آئے۔اِس امر میں کوئی دو رائے نہیں کہ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے نے چین کے سیاسی اثرات اور سافٹ پاور کو عالمی سطح پر منوانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔جب چین کی قیادت نے اقتصادی ترقّی کو ہر پالیسی پر ترجیح دینے کا فیصلہ کیا، تو پھر وہ اس پر چٹان کی طرح جم گئے۔ لیڈر آتے جاتے رہے، لیکن اْن کا ہدف ایک ہی ہے۔
پہلے34سالوں میں اْنہوں نے مْلکی پیداواری صلاحیتیں بڑھاتے ہوئے اسے مال کی فیکٹری بنایا۔جب کہ 2013ء کے اگلے دس سالوں میں چین نے جو دولت جمع کی، اْسے عالمی طاقت اور اثر و رسوخ بڑھانے پر استعمال کیا۔اِس سے پتا چلتا ہے کہ ترقّی کا یہ منصوبہ کسی ایک لیڈر یا نظریئے تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک پچاس سالہ پلان ہے، جو نسل در نسل منتقل ہو رہا ہے۔اِس منصوبے سے چین کی عالمی حمایت میں بھی اضافہ ہوا ہے اور بہت سے ممالک اب بہتر طور پر اس کی پالیسیز سمجھنے لگے ہیں۔ اس کا امیج ایک دوست اور مدد کرنے والے ہم درد مْلک کے طور پر اْبھرا ہے۔
چین نے مغرب مخالف پالیسی میں یہ بات شامل نہیں رکھی کہ وہ سرمائے اور قرضوں کے ذریعے کسی کو اپنی حمایت پر مجبور کرے، بلکہ وہ صرف اِسی پر قانع ہے کہ ہر مْلک اْس کی اہمیت محسوس کرے اور ضرورت پڑنے پر اْس سے مدد لینے میں نہ ہچکچائے،اس کی ایک اچھی مثال مشرقِ وسطیٰ میں دیکھی جاسکتی ہے۔سعودی عرب اور خلیجی ممالک امریکہ کے کھلے اتحادی ہیں، تاہم اْنہوں نے اب چین سے بھی اربوں ڈالرز کے معاہدے کیے ہیں، جن میں تیل سے لے کر جدید ٹیکنالوجی تک کے منصوبے شامل ہیں۔ اِس سے پہلے عرب ممالک میں مغربی کمپنیز کی اجارہ داری تھی۔
اْنہوں ہی نے تیل نکالا، ڈیمز بنائے، بڑے تعمیراتی منصوبے مکمل کیے، مواصلاتی نظام قائم کیا، یوں کہا جاسکتا ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں بلند معیارِ زندگی کا پیمانہ مغربی ممالک رہے ہیں۔اب پہلی دفعہ یہ عرب ممالک چین کے قریب آرہے ہیں۔سعودی عرب نے حال ہی میں اس سے25بلین ڈالرز کے معاہدے کیے ہیں۔اِس طرح چین پہلی مرتبہ مال سپلائی کرنے والے مْلک سے آگے بڑھ کر سرمایہ کاری اور منصوبہ سازی کے عمل میں شامل ہوا ہے۔
٭٭٭