قانونی مشاورتی کالم

مسلمان کی جانب سے ورثاء کے نام رجسٹر شدہ وصیت

ایک صاحب ثروت و صاحبِ جائیداد نے اپنی تمام جائیدادیں ۔ نقد و بینک بیلنس اپنے ورثاء میں اس طرح بذریعہ رجسٹر شدہ وصیت نامہ تقسیم کیں۔

سوال:- ایک صاحب ثروت و صاحبِ جائیداد نے اپنی تمام جائیدادیں ۔ نقد و بینک بیلنس اپنے ورثاء میں اس طرح بذریعہ رجسٹر شدہ وصیت نامہ تقسیم کیں۔ جن کی صراحت درجِ ذیل ہے۔

متعلقہ خبریں
طلاق دینے سے متعلق ایک سوال کے جواب کی دوبارہ اشاعت
مالکِ جائیداد کی وفات کے بعد ورثاء آپس میں جائیداد بانٹ سکتے ہیں۔ اگر آپس میں کوئی اختلاف نہ ہو
یہ مقدمہ ان لوگوں کی آنکھ کھولنے کیلئے کافی ہوگا جو قیمتی مقدمات بے ایمان وکلا کے حوالہ کردیتے ہیں
کینڈا میں مسلمانوں کیلئے حلال رہن کیلئے قانون سازی
گناہ سے بچنے کی تدبیریں

-1 بے بیٹے کے حق میں کل جائیداد( مکان۔ دوکان۔ پلاٹس) کا ایک تین چوتھائی یعنی3/4 حصہ ۔

-2 دو چھوٹے بیٹوں کے نام مابقی 1/4 جائیدادیں۔

-3 سارے نقد و زیورات بیوہ کے نام۔

مرحوم کے مطابق چونکہ بڑا بیٹا فرماں بردار اور خدمت گزار ہے اور بزنس میں شامل ہے وہ 3/4حصہ کا حقدار ہے ۔ دو چھوٹے بیٹے نافرمان۔ غیر ذمہ دار اور غلط عادتوں میں ملوث ہیں لہٰذا 1/4 دونوں کے نام۔

-4 بیوی کو نقد زیورات تاکہ تمام زندگی آرام سے گزرے۔ ان کی تاحیات بڑا بیٹااپنی ماں کو بے دخل نہیں کرسکتا۔

بعد میں مرحوم دنیا سے گزرگئے۔ اب سوال یہ ہے کہ یہ وصیت انصاف پر مبنی نظر نہیں آتی۔ انہوں نے انصاف نہیں کیا۔ اس ضمن میں جناب کی رائے مطلوب ہے۔ X-Y-Z حیدرآباد

جواب:- یہ رجسٹر شدہ وصیت غیر شرعی اور غیر قانونی ہے۔ وارث کے حق میں وصیت نہیں کی جاسکتی۔ تمام جائیدادیں ۔ نقد و جنس زیورات ازروئے شرع شریف قابل تقسیم ہیں۔

بیوہ کا کل حصہ آٹھواں ہوگا۔ مابقی 7 حصے کے تین ٹکڑے ہوں گے۔ ہر بیٹی ایک حصہ کا حقدار ہوگا۔ مرحوم اگر چاہتے تو وصیت کے بجائے بذریعہ ہبہ یہ تقسیم کرتے تو درست ہوگا۔

۰۰۰٭٭٭۰۰۰