سیاستمضامین

یکساں سیول کوڈ کے نفاذ میں اب کسی بھی شک و شبہ کی گنجائش نہیںوزیر دفاع کے بیان سے یہی نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہےاشتعال انگیز قانون سازی سے ماحول بگاڑ کر 2024ء کا الیکشن جیتنے کی کوشش کی جارہی ہے

٭ ووٹرس کو دو دھڑوں میں بانٹ کر الیکشن جیتنے کی تیاری مکمل ہورہی ہے۔ ٭ مسلمانانِ ہند کیلئے لمحۂ فکر ۔ بہت ہی بدلے حالات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ ٭ مسلمانوں کی شناخت مٹانے کی مذموم سازش۔ ٭ قانون سازی کی آڑ میں سیاسی اقتدار کے حصول کی کوشش۔٭ ووٹرس کو دو دھڑوں میں بانٹ کر الیکشن جیتنے کی تیاری مکمل ہورہی ہے۔ ٭ مسلمانانِ ہند کیلئے لمحۂ فکر ۔ بہت ہی بدلے حالات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ ٭ مسلمانوں کی شناخت مٹانے کی مذموم سازش۔ ٭ قانون سازی کی آڑ میں سیاسی اقتدار کے حصول کی کوشش۔

محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد۔

ہندوستان کے دو ٹیلی ویژن چیانلس پر ایک انٹرویو میں30؍نومبر 2022ء کو ہندوستان کے وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ نے اپنے پردھان منتری کے من کی بات کہہ دی کہ اب وقت آگیا ہے کہ سارے ملک میں یونیفارم سیول کوڈ نافذ کردیا جائے ۔ گویا ایک بار پھر ملک کا ماحول بگاڑنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ انہوں نے اپنے انٹرویو میں ملک کی ان ریاستوں کو مبارکباد بھی دی جہاں اس مذموم قانون کو لاگو کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ‘ یا قانون سازی ہوچکی ہے۔ راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ 2024ء کا الیکشن جیتنے کے لئے سازگار ماحول ہے اور یہ الیکشن جیت لیا جائے گا اور حالیہ گجرات اور ہماچل پردیش میں بھی انتخاب جیت لیا جائے گا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ منوج تیواری نے جو آنکھ پھوڑنے والی بات کہی ہے‘ اس سے پہلے انہیں الفاظ کا خیال رکھنا چاہیے تھا ۔ آنکھ پھوڑنے والی بات کی انہوں نے مذمت نہیں البتہ بی جے پی لیڈر منوج تیواری نے کسی کی بھی ٹانگ توڑنے کی بات نہیں کی۔ گویا اگر بی جے پی لیڈر نے ایسی کوئی بات کہی بھی ہوتی تو اس سے پہلے انہیں الفاظ کا خیال رکھنا چاہیے تھا۔ تو یہ ہے اخلاقی معیار ہمارے وزیر دفاع کا جو اپنی پارٹی کے لیڈرس کے دفاع میں کہاں سے کہاں چلے گئے۔
کیا مسلمانوں میں طلاق و خلع کی بڑھتی ہوئی شرح وقوع پذیر ہونے والی قانون سازی کیلئے ذمہ دار ہے؟
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ مسلمانوں میں گزشتہ چند سالوں میں طلاق و خلع کی شرح بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ چند سال قبل طلاقِ ثلاثہ کے خلاف قانون سازی کی گئی لیکن اس قانون سازی کا کوئی مثبت اثر ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا اور طلاقِ ثلاثہ کی بجائے طلاقِ بائن کی نوٹس جاری کی جارہی ہے یعنی اب نہ سہی تین ماہ بعد ہی سہی ۔ پہلی بیوی سے چھٹکارہ تو مل ہی جائے گا اور دوسری شادی کے لئے راہ ہموار ہوگی۔
ہمارے معاشرہ کو طلاق و خلع کا ناسور لگ گیا ہے اور یہ سلسلہ تھمتا ہوا نظر نہیں آتا۔ بڑی ہی شان و شوکت کے ساتھ شادیاں ہوتی ہیں اور پھر بعد میں اختلافات رونما ہوتے ہیں۔ ایک طرف انا ہوتی ہے تو دوسری طرف ہٹ دھرمی ‘ کبھی کبھی ظلم بالکل یکطرفہ ہوتا ہے ۔ ایک معمولی سی خطا پر لڑکی کی ہراسانی کا سلسلہ دراز ہوتا ہے ۔ شوہر ۔ ساس۔ سسر۔ نندیں غریب دلہن کی جان کے دشمن بن جاتے ہیں۔ صبح جلد اٹھ کر ناشتہ تیار کرنے میں دیری ایک ایسا سنگین گناہ سمجھا جاتا ہے جو ناقابلِ معافی ہو۔ اپنا بیٹا چاہے شراب کے نشہ میں صبح پانچ بجے گھر لوٹے اور سارا دن کمرے میں مردے کی طرح پڑا رہے اس کا کوئی قصور نہیں سمجھا جاتا ۔ یہ ظلم و ستم یہ زیادتیاں ۔ یہ ناانصافیاں ‘ یہ گناہ کیا وقوع پذیر ہونے والی قانون سازی کیلئے ذمہ دار نہ سمجھے جائیں؟
عورتوں خصوصاً بیٹیوں ‘ بیوی کو ورثہ سے یکسر محروم کردینا ‘ انہیں جائیداد سے بے دخل کردینا ‘ یتیموں کو ورثہ سے محروم کردینا کیا اس مجوزہ قانون کے محرکات نہیں؟
شادی کے بعد بیوی کو گھر میں ساس اور نندوں کے رحم و کرم پر چھوڑ کر امریکہ‘ برطانیہ‘ کینیڈا ‘ آسٹریلیا اور خلیجی ممالک کو روانہ ہوجانا اور برسوں خبر نہ لینا۔ نہ اس کے اخراجات کے لئے پیسے بھیجنا ‘ نہ اس کو ٹیلی فون فراہم کرنا حتی کہ ماں سے بات کرنے کی اجازت نہ دینا اور اگر وہ اپنے ماں باپ کے گھر چلی جائے تو اس کو اخراجات کے لئے پیسے روانہ نہ کرنا حتی کہ بات تک نہ کرنا ‘ کئی کئی سال اس سے دوری بنائے رکھنا ‘ خود یہاں بیوی رکھ کر کسی خلیجی ملک میں مقیم کسی خوبصورت پاکستانی خاتون سے جائز یا ناجائز رشتہ بنائے رکھنا۔ بیوی کے زیورات کا غبن کرلینا۔ جوڑے کی لاکھوں کی رقم لے کر ڈکار تک نہ لینا اور بعد میں بیوی کو پیسے پیسے کو تڑپانا۔ کہیں یہ عناصر اس مجوزہ قانون سازی کیلئے ذمہ دار تو نہیں۔
مجوزہ قانون سازی کے اثرات
اگر یہ قانون سازی ہوجاتی ہے ہندوستان میں امت مسلمہ کو بڑی دشواریوں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے ۔ بالکل اس طرح جس طرح مغربی ممالک میں ہوتا ہے۔ وہاں سب کے لئے ایک ہی قانون ہے اور سب شہری اس قانون کے تابع ہیں۔ یہ قانون شادی۔ طلاق۔ وراثت۔ وصیت ۔ تنبیت یعنی کسی بچے کو گود لینا ۔ وغیرہ سے متعلق ہے۔ مسلمان کو ا سلام نے چار شادیاں کرنے کی اجازت دی ہے وہ اس طرح کہ تم دو دو ‘ تین تین ‘ چار چار عورتوں سے نکاح کرسکتے ہو۔ بشرطیکہ تم سب کے ساتھ انصاف کرسکو ۔ کیا تو سمجھتے ہو کہ تم بیویوں سے انصاف کرسکو گے ۔ نہیں تم نہیں کرسکتے لہٰذا صرف ایک ہی بیوی کافی ہے۔
اس آیت کا نزول اس وقت یعنی غزوۂ احد کے بعد ہوا تھا جس میں زائد از ستر صحابہ شہید ہوئے تھے اور اس طرح ان کی بیویاں بیوہ ہوگئی تھیں۔ اس قانون کا مقصد ان شہداء کی بیواؤں کی باز آبادکاری ایک باعزت طریقہ سے تھی کیوں کہ عورت کو صرف مرد کا ہی سہارا ہوسکتا ہے تاکہ اس کی عزت و عصمت کی حفاظت ہوسکے۔
دین میں طلاق کو ایک مشکل عمل بنادیا وہ اس طرح سے کہ اگر مطلقہ بیوی کی محبت اگر جوش مارے تو اس سے دوبارہ اس وقت تک شادی نہیں کرسکتے جب تک کہ وہ کسی غیر شخص کے نکاح میں آئے اور اس سے طلاق حاصل کرکے اور مدتِ عدت کی تکمیل کے بعد ہی پہلے شوہر سے نکاح کرے ۔ طلاق دینے والوں کیلئے یہ آیت ایک تازیانے سے کم نہیں۔
لیکن دیگر ابنائے وطن خصوصاً اہلِ ہنود مسلمانوں پر الزام لگاتے ہیں کہ وہ چار چار شادیاں کرتے ہیں اور زیادہ بچے پیدا کرتے ہیں لہٰذا آبادی کا توازن بگڑجائے گا اور مسلمان صرف اپنی تعداد کے بل بوتے دوبارہ ملک میں برسراقتدار آجائیں گے ۔ لیکن ان احمقوں کو اس بات کا ادراک نہ ہوسکا کہ قدرت نے عورتوں اور مردوں کی تعداد میں ایک توازن رکھا ہے۔ یعنی دونوں کی تعداد میں کہیں بھی دو تا تین فیصد سے زیادہ فرق دکھائی نہیں دیتا تو پھر ایک مسلمان اپنے لئے چار بیویاں کہاں سے لائے گا جبکہ ملک بلکہ دنیا میں آبادی کے لحاظ سے ایک مرد کے لئے صرف ایک عورت ہے۔ شائد یہی ایک باطل نظریہ اس مجوزہ قانون سازی کی وجہ بن رہا ہے کہ کہیں برصغیر ہند میں مسلمان دوبارہ صرف اپنی تعداد کی بنیاد پر برسرِاقتدار نہ آجائیں۔
اب چونکہ مجوزہ قانون سازی نوشتہ دیوار بن چکی ہے اور صرف وقت درمیان میں حائل ہے تو مسلمانوں کو وقوع پذیر ہونے والے سانحہ کے لئے ذہنی طور پر تیار رہنا ہے۔
کیا قانون سازی کے خلاف احتجاجات ہوں گے۔ ریالیاں نکالی جائیں گی۔ پتھراؤ ہوگا اور پھر گولیاں چلیں گی اور بے قصوروں کو جیل میں ٹھونسا جائے گا۔ ان کی املاک پر بلڈوزر چلائے جائیں گے یہ بعد کی بات ہے ۔ مسلمانوں کو اس زہر کے پیالے کو بھی صبر و تحمل کے ساتھ پینا پڑے گا کیوں کہ صبر اور دعا کے سوا ان کے پاس کوئی موثر ہتھیار نہیں ہے۔ اور بلا شبہ صبر سب سے بڑی ڈھال ہے اور تلوار بھی۔
مجوزہ قانون سازی ہندوستان میں مسلمانوں کی ا نفرادیت اور شناخت مٹانے کی ایک مذموم سازش ہے اور یہ کوشش عرصۂ دراز سے جاری ہے۔
ایک موہوم سی ا مید سپریم کورٹ سے ہے کہ وہ اس قانون سازی میں مداخلت کرے گی لیکن دو ایسے قانونی اقدامات جو راست طور پر دستورِ ہند سے ٹکراتے تھے ‘ ان پر سپریم کورٹ ابھی تک خاموش ہے اور وہ رٹ درخواستیں سماعت کے لئے تک نہیں لائی جارہی ہیں۔ پتہ نہیں مجوزہ قانون سازی کے خلاف دائر ہونے والی رٹ درختاوں کا کیا ہوگا۔
کچھ دفاعی اقدامات
قانون سازی کے بعد طلاق پر روک لگ جائے گی ۔ بعض عورتیں ایسی بھی ہوتی ہیں کہ طلاق دونوں زوجین کے لئے نعمت ثابت ہوتی ہے۔ بعض صورتیں ایسی ہوتی ہیں کہ مل کر رہنا دشوار ہوجاتا ہے اور دونوں طلاق یا علاحدگی چاہتے ہیں۔ اگر ایسی صورتیں ہوں تو باہمی اتفاق سے علاحدگی اختیار کی جاسکتی ہے ورنہ قانون سازی کے بعد یہ عمل بے حد دشوار ہوجائے گا کیوں کہ ملک کی فیملی کورٹس طلاق یا علاحدگی کے خلاف ہیں اور فیصلہ کرنے میں عجلت سے کام نہیں لیتے۔ اگر فسخ نکاح کی کارروائی بھی ہو تو درخواستیں معرضِ التواء میں پڑی رہیں گی۔ خاص طور پر ایسی صورتوں میں جب دونوں میاں بیوی جو طالب طلاق ہیں ان کے بچے بھی ہیں۔ عدالت ایسے مقدمات کو ایک نئی اصطلاح (Cooling Period) میں ڈال دے گی اور انتظار کرے گی یہ گرمی کب ختم ہوگی کیوں کہ فیملی کورٹ سب سے پہلے اس بات کو دیکھے گی کہ بچوں کی فلاح و بہبود (Welfare) کہاں ہوگی۔ کیا ماں کے پاس یا باپ کے پاس؟ لہٰذا دونوں لٹکے رہو اور طلاق کے لئے تڑپتے رہو۔
وارث کے حق میں وصیت قانونی طور پر درست ہوگی
شرعِ اسلام میں وارث کے حق میں وصیت درست نہیں جبکہ غیر وارث کے حق میں تاحدِ ثلث یعنی ایک تہائی کی حد تک درست ہے ۔ وارث کے حق میں وصیت اس وجہ سے درست نہیں ہے کہ جب صاحبِ جائیداد کے انتقال کے بعد وارث ہی کو ترکہ ملے گا تو پھر وصیت کی ضرورت کیا ہے۔
قانون تقسیم ترکہ بہت بری طرح متاثر ہوگا
مجوزہ قانون سازی کی وجہ سے تقسیم ترکہ مسلمانوں کے لئے ایک سنگین مسئلہ بن جائے گا ۔ ازروئے شریعت عورت کا حق مرد کی بہ نسبت نصف ہے۔ یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ مرد کے اخراجات اور ذمہ داریاں بمقابلہ عورت بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ مرد کے اخراجات زیادہ ہوتے ہیں ‘ اس کی غذا بھی زیادہ ہوتی ہے۔ اس پر اپنی بیوی اور بچوں کی نگہداشت کی ذمہ داری ہے ۔ دوسری جانب عورت پر کوئی ذمہ داری نہیں۔ اس کی کفالت شوہر کرے گا ‘ بچوں کے اخراجات کا بھی وہی ذمہ دار ہوگا۔ وہی اسے حق مہر بھی دے گا۔ عورت ایک طرف اپنے شوہر کی وراثت میں حقدار ہوگی تو دوسری طرف اپنے ماں باپ کی طرف سے بھی اسے حق وراثت ملے گا۔ تو پھر اگر مرد اور عورت کا حصہ وراثت میں برابر ہو تو انصاف کے تقاضے کہاں پورے ہوسکتے ہیں۔
بہن ‘ بھائی کے برابر حق طلب کرے گی۔ اگر وہ دینی احکامات پر کاربند بھی ہو تو بعض شیطان صفت لوگ اسے گمراہ کریں گے اور اسے سمجھائیں گے کہ وہ اپنا حق بھائی کے برابر طلب کرے اور عدالتیں قانون کی پابند ہوکر اسے بھائی کے برابر حق دے دیں گی۔
اصول ہبہ پر عمل آوری کا یہ بہترین وقت ہوگا
اس سے پہلے کہ قانون سازی ہو‘ تمام مسلمانانِ ہند سے درخواست ہے کہ وہ اس موقع کو غنیمت جانیں اور اپنی جائیدادوں کو اپنے ورثاء میں ازوروئے شرع شریف بذریعہ زبانی ہبہ کے میمورنڈم کے ذریعہ تقسیم کردیں۔ اس سے پہلے کہ بیٹیاں اپنے حق کا مطالبہ کرنے عدالت پہنچیں آپ یہ کام کردیجئے۔ آپ کا مقصد پورا ہوجائے گا ۔ رجسٹریشن کی کوئی ضرورت نہیں ہوگی۔ ورنہ بعد میں بہت پچھتانا پڑے گا کیوں کہ قانون سازی اب دستک دے رہی ہے۔
شہر اور اطراف کے علاقوں میں گورنمنٹ اراضیات پر قبضہ جات کو باقاعدہ بنانے کی ا سکیم
درخواستیں پیش کی جاسکتی ہیں
شہر حیدرآباد میں کئی اسمبلی حلقہ جات میں گورنمنٹ اراضیات پر تعمیر شدہ مکانات پر قبضہ جات کو باقاعدہ بنانے کی اسکیم شروع ہوچکی ہے اور درخواستیں وصول کی جارہی ہیں۔ وہ ضروری دستاویزات جن کو درخواست فارم کے ساتھ منسلک کرنا ہے ان کی تفصیل درج ذیل ہے۔
زیادہ سے زیادہ رقبہ 1000 مربع گز ہونا چاہیے ۔
(1) نام ۔ والد کا نام۔ آدھار کارڈ نمبر۔ ذات ۔جنس(مرد یا عورت) تاریخ پیدائش ۔ موبائل نمبر۔ افرادِ خاندان کے نام اور ان کی تفصیلات۔ مقبوضہ زمین/جائیداد کی تفصیل ۔ مکان نمبر۔ سروے نمبر۔ ٹاؤن سروے نمبر۔ وارڈ ۔ محلہ۔ میونسپلٹی۔ منڈل۔ ضلع ۔ رقبہ جو قبضہ میں ہے اور جس پر مکان تعمیر ہوا ہے۔ تعمیر شدہ رقبہ۔ جائیداد کی فوٹو تصویر ۔ جائیداد کے حدود۔ شمال ۔ جنوب۔ مشرق۔ مغرب
(2) وہ دستاویزات جو درخواست کے ساتھ منسلک کرنا ضروری ہے۔
قبضہ کا ثبوت۔ رجسٹر شدہ دستاویزات۔ جائیداد ٹیکس کی رسید۔ برقی بل کی رسید۔ آبرسانی کے بل کی رسید۔
درخواست پر درخواست گزار کی تصویر۔
اس ضمن میں مزید تفصیلات اور رہنمائی کے لئے ذیل میں دیئے گئے ہیلپ لائن نمبر پر ربط پیدا کریں۔
040-23535273 – Mobile : 9908850090
نوٹ: درخواست کے ساتھ فی الوقت قیمت ادا کرنے کی ضرورت نہیں ۔ صرف مکمل درخواست پیش کیجئے۔