حیدرآباد

شہریت قانون کو مذہب سے نہ جوڑا جائے: اسد الدین اویسی

اسد الدین اویسی نے کہا کہ شہریت ترمیمی قانون کو آبادی کے قومی رجسٹر (این پی آر) اور شہریوں کے قومی رجسٹر (این آر سی) سے جوڑنا ہوگا۔ سپریم کورٹ اس معاملہ کی سماعت کررہا ہے۔ دیکھیں کیا ہوتا ہے۔

حیدرآباد: آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین (اے آئی ایم آئی ایم) کے صدر اسد االدین اویسی نے آج وزارتِ داخلہ کے اعلامیہ پر ردّ ِ عمل ظاہر کیا جس کے ذریعہ گجرات کے مزید دو اضلاع کے ضلع کلکٹرس کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ جائز دستاویزات پر ہندوستان میں داخل ہوئی مزید 6 برادریوں سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کو شہریت عطا کریں۔

اویسی نے مشورہ دیا کہ ”آپ کو چاہیے کہ اس قانون کو مذہب کے لحاظ سے غیرجانبدار بنا دیں“۔ مرکزی وزارتِ داخلہ کے اعلامیہ کے بموجب گجرات کے اضلاع آنند اور مہسانہ میں مقیم تارکین وطن ہندوؤں، سکھوں، بدھسٹوں، جین، پارسیوں اور عیسائیوں کو سٹیزن شپ ایکٹ 1955 کے سیکشن 5 کے تحت رجسٹریشن کرانے کی اجازت ہوگی اور اسی قانون کی دفعہ 6 کے تحت نیچر لائزیشن سرٹیفکیٹ بھی دیا جائے گا۔

 ایسے لوگوں کو آن لائن درخواست دینی ہوگی  جس کی تصدیق ضلع کلکٹر کرے گا۔ پوری طرح مطمئن ہونے کے بعد کلکٹر درخواست گزار کو ہندوستانی شہری قرار دے سکتا ہے۔ اسد الدین اویسی نے کہا کہ یہ پہلے سے ہورہا ہے۔ آپ نے پہلے تو ان کو طویل مدتی ویزا دیا اور پھر انہیں (افغانستان کی اقلیتی برادردی کو) شہریت حاصل ہوگی۔

 اس معاملہ کے عدالت میں زیرالتوا ہونے کے سبب اپنے تبصرہ کو محدود کرتے ہوئے اسد الدین اویسی نے کہا کہ شہریت ترمیمی قانون کو آبادی کے قومی رجسٹر (این پی آر) اور شہریوں کے قومی رجسٹر (این آر سی) سے جوڑنا ہوگا۔ سپریم کورٹ اس معاملہ کی سماعت کررہا ہے۔ دیکھیں کیا ہوتا ہے۔

یونیفارم سیول کوڈ نافذ کرنے کے لیے کمیٹی تشکیل دینے بی جے پی کے فیصلہ سے متعلق سوال پر اسد الدین اویسی نے کہا کہ بی جے پی نے الیکشن سے پہلے جو یو سی سی کمیٹی تشکیل دی ہے اس کا مقصد حکومت کی ناکامیوں اور غلط فیصلوں کو چھپانا ہے۔

 انہوں نے کہا کہ ہندوؤں کو غیرمنقسم خاندان ہونے پر ٹیکس میں رعایت کیوں دی جاتی ہے؟ مسلمانوں کو بھی دیں۔ یہ اقدام دستور میں دیے گئے حق مساوات کے بنیادی حق کے خلاف ہے۔ متنازعہ شہریت ترمیمی قانون 2019 (سی اے اے) کے بجائے سٹیزن شپ ایکٹ 1955 کے تحت شہریت دینا اہمیت کا حامل ہے۔

 سی اے اے بھی ان تین ممالک سے آنے والے ہندوؤں، سکھوں، بدھسٹوں، جین، پارسیوں اور عیسائیوں کو ہندوستانی شہریت عطا کرتا ہے، لیکن اس قانون کے تحت حکومت نے اب تک قواعد و ضوابط وضع نہیں کیے ہیں۔ اس قانون کے تحت کسی کو بھی شہریت حاصل نہیں ہوئی ہے۔