سیاستمضامین

ساری دنیا سے دوردرہم اور ہندوستانی کرنسی کے تبادلے کا عجیب معاہدہ

سلیم مقصود

یواے ای کی کرنسی درہم اور ہندوستانی کرنسی روپے میں باہمی تجارت اور حصول زرمبادلہ کی کوشش واقعی ایک بہت ہی خوشگوار عمل ثابت ہوسکتی ہے لیکن یہ عمل اس صورت حال میں ممکن ہے جب دونوں ممالک کے درمیان شدت اور کثرت کی تجارت قائم ہوجائے اور دونوں فریق اپنی اپنی کرنسی کی متعین شرحوں کو قبول کرنے کے موقف میں ہو ںاور زر مبادلہ میں اضافہ‘ تجارت و خرید وفروخت کے علاوہ دیگر مالی معاملات بھی اس پر ممکن ہوں۔ ڈالر‘ پاؤنڈ اور یورو کی معاملت ساری دنیا میں اس لئے چلتی ہے کہ ان کرنسیوں کے تبادلے کا چلن لازمی ہوچکا ہے۔ ڈالر سے تمام ملکوں کو اب ایک ساتھ نجات حاصل نہیں ہوسکتی۔ خصوصاً غریب اور نیم ترقی یافتہ ممالک کو اپنی تیار کردہ تمام اشیاء کے دام ڈالر میں مل جانے سے ان کے زر مبادلہ میں اضافہ ہوجاتا ہے اور ان کامالی موقف بھی مستحکم ہونے لگتا ہے جیسے حالیہ عرصہ میں بنگلہ دیش کے حالات بدل چکے ہیں اور اب وہ ساری دنیا سے اپنی ضروریات کی اشیاء آسانی سے حاصل کرسکتا ہے ورنہ اس کی کمزور حالت سے عالمی مارکٹ میں کوئی مالی مقام اسے حاصل نہیں ہوسکتا تھا۔ عالمی سطح پر جو ممالک اپنا مقام بنانا چاہتے ہیں انہیں عالمی مارکٹ میں موقف بنانا پڑتا ہے۔ ان کی برآمدات ‘ ان کی تجارتی اشیاء اور ان کے صنعتی ساز و سامان انہیں عالمی مارکٹ میں مقبول بنادیتے ہیں۔ آج صنعت‘ محنت اور سیاحت ایسے شعبے بن چکے ہیں جن سے کم ترقی یافتہ ممالک کو بھی مالی خوشحالی حاصل ہوجاتی ہے۔ مثال کے طور پر ہندوستان کے لیبر اور تعلیم یافتہ افراد کثیر تعداد میں یوروپی اور خلیجی مقامات میں خدمات انجام دیتے ہیں جن کی کاوشوں سے ہندوستان کو کثیرزر مبادلہ حاصل ہوتا ہے۔ ہندوستان کے ایک کروڑ سے زائد محنت کش خلیجی ممالک میں کام کرتے ہیں جن کی محنت سے ہندوستان کو سالانہ 8بلین ڈالر کی آمدنی ہوتی ہے۔ ہندوستان اس رقم سے اپنی تمام ضروریات کی تکمیل کرلیتا ہے اس کے علاوہ ہندوستان میں تیار کردہ بے شمار صنعتی اور غیر صنعتی اشیاء کی تجارت سے بھی ہندوستان کو کثیر رقم حاصل ہوجاتی ہے ‘ یہی سبب ہے کہ ہندوستان کے زر مبادلہ کے ذخائر 600 ملین ڈالر سے تجاوز کرچکے ہیں۔ اس سے ہندوستان کا موقف بہتر ہوچکا ہے۔ اگرچہ چین کا مقام ہندوستان کے مقابلے میں بہت زیادہ مستحکم ہے۔
ہندوستان اور یو اے ای کی کرنسی کے باہمی تبادلے سے دونوں ممالک کی درآمدات اور برآمدات میں اضافہ ضرور ہوجائے گا مگر یو اے ای کی برازدات میں کثیر اضافے سے ہندوستان سے حاصل اس کا زر مبادلہ بھی اضافی رقم میں تبدیل ہوجائے گا مگر اسے اس کثیر دولت کو یہاں سرمایہ کاری کی شکل میں صرف کرنا ہوگا جیسا کہ پرانے زمانے میں کرنسی کی عدم موجودگی کے سبب باہمی تجارتی ممالک ضروری اشیاء کی فروخت اور تجارت سے حاصل ہونے والے منافع کو ضروری اشیاء کے تبادلے میں تبدیل کردیا کرتے تھے۔ اس سے تجارتی اشیاء کی کمی رکھنے والے ممالک کو بہت سا فائدہ حاصل ہوا کرتا تھا۔ یہی فائدہ اب یو اے ای ہندوستان ‘ باہمی تجارت میں ہندوستان کو حاصل ہوسکے گا۔ اس کے علاوہ ایک دور ایسا بھی تھا جب عالمی مارکٹ میں اشیائے ضروریہ کے تبادلے Barter System کا چلن تھا۔ مگر اس نظام میں مشکل یہی تھی کہ ایک ملک کو جس چیز کی ضرورت نہیں رہتی تھی وہی چیز دوسرے ملک کی مارکٹ میں پائی جاتی تھی مثال کے طور پر جس ملک کو گندم کی ضرورت نہیں رہتی تھی وہی کثیر مقدار میں دوسرے تجارتی ممالک میں بھی پایا جاتا تھا اس لئے ایسی مارکٹ میں تجارت ایک مشکل معاملہ بن جاتی تھی۔ اس مشکل کو دور کرنے اور عالمی سطح پر سب سے پہلے باہمی تجارت کو بہتر بنانے کے لئے سونے کے تبادلے کے طریقہ کو عمل میں لایا گیا۔ جس ملک کے پاس سامان تجارت ہوتا تھا اسے حاصل کرنے والے ملک کو ان کے حصول کے لئے اپنا سونا تبادلے میں دینا ہوتا تھا۔ جاپان کے اپنی کرنسی کو بڑھانے اور ساری دنیا میں اپنی کرنسی کی مانگ حاصل کرلینے کے بعد دوسری کرنسیوں کا استحصال کرنے کے باعث ساری دنیا نے کسی ایک کرنسی کے نرخ اور اس کے تبادلے کو متعین کرنے کا سلسلہ شروع کیا ۔ مگر اب الر کو چھوڑ کر اپنا نظام مودی کی شہ پر یو اے ای اور ہندوستان عمل میں لانا چاہتے ہیں اس سے قبل عراق کے حکمران صدام حسین مرحوم نے ڈالر کے غلبے کو ختم کرنے کے لئے بھی ایک تجویز پیش کی تھی جسے عرب ممالک نے مسترد کردیا تھا۔
ہندوستان اور یو اے ای کا یہ اقدام اس وقت پوری طرح کامیاب ہوسکتا ہے جب روس اور دیگر مغربی و ایشیائی ممالک بھی ان کا ساتھ دیں۔ مالی ‘ تجارتی ‘ صنعتی فوائد کے حصول کے بغیر کوئی بھی ملک یہ خطرہ مول نہیں لے گا۔ روسی پٹرول کی سربراہی‘ ہندوستانی کرنسی کے داموں میں کی جانے کی تجویز ایسا لگتا ہے کہ مکمل طور پر روس کو پسند نہیں آئی۔ ہندوستان اور یو اے ای کو اس نئے معاملے میں بہت سی قربانیاں دینی ہوں گی اور بہت سے خطرات کا سامنا کرنا ہوگا۔ دنیا میں کئی طرح کی کرنسیاں ہیں انہیں نظر انداز کرنا آسان نہیں ہے کیا ایسے وقت جب ہندوستانی معیشت اور عالمی تجارت یوکرین کی جنگ کے سبب بہت زیادہ عدم استحکام اور مالی مسائل کا شکار ہے اور اندرون ملک وبیرون ملک برآمداتی و درآمداتی محاصل کا نظام بری طرح بگڑچکا ہے اس عجیب و غریب تجویز پر عمل ممکن ہوسکے گا؟
یو اے ای کے ہندوستان میں متعین سفیر عبدالنصرالشالی نے ہندوستان کے موقر اخبار ’’ ہندو‘‘ کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ اس معاہدے سے تجارتی معاملات کی لاگت کم ہوجائے گی جس سے کرنسی کی شرح گھٹ جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ اس کا مقصد برآزدات اور درآمدات کے معاملے میں بہتر طریقہ کار اپنانا ہے۔ انہوں نے اس بات کا تیقن دیا کہ روپے اور درہم کے تبادلے کا معاہدہ عالمی معیشت کو الر کے خلاف گھسیٹنے کا نہیں ہے۔
ڈالر کے خلاف 22 یوروپی ممالک نے ایک عرصہ تک متفقہ تحریک چلانے کے بعد ’’ یورو‘‘ کو جاری کیا تھا ۔ کیا ایشیاء کے یہ دو غیر ترقی یافتہ ممالک ایسی ہی تحریک میں کامیاب ہوسکیں گے؟ ان دونوں ممالک میں سے ایک ملک ایسا ہے جس کے پاس صرف پٹرول کی دولت ہے اور دوسرے ملک کے لیبر کی تعداد کثیر ہے اور کثیر آبادی کے سبب اس کی تجارتی مارکٹ وسیع ہے اوراس میں ہر سال10 فیصد کے قریب اضافہ ہورہا ہے۔
جن مودی بھگتوں نے افغانستان میں شاید ہندوستان کی امداد سے ایک مندر کی تعمیر کی خبر سن کر افغانیوں کو بھکاری کہا تھا انہیں وزیر صنعت پیوش گوئل کے اس بیان کا جائزہ ضرور لینا چاہیے کہ ہندوستان کے ساتھ حالیہ تجارت کو48بلین ڈالر سے بڑھا کر یو اے ای نے 2030ء تک 100 بلین ڈالر تک پہنچادینے کا وعدہ کیا ہے اس تجارت میں پٹرول کی تجارت شامل نہیں رہے گی۔ مودی حکومت نہایت ہی چالاکی کے ساتھ اس معاہدے کے تمام نکات کی تکمیل کے لئے ایک ذیلی کمیٹی بھی قائم کرے گی۔