دہلی

حجاب معاملہ، میں عدالتوں کے مولوی بن جانے کی توقع نہیں کرتا: راجیو دھون

سینئر ایڈوکیٹ راجیو دھون نے درخواست گزاروں کی جانب سے پیش ہوتے ہوئے استدلال پیش کیا کہ کسی عمل کو اگر ایک مرتبہ مستند ظاہر کردیا جائے تو وہ قابل عمل ہے۔ انہوں نے بنچ سے خواہش کی کہ ’نظریہ سہل‘ اور خفیف تجاوز کا اطلاق کیا جائے۔

حیدرآباد: سپریم کورٹ نے کرناٹک کے چند اسکولوں اور کالجوں میں مسلم طالبات کے حجاب پہننے پر کرناٹک ہائی کورٹ کے امتناع کو چالینج کرتے ہوئے دائر کردہ درخواستوں پر سماعت جاری رکھی۔ جسٹس ہیمنت گپتا اور جسٹس سدھانشو دھولیہ پر مشتمل بنچ کی جانب سے سماعت کا آج پانچواں دن ہے۔

سینئر ایڈوکیٹ راجیو دھون نے درخواست گزاروں کی جانب سے پیش ہوتے ہوئے استدلال پیش کیا کہ کسی عمل کو اگر ایک مرتبہ مستند ظاہر کردیا جائے تو وہ قابل عمل ہے۔ انہوں نے بنچ سے خواہش کی کہ ’نظریہ سہل‘ اور خفیف تجاوز کا اطلاق کیا جائے۔ دھون نے یہ بھی استدلال پیش کیا کہ کرناٹک کا جی او کاذب بنیادوں کی اساس پر ہے، اس کی جانب سے جہاں تک اسکولوں میں حجاب پر امتناع کا حوالہ دیا گیا ہے وہ مختلف تناظر میں جاری کردہ  ہے۔

دھون نے چار بنیادی موضوعات حق لباس، حق آزادی تقریر کا حصہ ہے اور عوامی نظم کے لئے معقول تحدیدات کے تابع ہے، اصول اخفاء، لازمی عمل کی کسوٹی اور حجاب استعمال کرنے والے فرد کے ساتھ مذہب یا جنس کی اساس پر امتیاز نہیں کیا جاسکتا کو اٹھایا۔

 دھون نے استدلال پیش کیا کہ یہ ڈسپلن سے متعلق معمولی سا معاملہ نہیں ہے۔ ”یہ اس لئے اہمیت کا حامل ہے کہ جب کیس کا فیصلہ سنایا جاچکا تو شہ سرخیاں یہ نہیں تھیں کہ ڈریس کوڈ کو برقرار رکھا گیا بلکہ یہ تھیں کہ حجاب کو مسترد کردیا گیا۔“ جسٹس گپتا نے دھون سے کہا ”ہم اخبارات کی تحریروں پر نہیں جاسکتے۔

“ جس پر سینئر ایڈوکیٹ نے جواب دیا ”اخبارات، جو اہم ہیں اسی کی عکاسی کرتے ہیں۔“ دھون نے بیجوئی ایمانول کے فیصلہ کا حوالہ دیا جس میں یہ مانا گیا کہ ایک مرتبہ اگر ایک عمل کو مستند مان لیا جاتا ہے تو وہ قابل اجازت ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ کا یہ مشاہدہ حیران کن ہے کہ قرآن چونکہ حجاب  استعمال نہ کرنے پر کسی قسم کی سزاء تجویز نہیں کرتا اس لئے یہ لازمی نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہائی کورٹ کے اس فیصلہ نے اس حقیقت کو نظرانداز کردیا کہ لاکھوں خواتین خلوص نیت سے حجاب کا استعمال کرتی ہیں۔ دھون نے استدلال پیش کیا ”عقیدہ کی روح کے مطابق اگر کسی معمول کی تعمیل کی جاتی ہے تو اس کی اجازت ہے، آیا یہ مستند ہے یا نہیں اس کے لئے آپ کو اصل عبارت کی طرف دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔

 ہمیں یہ پرکھنا ہوگا کہ آیا ایک عمل غالب اور مستند ہے یا نہیں… اختلاف کیا ہے کہ آیا یہ ایک لازمی عمل ہے۔ اگر بھارت تمام میں حجاب پر عمل کیا جاتا ہے تو لارڈشپ یہ دیکھیں گے کہ آیا یہ ایک مستند عمل ہے یا نہیں۔“ انہوں نے اپنا بیان جاری رکھتے ہوئے کہا ”ملک بھر میں عوامی مقامات پر حجاب کی اجازت ہے۔

 اس لئے یہ کہنے کی کیا بنیاد ہے کہ کلاس روم میں حجاب نہیں استعمال کیا جاسکتا اور یہ عوامی نظم کی خلاف ورزی ہے؟ جب آپ یہ کہتے ہیں کہ آپ اسکول میں برقع کی اجازت نہیں دے سکتے، وہ واجبی ہے چونکہ آپ چہرہ دیکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن سر کے حجاب کے استعمال پر واجبی اعتراض کیا ہوسکتا ہے؟

“ انہوں نے رتی لال گاندھی کیس پر اکتفا کیا جس میں سپریم کورٹ نے یہ توضیح کی تھی کہ اگر برداری کا عقیدہ بلاشبہ ثات ہوتا ہے تو ایک سیکولر جج اس عقیدہ کو قبول کرنے کا پابند ہے اور اس کے لئے مناسب نہیں کہ وہ اس عقیدہ پر اپنی آراء پیش کرے۔

دھون نے کہا ”اگر یہ ظاہر کیا جاچکا کہ کرناٹک میں حجاب میں ایک مستند عمل ہے، کوئی بھی باہری اتھاریٹی یہ نہیں کہہ سکتی کہ ایسا نہیں ہے۔“ دھون نے کہا کہ کسی مطابقت کی جانچ  ہوگی اور خفیف تجاوز کا طریقہ اختیار کیا جانا چاہئے، جس کے لئے یہاں ماڈرن ڈینٹل کالج کیس کا سہارا لیا جاتا ہے۔

انہوں نے معروضہ پیش کیا کہ چند ریاستوں مثال کے طور پر کیرالا نے حجاب کو فرض تسلیم کیا ہے۔ جسٹس گپتا نے دھون سے استفسار کیا ”اسے (حجاب) کو فرض ہے کہنے کا وجوب کیا ہے؟

“ انہوں نے جواب دیا کہ کیرالا ہائی کورٹ نے اپنے فیصلہ میں یہ مانا کہ احکام قرآنی کے لحاظ سے حجاب، ایک لازمی عمل ہے اور احادیث کی رو سے اس نتیجہ پر پہنچی کہ سر کو ڈھانکنا اور سر کے حصہ کو چھوڑ کر لامبے آستین والا لباس پہننا فرض ہے۔

 دھون نے کہا کہ وہ توقع نہیں کرتے کہ عدالتیں مولوی بن جائیں بلکہ اگر وہ مقدس عبارات کی تشریح کرنے لگیں تو آیات کا جواب یہ ہے کہ یہ فرض ہے۔ انہوں نے کہا ”لیکن میں اس حد تک نہیں جانا چاہتا۔ اگر یہ روایت ہے جو غالب ہے اور مستند ہے تو آپ لارڈ شپ اس کی اجازت دیں گے۔

“ جسٹس گپتا نے استفسار کیا ”مقدس کتاب کے لزوم کی پروا کئے بغیر؟“ دھون نے جواب دیا بشرطیکہ یہ مقدس کتاب کے خلاف نہ ہو۔ اس حد تک تحقیق کی جاسکتی ہے۔“ دھون نے حکومت کرناٹک کے جولائی 2021 کے رہنما خطوط کا حوالہ دیتے ہوئے استدلال پیش کیا کہ اس سے قبل پی یو سی میں کوئی یونیفارم لازمی نہیں تھا اس طرح حجاب کی اجازت تھی تاہم اچانک ستمبر میں طالبات کو ہراساں کیا جانے لگا اور ان کے خلاف امتیاز کیا جانے لگا۔

دھون نے نشان دہی کی کہ زیر بحث جی او جس نے حجاب کے استعمال کو خارج کردیا وہ حجاب کے خلاف کیرالا ہائی کورٹ کے ایک فیصلہ کی اساس پر ہے لیکن اس پر غور کرنے میں ناکام رہا کہ مذکورہ فیصلہ ایک کانونٹ اسکول کے تناظر میں دیا گیا تھا۔

جی او میں بمبئی ہائی کورٹ کے ایک فیصلہ کا بھی حوالہ دیا گیا مگر وہ اس پر غور کرنے میں ناکام رہا کہ یہ لڑکیوں کے اسکول میں حجاب استعمال کرنے کے حق سے متعلق تھا۔ انہوں نے تذکرہ کیا کہ کیندریہ ودیالیہ اسکولوں میں حجاب کی اجازت ہے۔

کرنالک کے جی او میں کوئی معقول جواز پیش نہیں کیا گیا کہ وہ سب جگہ یکسانیت چاہتے ہیں۔ بنچ نے سینئر ایڈوکیٹ آدتیہ سوندھی کے دلائل کی بھی سماعت کی جو ایک ثالث مداخلت کار کی طرف سے پیش ہوئے۔کل بھی اس مقدمہ کی سماعت ہوگی۔