دہلی

ہم جنس پرست ایڈوکیٹ کو ہائی کورٹ جج بنانے کی سفارش کا دفاع:چیف جسٹس

چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ نے ہفتہ کے روز ججوں کے تقرر کیلئے موجود کالجیم نظام کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ہر نظام کامل نہیں ہوتا ہے لیکن یہ عدلیہ کی طرف سے تیار کردہ بہترین نظام ہے جو حکومت اور عدلیہ کے درمیان تنازعہ کی ایک بڑی وجہ ہے۔

نئی دہلی: چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ نے ہفتہ کے روز ججوں کے تقرر کیلئے موجود کالجیم نظام کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ہر نظام کامل نہیں ہوتا ہے لیکن یہ عدلیہ کی طرف سے تیار کردہ بہترین نظام ہے جو حکومت اور عدلیہ کے درمیان تنازعہ کی ایک بڑی وجہ ہے۔

50 ویں چیف جسٹس آف انڈیا نے انڈیا ٹوڈے کانکلیو 2023 سے خطاب کرتے ہوئے حکومت کی جانب سے مسترد کئے جانے کے باوجود ہم جنس پرستوں کے سینئر ایڈوکیٹ سوربھ کرپال کے دہلی ہائی کورٹ کے جج کی حیثیت سے تقرر کیلئے سپریم کورٹ کے اعادہ سے متعلق تنازعہ پر بھی سوالات اٹھائے۔ چیف جسٹس چندرچوڑ نے کہا کہ جج شپ کے امیدوار کے جنسی رجحان کا اس کی اہلیت سے کوئی تعلق نہیں۔

آپ جس امیدوار (کرپال) کا تذکرہ کررہے ہیں انٹلیجنس بیورو کی رپورٹ میں ہر اُس پہلو کو ذکر کیا گیا ہے وہ عوامی دائرہ کار میں تھا۔ زیر بحث امیدوار اپنے جنسی رجحانات کے بارے میں کھل کر اظہار کررہا ہے۔ لہٰذا جب آئی بی نے کسی چیز کو اجاگر کیا تو ہم آئی بی کے معلومات کے ذرائع کو نہیں کھول رہے تھے۔

اِس میں کیا خطرہ ہوسکتا ہے۔ شاید کوئی یہ کہے کہ آپ اگر آئی بی کی رپورٹ کو عوام کیلئے قابل رسائی بناتے ہیں تو شاید آپ قومی سلامتی کے مسائل پر آئی بی کی معلومات کے ذرائع پر سمجھوتہ کررہے ہوں‘کسی کی زندگی کو خطرہ ہوسکتا ہے لیکن یہ ایسا معاملہ نہیں تھا۔ آئی بی کی رپورٹ میں جج شپ کیلئے متوقع امیدوار کے جنسی رجحانات کے بارے میں بتایا گیا تھا جس کا وہ کھل کر اظہار کرتا ہے۔

تمام ہم پیشہ افراد کو اس کے بارے میں معلوم ہے اور میڈیا میں بھی بڑے پیمانہ پر رپورٹ کیا گیا ہے۔ ہم نے اپنے حل میں صرف اتنا کہا تھا کہ کسی امیدوار کے جنسی رجحان کا ہائی کورٹ کے جج کا اعلیٰ آئینی عہدے سنبھالنے کی اہلیت یا امیدوار کے دستوری استحقاق سے کو ئی لینا دینا نہیں ہے۔ یہاں یہ تذکرہ مناسب ہوگا کہ سپریم کورٹ کالجیم نے جنوری میں اپنی 11 نومبر 2021 کی سفارش کا اعادہ کیا تھا، جس میں کرپال کو دہلی ہائی کورٹ کا جج مقرر کرنے کی سفارش کی گئی تھی اور مرکز کے اس استدلال کو مسترد کردیا گیا تھا کہ اگرچہ کہ ہندوستان میں ہم جنس پرستی کو جرم کے زمرے سے خارج کردیا گیا ہے لیکن ہم جنس جوڑے کی شادی کو ابھی بھی تسلیم نہیں کیا جاتا۔

یو این آئی کے بموجب سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جسٹس ڈی وائی چندر چوڑ نے کہا ہے کہ ملک میں عدلیہ کو ’انڈینائز‘ کرنے کی ضرورت ہے اور اس کی شروعات عدالت کی زبان سے ہونی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ اس سمت میں کام شروع ہوچکا ہے۔جسٹس چندر چوڑ نے یہاں انڈیا ٹوڈے کانکلیو 2023 کے دوسرے اور آخری دن ’جسٹس ان بیلنسنگ: ہندوستان کے بارے میں میرا نظریہ اور جمہوریت میں اختیارات کی علیحدگی‘ کے موضوع پر ایک سیشن سے خطاب کرتے ہوئے ملک میں عدلیہ کو ’انڈینائز‘ کرنے کی ضرورت کے بارے میں بات کی۔

انہوں نے کہا کہ اس کا پہلا حصہ جہاں ہمیں عدلیہ کو انڈینائز کرنا ہے وہ عدالت کی زبان ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضلعی عدالتوں میں بحث و مباحثہ کی زبان صرف انگریزی نہیں ہے۔ لیکن اونچی عدالتوں، ہائی کورٹس اور سپریم کورٹ میں دلائل انگریزی میں ہی ہوتے ہیں۔

اعلیٰ عدالتوں میں انگریزی کے استعمال کے بارے میں، انہوں نے کہا ”اب، یہ شاید نوآبادیاتی میراث کا حصہ ہے، یا یہ اس لیے بھی ہو سکتا ہے کہ انگریزی وہ زبان ہے جس میں ہمیں قانون سازی اور فیصلوں کے حوالے سے سب سے زیادہ سہولت حاصل ہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ”لیکن اگر ہم واقعی شہریوں تک پہنچنا چاہتے ہیں تو ہمیں ان تک ان زبانوں میں پہنچنا ہوگا جنہیں وہ سمجھتے ہیں“۔جسٹس چندر چوڑ نے کہا کہ اس سمت میں عمل شروع کر دیا گیا ہے۔