دہلی

کوئی حکم یا فیصلہ عدلیہ کا فیصلہ کرنے کی بنیاد نہیں ہے: چیف جسٹس این وی رمنا

رمنا نے کہاکہ وقت کا تقاضا ہے کہ زیر التواء مقدمات کو نمٹانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے نظام کی کارکردگی کو بہتر بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ زیر التوا مقدمات کے حل کے لیے عدالتوں کو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کرنے کی ضرورت ہے۔

نئی دہلی: سپریم کورٹ کے چیف جسٹس این. وی رمنا نے جمعہ کو کہا کہ ہندوستانی عدلیہ کی تعریف یا فیصلہ کسی ایک حکم یا فیصلے سے نہیں کیا جا سکتا۔ چیف جسٹس کی حیثیت سے اپنی مدت ملازمت کے آخری دن رسمی بنچ سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہندوستانی عدلیہ جو کہ وقت کے ساتھ ساتھ ارتقا پذیر ہے، بہت سے چیلنجوں کا سامنا کر رہی ہے۔

وقت کا تقاضا ہے کہ زیر التواء مقدمات کو نمٹانے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہوئے نظام کی کارکردگی کو بہتر بنایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ زیر التوا مقدمات کے حل کے لیے عدالتوں کو جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کرنے کی ضرورت ہے۔

جسٹس رمنا نے کہا کہ اگرچہ ہم نے اس سمت میں آگے بڑھنے کی کوشش کی ہے، بدقسمتی سے کووڈ۔ 19 کی وجہ سے ہمیں متوقع کامیابی نہیں مل سکی۔ وبائی امراض کے اس دور میں ہمارا سب سے بڑا چیلنج عدالت کو چلانے کی رہی ہے۔

جسٹس رمنا نے کہا کہ چیف جسٹس کے طور پر ان کے 16 ماہ کے دور میں صرف 50 دن ہی مکمل طور سے معاملوں کی سماعت ہوسکی۔ انہوں نے مقدمات کی فہرست کے معاملے پر خاطر خواہ توجہ نہ ملنے پر افسوس کا اظہار کیا۔

چیف جسٹس کی حیثیت سے ریٹائرمنٹ کے آخری روز انہوں نے کہا کہ میں نے اپنی صلاحیت کے مطابق بہترین کام کرنے کی کوشش کی۔ وکلاء اور عدالتی عملے کی کام کی ضروریات کو پورا کرنے کی کوشش کی۔

چیف جسٹس نے سینئر وکلاء کو مشورہ دیا کہ وہ اپنے ماتحت وکلاء کو ضروری رہنمائی کریں۔ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر سینئر ایڈوکیٹ دشینت دوے 48ویں چیف جسٹس رمنا کے الوداعی خطاب کے دوران بہت جذباتی ہو گئے۔

سینئر وکیل کپل سبل نے کہا کہ نامساعد حالات میں بھی جسٹس رمنا نے عہدے کے وقار کو برقرار رکھا اور ضرورت پڑنے پر حکومتوں سے جواب طلب کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی۔