دہلی

بی جے پی کا مسلمانوں کو خارج کرنا ناقابل قبول وحشیانہ امر: امرتیہ سین

امرتا سین نے نریندر مودی حکومت کی فرقہ وارانہ اکثریتی پالیسیوں پر کڑی تنقید کی ہے۔ انہوں نے مودی حکومت کے بارے میں اپنے موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ یہ دنیا کی سب سے زیادہ خوفناک حکومت ہے۔

نئی دہلی: ممتاز ماہر معاشیات پروفیسر امرتیہ سین نے حکومت کی طرف سے ملک کی تکثیری نوعیت کو نظرانداز کرنے کو ایک خوفناک حماقت قرار دیا اور ایک ممتاز صحافی کو انٹرویو دیتے ہوئے نریندر مودی حکومت کی فرقہ وارانہ اکثریتی پالیسیوں پر کڑی تنقید کی ہے۔

متعلقہ خبریں
اظہرالدین، وہ مایہ ناز کھلاڑی جو کسی تعارف کا محتاج نہیں
اروند پنگڑیا، 16ویں فینانس کمیشن کے سربراہ مقرر
ویڈیو: سی اے اے، شہریت چھیننے کا نہیں بلکہ شہریت دینے کا قانون ہے:کوثر جہاں
”بھارت میراپریوار۔ میری زندگی کھلی کتاب“:مودی
ہلدوانی فسادات کے مزید 3 ملزمین گرفتار

انھوں نے مودی حکومت کے بارے میں اپنے موقف کو دہراتے ہوئے کہا کہ یہ دنیا کی سب سے زیادہ خوفناک حکومت ہے۔ پروفیسر سین نے قبل ازیں فرانسیسی اخبار’لی مونڈے‘ کو انٹرویو دیا تھا جو 19 دسمبر کو شائع ہوا تھا۔

اسی انٹرویو کے حوالے سے ممتاز صحافی کرن تھاپر نے ان سے سوال کیا کہ آپ کے مطابق ہندوستانی حکومت دنیا کی سب سے زیادہ خوفناک حکومتوں میں سے ایک ہے۔

کیا آپ یہ بتا سکتے ہیں کہ آپ اس نتیجہ پر کس طرح پہنچے؟ امرتیہ سین نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ حکومت ِ ہند کا اب تک کا کام واقعی بے حد خوفناک رہا ہے۔

 یہ صرف آج کی بات نہیں بلکہ کووِڈ 19 کے عروج کے دور کی بھی بات ہے جب حکومت نے اچانک مختلف طریقے متعارف کرانے بشمول سفر کو بے حد دشوار بنانے، ملازمتوں کی تلاش کو دشوار بنانے اور ان بے شمار افراد کو دھوکہ دینے کا فیصلہ کیا جو قدرے زیادہ آمدنی کے لیے ترکِ وطن کرتے ہیں۔

بعد ازاں حکومت نے ہم سے معذرت خواہی کی اور کہا کہ ہمیں اس بات پر بے حد افسوس ہے کہ ہم آپ کو کووِڈ کے خطرہ کی وجہ سے گھر تک محدود ہونے پر زور دے رہے ہیں۔

 پروفیسر امرتیہ سنگھ نے کہا کہ حقیقی مسئلہ اتنا بڑا نہیں تھا کہ لوگوں کو ان کے گھروں تک محدود کردیا جائے۔ لوگوں کے پاس تو رہنے کے لیے گھر ہی نہیں رہ گیا تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ عوام کے معیارِ زندگی میں بھیانک گراوٹ آئی اور کئی افراد کو گھر واپس پہنچنے کے لیے سینکڑوں میل پیدل چلنا پڑا تاکہ وہ اپنے گاؤں میں کسی قسم کی پناہ گاہ حاصل کرسکیں۔

کئی افراد کے پاس تھوڑی سی آمدنی حاصل کرنے کے لیے کوئی ملازمت نہیں رہ گئی تھی لہٰذا میرے خیال میں (کووِڈ 19 بحران کے دوران) جس قسم کی لاپرواہی برتی گئی وہ انتہائی تکلیف دہ تھی۔

 انٹرویو نگار کے اس سوال پر کہ اخبار’لی مونڈے‘ سے آپ نے کہا تھا کہ ہندوستانی حکومت اصطلاح کے تنگ ترین معنوں میں فرقہ پرست ہے، مسلمانوں پر حملہ کررہی ہے اور اس خیال کو پھیلا رہی ہے کہ ہندو ایک قوم بناتے ہیں۔

آپ مودی حکومت کے اس اکثریتی فرقہ پرستانہ رویہ سے کتنے پریشان ہیں؟ اس پر امرتیہ سین نے کہا کہ میں اس بارے میں بے حد فکر مند ہوں۔ ہندوستان ہمیشہ سے ایک کثیر قومی اور کثیر النسل ملک رہا ہے۔ عیسائی، تیسری صدی میں پناہ کے لیے ہندوستان آئے تھے۔ یہودی پہلی صدی عیسوی میں آئے تھے۔

مسلمان تاجرشمال مغرب کی فتح شروع ہونے سے پہلے ہی ہندوستان میں داخل ہوگئے تھے۔ انھوں نے کہا کہ تبادلوں کے نمونے اور ایک دوسرے کی مدد کرنا ہندوستانی ریاست کی ایک اہم خصوصیت رہی ہے۔

 اگرچہ کہ لڑائیاں اور فتوحات ہوتی رہی ہیں لیکن یہ ہمیں اس حقیقت سے دور نہیں کرسکتیں کہ یہ ملک بنیادی طور پر ایک کثیر القومی اور کثیر النسل وجود رہا ہے۔

 اس سے انکار کرنا اور یکطرفہ قسم کے منفرد فوکل ملک کی طرف جانا ہندوستان کو ایک بڑے اور عظیم ملک سے ایک انتہائی تنگ نظر اور ہندو ہندوستان پر مرکوز ملک کی طرف گھٹا دینے کے مترادف ہے۔