دہلی

G20  کو ہندوستانی تہذیب، اخلاقیات سے تحریک لیناچاہئے:وزیراعظم مودی

مودی نے جی 20 وزرائے خارجہ کانفرنس کے آغاز کے موقع پر اپنے ویڈیو پیغام میں مہمان وزرائے خارجہ پر زور دیا کہ وہ ہندوستان کی تہذیبی اخلاقیات سے تحریک لیں اور ترقی پذیر ممالک کی آوازوں کو سنیں اور اپنے اختلافات سے بالاتر ہو کر دنیا کو معاشی بحران سے نجات دلانے اورجوڑنے میں تعاون کریں۔

نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی نے آج کہا کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد تخلیق کردہ عالمی نظام اپنے مقاصد میں ناکام ہوگیا ہے اور اس کی ناکامی کے المناک نتائج سب سے زیادہ ترقی پذیر ممالک کو بھگتنا پڑ رہا ہے ۔

متعلقہ خبریں
”بھارت میراپریوار۔ میری زندگی کھلی کتاب“:مودی
وزیر اعظم کے ہاتھوں اے پی میں این اے سی آئی این کے کیمپس کا افتتاح
اڈانی مسئلہ پر کانگریس سے وضاحت کامطالبہ، سرمایہ کاری کے دعوؤں پر شک و شبہات
سفارتی تنازعہ، دفتر خارجہ میں مالدیپ کے سفیر کی طلبی
وائرل ویڈیو سے مجھے دلی رنج پہنچا: دھنکر (ویڈیو)

مودی نے جی 20 وزرائے خارجہ کانفرنس کے آغاز کے موقع پر اپنے ویڈیو پیغام میں مہمان وزرائے خارجہ پر زور دیا کہ وہ ہندوستان کی تہذیبی اخلاقیات سے تحریک لیں اور ترقی پذیر ممالک کی آوازوں کو سنیں اور اپنے اختلافات سے بالاتر ہو کر دنیا کو معاشی بحران سے نجات دلانے اورجوڑنے میں تعاون کریں۔

مودی نے اپنے خطاب کا آغاز کرتے ہوئے تمام جی20 رکن ممالک، بین الاقوامی تنظیموں اور خصوصی طور پر مدعو ممالک کے وزرائے خارجہ کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ ہندوستان نے جی20 صدارت کے لیے ‘ایک کرہ ارض، ایک خاندان، ایک مستقبل’ کے تھیم کا انتخاب کیا ہے۔

 یہ مقصد کے اتحاد اور عمل کے اتحاد کی ضرورت کو ظاہر کرتا ہے۔ امید ہے کہ آپ کی آج کی ملاقات مشترکہ اور ٹھوس مقاصد کے حصول کے لیے اکٹھے ہونے کے جذبے کی عکاسی کرے گی۔

وزیر اعظم نے کہا، ’’ہم سب کو یہ قبول کرنا چاہیے کہ کثیرالجہتی آج بحران کا شکار ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد تخلیق کردہ عالمی طرز حکمرانی کا ڈھانچہ دو کاموں کو انجام دینے کے لئے تھا۔ سب سے پہلے، مسابقتی مفادات کو متوازن کرکے مستقبل کی جنگوں کو روکنا۔ دوسرا، مشترکہ دلچسپی کے امور پر بین الاقوامی تعاون کو فروغ دینا۔

انہوں نے کہا کہ "گزشتہ چند برسوں کا تجربہ – مالیاتی بحران، موسمیاتی تبدیلی، وبائی امراض، دہشت گردی اور جنگ – صاف ظاہر کرتا ہے کہ عالمی گورننس اپنے دونوں مینڈیٹ میں ناکام رہی ہے۔ ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا چاہیے کہ اس ناکامی کے المناک نتائج سب سے زیادہ ترقی پذیر ممالک کو بھگتنا پڑ رہے ہیں۔