دہلی

ہتھرس کیس‘ صدیق کپن ضمانت کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع

کپن کے وکیل نے بتایا کہ عدالت نے اس گاڑی کے ڈرائیور کو ضمانت دے دی ہے جس میں وہ سفر کررہے تھے۔ کپن کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ وہ ”ازی مکھم“ اخبار کے ملازم ہیں اور پریس کلب آف انڈیا کے علاوہ کیرالا یونین آف ورکنگ جرنلسٹس کے رکن بھی ہیں۔

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے آج یہاں اس بات سے اتفاق کیا کہ جمعہ 26 اگست کو کیرالا کے صحافی صدیق کپن کی درخواست ِ ضمانت کی سماعت کرے گا۔ اترپردیش پولیس نے 5 اکتوبر 2020ء کو کپن اور دیگر 3 افراد کو انسدادِ غیرقانونی سرگرمیاں قانون کے تحت اْس وقت گرفتار کرلیا تھا جب وہ ایک دلت لڑکی کی عصمت ریزی اور قتل واقعہ کی رپورٹنگ کے لئے ہتھرس جارہے تھے۔

کپن کے وکیل نے چیف جسٹس این وی رمنا کی زیرصدارت بنچ پر اس معاملہ کاتذکرہ کیا۔ بنچ نے جمعہ کے روز معاملہ کی سماعت سے اتفاق کرلیا۔ جاریہ ماہ کے اوائل میں الٰہ آباد ہائی کورٹ کی لکھنؤ بنچ نے کپن کی درخواست ِ ضمانت کو مسترد کردیا تھا۔

 سپریم کورٹ میں کپن کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ درخواست ِ ضمانت کو مسترد کرنے کی وجہ سے ایک 12 سالہ تجربہ کار صحافی جنہوں نے کیرالا یونین آف ورکنگ جرنلسٹس کے دہلی چیاپٹر کے سکریٹری کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دی ہیں، جیل میں محروس ہیں۔  بے بنیاد الزامات کی وجہ سے وہ اب تک دو سال سلاخوں کے پیچھے گزار چکے ہیں۔

 ان کا قصور محض اتنا تھاکہ انہوں نے بدنامِ زمانہ ہتھرس عصمت ریزی و قتل کیس کی رپورٹنگ کرنے کا اپنا پیشہ ورانہ فرض ادا کرنے کی کوشش کی تھی۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ اس عرضی میں حق آزادی اور دستور کی جانب سے میڈیا کو دی گئی اظہار کی آزادی کے بارے میں بنیادی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

 کپن کے وکیل نے بتایا کہ عدالت نے اس گاڑی کے ڈرائیور کو ضمانت دے دی ہے جس میں وہ سفر کررہے تھے۔ کپن کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ وہ ”ازی مکھم“ اخبار کے ملازم ہیں اور پریس کلب آف انڈیا کے علاوہ کیرالا یونین آف ورکنگ جرنلسٹس کے رکن بھی ہیں۔

 ان کا ماضی داغدار نہیں ہے اور انہوں نے کبھی قانون کی خلاف ورزی نہیں کی۔ وہ اپنے خاندان کے لیے کمانے والے واحد شخص ہیں۔ اکتوبر 2020ء سے قید ہونے کی وجہ سے ان کے ارکانِ خاندان کو ناقابل بیان مالی و ذہنی مسائل کا سامنا ہے۔

 درخواست میں کہا گیا کہ انہیں اس بوگس دعویٰ کی بنیاد پر گرفتار کیا گیا کہ نقض امن کا اندیشہ ہے۔ حکومت ِ اترپردیش نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ پاپولر فرنٹ آف انڈیا سے وابستہ پائے گئے ہیں، جو ممنوعہ تنظیم اسٹوڈنٹس اسلامک مؤومنٹ آف انڈیا (سیمی) کی دوسری شکل ہے۔