سیاستمضامین

جموں و کشمیر میں بہوجن سماج خوشحال

محمد انیس احمد (سابق بینکر و این آرائی )

سوشیل میڈیا کے ایک آزاد معروف صحافی جن کا نام شنبھو کمار ہے جو نیشنل دستک سے وابستہ ہیں جو صحافت میں ایک اہم کردار ادا کررہے ہیں اور سماج کے SC/ST/OBC کی حقیقی ترجمانی کا حق بڑی بے باکی‘ سے ادا کررہے ہیں۔ موجودہ جمہوری گھٹن بھرے ماحول میں ملک کا میڈیا حق صحافت ادا کرنے سے مجبور اور لاچار ہے۔ ایسی صورتحال میں عوام کو حقیقی صورتحال سے واقف کروانے کا بیڑا آزاد صحافت نے اٹھایا ہے اور یہ سب محب وطن افراد کو چاہیے کہ وہ نہ صرف آزاد صحافت کے معاون بنیں بلکہ اس جدوجہد میں رہیں کہ ملک کی اہم خبریں جسے گودی میڈیا عوام سے چھپا رہا ہے اس کو منظر عام پر لایاجائے اور عوام کو حقیقت سے روشناس کروایا جائے۔
ملک کی تقسیم ہوئی اور دو آزاد ملک وجود میں آئے اور جموں و کشمیر ایک آزاد ملک کا مسلم اکثریتی اسٹیٹ بنا جس کو دستور کی دفعہ370 کے تحت کچھ خصوصی موقف سے نوازا گیا۔ آزادی کے 75 سالہ دور میں سابق حکمرانوں نے حکمت کا رویہ اختیار کیا لیکن موجودہ فرقہ پرست حکمرانوں نے نہ صرف نفرت اور حقارت کا رویہ اختیار کیا بلکہ دستور کے تحت دیئے گئے خصوصی موقف کو بذریعہ صدارتی حکم نامہ کالعدم قراردیا۔
نفرت اور فرقہ پرستی سے عوام کو دلوں کو جیتا نہیں جاسکتا اور نہ ہی حکمرانی کی جاسکتی ہے۔ جھوٹے پروپیگنڈے اور نہ فرضی خبروں سے گمراہ کیا جاسکتا ہے۔ حقیقت اور سچائی سامنے آہی جاتی ہے۔ ایسی ہی ایک پوشیدہ حقیقت سے شنبھو کمار نے پردہ ہٹایا اور اپنے دلت چینل پر جموں کے بام سیف کے عہدیدارجن کا نام گوتم ہے ایک تفصیلی رپورٹ جموں و کشمیر کے Sc/St طبقہ کے مسلمانوں سے تعلقات اور اس طبقہ کی خوشحالی پر تبصرہ کرتے ہوئے اظہار خیال کیا کہ ’’ میں نے ان حقائق پر پہلے توجہ کیوں نہیں کی اور یہ بھی کہا کہ ملک کی حق گو صحافت ان حقائق کی تصدیق کرے اور ان مقامات کا دورہ کرکے سروے رپورٹ تیار کرکے ملک کے عوام کو بیدار کریں۔
جموں کے جناب گوتم نے شنبھو کمار سے انٹرویو کے دوران اس بات کی کھل کر اور بے باکی سے وضاحت کی کہ جموں کا Scاور St طبقہ سارے بھارت کے اسٹیٹس کے Sc,St طبقہ سے ہر لحاظ سے نہ صرف خوش حال ہے بلکہ ان کے مسلمانوں سے بہترین سماجی تعلقات ہیں۔ اس خوشحالی کی وجہ بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کشمیر کے مسلم وزرائے اعلیٰ نے ان کے ساتھ بہترین سلوک کیا اور ایک قانون کی رو سے جس کا نام ’’ جس کا ہل اس کی زمین‘‘ ہے تمام Sc,St سے انصاف کرتے ہوئے ان کو زمیندار بنادیا۔ ایسی نظیر بھارت کی دوسری ریاستوں میں بمشکل ملے گی۔ اور جو ٹیچرس جموں سے کشمیر جاکر کام کرتے ہیں ان سے بہترین سلوک کیا جاتا ہے اور ان سے مکان کا کرایہ بھی نہیں لیا جاتا۔ ایس سی ‘ ایس ٹی سے اس قسم کے سلوک کی مثال بھارت کی کوئی ریاست نہیں دے سکتی۔ کوئی امتیاز نہیں کوئی بھید بھاؤ نہیں ۔ جموں و کشمیر میں ایس سی ‘ ایس ٹی کے تعلقات مسلمانوں سے مستحکم ہیں ۔ جموں اور کشمیر کی جملہ آبادی 2011ء کی مردم شماری کے مطابق تقریباً 15لاکھ ہے اس میں 8لاکھ مرد اور 7 لاکھ خواتین شامل ہیں۔ ایس سی کو 8فیصد اور ایس ٹی کو 10 فیصد تحفظات ہیں۔ او بی سی طبقہ کو کوئی تحفظات نہیں ہیں اور زعفرانی فرقہ پرست اس طبقہ کو پوری طاقت سے اور مقامی مسلمانوں کے خلاف ورغلا کر جموں و کشمیر کے پرامن ماحول کو اپنے مفادات کے حصول کے لئے تباہ و تاراج کررہی ہے۔ او بی سی طبقہ کی حالت ملک کے دوسرے اسٹیٹس میں اچھی ہے ۔ ایس سی اور ایس ٹی کی بدترین ہے۔ اس کی بنیادی وجہ برہمن سوچ اور ان کی بالادستی کی ذہنیت ہے۔ او بی سی کی معاشی بدحالی کا فائدہ اٹھا کر آر ایس ایس اور بی جے پی نے اپنی پوری توانائی صرف کرتے ہوئے اس طبقہ کو ہندو دھرم قبول کرنے پر مجبور کررہے ہیں تاکہ جموں اور کشمیر میں مسلم اکثریت کو پامال کرکے اس دیرینہ مسئلہ کے حل کی ایک کوشش کررہی ہے لیکن اس تبدیلی مذہب کے دباؤ کے نتیجہ میں جموں کا او بی سی طبقہ بدھ مت کی جانب راغب ہے۔ لداخ میں بدھ مت کے ماننے والوں کی اکثریت ہے اور ایس سی ‘ ایس ٹی بھی ہندونہیں ہیں۔ تبدیلی مذہب کیلئے حکومت جبر اور ظلم کی وجہ سے جموں اور کشمیر کا ایس سی ‘ ایس ٹی‘ اوبی سی بدھ مت قبول کرنے کیلئے مجبور ہورہا ہے۔
جناب گوتم کے بیان کے مطابق جموں اور کشمیر میں ایس سی ‘ ایس ٹی ‘ نہ صرف خوشحال بلکہ امیر اور تعلیم یافتہ ہیں۔ موصوف کے مطابق دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد حالات میں مزید بگاڑ آگیا۔
ملک کی قدیم ترین جماعت کانگریس کے ایک معروف قائد ششی تھرور نے مسلمانوں کو اپنی جانب راغب کرنے کے لئے ایک بیان دیا کہ امریکہ میں ایک خاتون نائب صدر بن سکتی ہے جس کی اصل ہندوستانی ہے اور حالیہ برطانیہ میں ایک شخص وزیراعظم بن سکتا ہے جس کی اہلیہ کی جڑیں بھارت سے ہے تو ہندوستان میں ایک مسلمان وزیراعظم کیوں نہیں؟ موصوف نے بڑی دلچسپ اور حیرت کی بات چھیڑ کر یہ نہیں سوچا کہ ان کی اپنی چہیتی جماعت کانگریس نے جموں اور کشمیر میں دفعہ 370کے تحت دیئے گئے وزیراعظم کا عہدہ کیوں نہیں دیا بجائے اس کو ملک کی دوسری ریاستوں کی طرح وزیراعلیٰ کے عہدہ میں تبدیل کیا۔ کیا یہ اقدام دستور ہند کی خلاف ورزی میں تو نہیں آتا۔ ششی تھرور ٹھنڈے دل ودماغ سے غور کیجئے۔
بی جے پی اور آر ایس ایس جن کو مسلمانوں سے بیر ہے اور یہ نہیں چاہتے کہ ملک میں مسلمان ترقی کریں اور امن و چین کی زندگی گزاریں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایس سی ‘ ایس ٹی سے بھی یہ مساوی دشمنی رکھتے ہیں اور ان کو کم تر سمجھتے ہیں اور ان کو اس مقام پر رکھنا چاہتے ہیں اس لئے ان طبقات کے ساتھ ان کے تعلقات ٹھیک نہیں ہیں۔ اعلیٰ ذات کا یہ خیال ہے کہ اگر یہ کمزور طبقات ترقی کرتے ہوئے سماج میں باعزت مقام حاصل کرلیں تو ملک میں سیاسی توازن بدل جائے گا اور اعلیٰ ذات کی برتری کا خاتمہ ہوجائے گا اور اس کے ساتھ ساتھ اکثریت اور اقلیت کے کھوکھلے فلسفے کو بھی شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں ایس سی ‘ ایس ٹی طبقہ بیدار ہوچکا ہے اور اپنے آپ کو مستحکم کرتا جارہا ہے اس کے برخلاف مسلمان انتشار کا شکار ہیں اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھال کر اپنے نفس کو تسکین مہیا کررہے ہیں۔
دستور ہند میں اکثریت اور اقلیت کی کہیں صراحت نہیں ہے۔ دستور مساوات کا درس دیتا ہے اور دستور پر حلف لینے والے ایک متضاد نظریہ رویہ رکھتے ہیں اور ملک 20/80 پر تقسیم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ 80فیصد ہندو اور 20فیصد مسلمان ۔ درج ذیل سماجی نظام کے مطالعہ سے 80/20 کے فارمولہ کا پول کھل جاتا ہے۔
ملک میں برہمن 3.5 فیصد ہیں اور چھتریہ 5.5 فیصد ور ویشیہ 6فیصد ہیں ۔ یہ 10 سے 15فیصد طبقہ اس استحصالی نظام سے مسلسل فائدہ اٹھارہا ہے اور اس نظام سے نقصان اٹھانے والی ذاتوں میں درمیانی ذاتیں (شودر) ہیں جو ملک میں 10.5 فیصد ہیں۔ دوسرے پسماندہ طبقات او بی سی ملک کی آبادی کا 52فیصد ہیں اور ان میں جملہ 3743 ذاتیں ہیں۔ شیڈولڈ کاسٹ (SC) کی آبادی 15فیصد ہے اور ان میں 1703ذاتیں ہیں ۔ اور ملک میں شیڈولڈ ٹرائب (ST) کی آبادی5.7فیصد ہے اور ان میں5.8فیصد قبائل ہیں اور جملہ 1000 ذاتیں ہیں۔ یہ سب پسماندہ قبائل ہیں۔ یہ سماجی نظام برہمن ازم کا پیدا کیا ہوا ہے اور اس نظام سے 80تا 90 فیصد آبادی استحصال کا شکار ہے۔
اگر دیانت داری سے کسی مسئلہ پر غور کرکے تجزیہ کیا جائے تو مسئلہ کشمیر پیچیدگی کا شکار ہی نہ ہوتا اگر دفعہ370 پر من و عن عمل کیا جاتا لیکن سابقہ حکومتو ںکی مسائل کو پس پشت ڈالنے اور التواء میں رکھنے کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے اس دیرینہ مسئلہ کا کوئی حل نہ نکل سکا اور سونے پہ سہاگہ ‘ موجودہ حکمرانوں نے دفعہ 370 کو منسوخ کرکے کشمیر کو جنت نشان سے جہنم زار میں تبدیل کردیا۔ اس تعلق سے کشمیر کا ایس سی ‘ ایس ٹی طبقہ بھی اعتراف کرتا ہے اور دفعہ 370 کی منسوخی سے ناخوش ہے
جموں و کشمیر ایس سی ‘ ایس ٹی کی بے مثال ترقی کا سارے بھارت میں ایک ماڈل اسٹیٹ ہے اور اس سے ملک کے دلت فائدہ اٹھاتے ہوئے ایسے اقدامات کریں جس سے سارے ملک کے دلت خوشحال ہوجائیں۔ جموں میں دلتوں کی خوشحالی کی بنیادی وجہ وہاں مسلمان اکثریت اور حکمران ہیں جنہوں نے ذات پات کے نام پر بھید بھاؤ نہیں کیا اور ایس سی ‘ ایس ٹی کو ان کے جائز حقوق سے محروم نہیں کیا۔ اس صورتحال کے برعکس ملک کی دیگر ریاستوں میں ایس سی ‘ ایس ٹی کو ان کے جائز حقوق دینے کے بجائے حکمران Use and Through کی پالیسی اپنائے ہوئے ہیں اور وقت ضرورت ان طبقات کو اپنے مفادات کی تکمیل کے لئے دولت کا استعمال کرتے ہیں اور وقتی طور پر ان طبقات کو خوش کرکے اس خام خیالی میں رہتے ہیں کہ انہوں نے اپنا حق ادا کردیا ۔ ایس سی اور ایس ٹی اس حقیقت کو ذہن نشین کرلیں کہ م لک کے برہمن ان کو کبھی بھی جائز مساوات کا درجہ نہیں دے سکتے۔
ملک میں اگر دستور کی حفاظت کرنا ہے تو تمام طبقات اور جماعتوں کو متحد ہونا پڑے گا۔ دستور کو حقیقی خطرہ لاحق ہے ۔ اگر دستور کو بچانے میں ہم سے کوتاہی ‘ تاخیر اور کمزوری کا مظاہرہ کرتے ہیں تو عوام یہ بات ذہن نشین کرلے کہ وہ ایک داخلی برہمنوں کی غلامی کے دور میں داخل ہونے کے قریب ہیں اور یہ دور غلامی سابق انگریزوں کی غلامی سے مختلف اور بدترین ہوگا کیوں کہ انگریزوں کے ہمدرد اور مددگار ہی جمہوریت کا گلا EVM سے گھونٹ کر اور جھوٹ اور ظلم کو اپنا دستور بناکر ملک کی باگ ڈور اپنے ہاتھ میں لے چکے ہیں۔
۰۰۰٭٭٭۰۰۰