دہلی

مرکز اور ریاست قیدیوں کو رہا کرنے پر غور کرے: سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے کہا کہ،”ہم آزادی کا 75ویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ریاستی حکومتوں کے ذریعے کچھ کاروائی کیوں نہیں کی جا سکتی، یہ ان معاملوں پر غور کرنے کا مناسب وقت ہے، جہاں کمزور مالی حالت کی وجہ سے ایک ملزم طویل عرصے سے جیل میں ہے۔

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعہ میں کہا ملک کی آزادی کے 75ویں سالگرہ کے موقع پر 10سالوں سے جیل میں بند (خاص طور پرکمزور،سماجی،معاشی طبقے سے آنے والے)قیدیوں کو رہا کرنے کیلئے مرکزی اور ریاستی حکومت کو کچھ اقدامات کرنے چاہئے۔

جسٹس ایس کے کول اور جسٹس ایم ایم سندریش کی بنچ نے ایک معاملے میں خود نوٹس لیتے ہوئے صلاح دیا کہ10سالوں سے جیل میں بندقید یوں کو ظمانت پر رہاکیا جانا چاہئے، جبکہ14سالوں سے بند قیدیوں کی سزا میں رعایت پر غور وفکر کرنا چاہیے۔

بنچ نے کہا کہ اگر ممکن ہو تو تمام ریاستی حکومتوں کے لئے یکساں رعایت کی پالیسی تیار کی جانی چاہئے۔بنچ نے کہا کہ ایسے معاملے، جن میں ریاستی حکومتوں کچھ ملزموں کو دینے میں ضمانت دینے میں اعتراض ہے(جنھوں نے 10سال یا اس سے زیادہ وقت جیل میں گزارا ہے)ان کے معاملوں کی الگ سے تفتیش کی جا سکتی ہے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ،”ہم آزادی کا 75ویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ریاستی حکومتوں کے ذریعے کچھ کاروائی کیوں نہیں کی جا سکتی، یہ ان معاملوں پر غور کرنے کا مناسب وقت ہے، جہاں کمزور مالی حالت کی وجہ سے ایک ملزم طویل عرصے سے جیل میں ہے۔

سپریم کورٹ کے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل نے ایم نٹراج کو اس موضوع پر بحث شروع کرنے کے ساتھ ساتھ کچھ منفرد سوچنے کا مشورہ دیا اور قیدیوں کے اچھے اخلاق کو بھی ان کی آزادی کے لئے شرط کے طور پر سمجھا جانا چاہئے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ ریاستی اور مرکزی حکومتوں کے ان اقدامات سے نچلی عدالتوں کا بوجھ کم ہوگا۔بنچ نے کہا کہ امریکہ میں رائج ’پلی برگن‘ کا استعمال کیا جا سکتا ہے، لیکن یہ کام نہیں کر سکتا ہے، کیونکہ سزا کی بدنامی سماج میں ملزم کو جرم کا اعتراف کرنے پرمجبور کر سکتی ہے۔

سپریم کورٹ نے اترپردیش میں قیدیوں کی درخواستوں پرگرانٹس کے لئے حکمت عملی کے بارے میں خودنوٹس سے جڑے معاملوں کے لئے 14 ستمبر کو مزید غور کرنے کے لئے رکھا۔