جموں و کشمیر

جموں وکشمیر میں ستمبر 2024 تک اسمبلی الیکشن کرادینے کا حکم

سپریم کورٹ نے پیر کے دن مرکز کے دفعہ 370 (سابق ریاست جموں وکشمیر کو خصوصی موقف عطا کرنے والی دفعہ) کی برخاستگی کے فیصلہ کو متفقہ طورپر برقرار رکھا اور جلد سے جلد ریاستی درجہ کی بحالی اور آئندہ سال 30 ستمبر تک اسمبلی الیکشن کرادینے کی ہدایت دی۔

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے پیر کے دن مرکز کے دفعہ 370 (سابق ریاست جموں وکشمیر کو خصوصی موقف عطا کرنے والی دفعہ) کی برخاستگی کے فیصلہ کو متفقہ طورپر برقرار رکھا اور جلد سے جلد ریاستی درجہ کی بحالی اور آئندہ سال 30 ستمبر تک اسمبلی الیکشن کرادینے کی ہدایت دی۔

متعلقہ خبریں
صدر جمہوریہ کے خلاف حکومت ِ کیرالا کا سپریم کورٹ میں مقدمہ
الیکشن کمشنرس کے تقرر پر روک لگانے سے سپریم کورٹ کا انکار
مولانا کلیم صدیقی پر کیس کی سماعت میں تاخیر کا الزام
تین طلاق قانون کے جواز کو چالینج، سپریم کورٹ میں تازہ درخواست
کویتا، پیش نہیں ہورہی ہیں سپریم کورٹ میں ای ڈی کا انکشاف

کئی دہوں سے جاری بحث ختم کرتے ہوئے چیف جسٹس(سی جے آئی) ڈی وائی چندرچوڑ نے دستوری اسکیم کی برخاستگی کو جائز ٹھہرایا۔ 1947 میں ہند۔ یونین میں الحاق کے وقت جموں وکشمیر کو دفعہ 370 کے تحت خصوصی موقف عطا کیا گیا تھا۔

اپنے لئے اور جسٹس بی آر گوائی‘ جسٹس سوریہ کانت کے لئے فیصلہ لکھتے ہوئے سی جے آئی نے کہا کہ دفعہ 370 عارضی دفعہ تھی اور صدرجمہوریہ کو سابق ریاست کی دستوری اسمبلی کی غیرموجودگی میں اسے ہٹادینے کا اختیار حاصل ہے۔ جسٹس سنجے کشن کول اور جسٹس سنجیو کھنہ نے علیحدہ فیصلے لکھے لیکن اختلاف نہیں کیا۔

سپریم کورٹ نے 5 اگست 2019 کو جموں وکشمیر کو کاٹ کر لداخ کو مرکزی زیرانتظام علاقہ بتانے کے فیصلہ کو بھی جائز ٹھہرایا۔ حکومت نے اس دن دفعہ 370 برخاست کرکے ریاست کو 2 مرکزی زیرانتظام علاقوں جموں کشمیر اور لداخ میں بانٹ دیا تھا۔

سی جے آئی نے کہا کہ ہم ہدایت دیتے ہیں کہ الیکشن کمیشن آف انڈیا 30 ستمبر 2024 تک جموں وکشمیر میں اسمبلی الیکشن کرادینے کے اقدامات کرے۔ ریاست کا درجہ بہ عجلت ممکنہ بحال کردیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ الحاق کے بعد سابق ریاست جموں وکشمیر کے پاس کسی بھی قسم کا کوئی اقتدارِ اعلیٰ باقی نہیں رہا تھا۔

جسٹس کول نے اپنے فیصلہ میں کہا کہ دفعہ 370 کا مقصد جموں وکشمیر کو دھیرے دھیرے دیگر ہندوستانی ریاستوں کے برابر لانا تھا۔ انہوں نے ایک غیرجانبدار کمیشن قائم کرنے کی ہدایت دی جو کم ازکم 1980 سے اسٹیٹ اور نان اسٹیٹ ایکٹرس دونوں کی طرف سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کرے۔انہوں نے کہا کہ زخم بھرنے کی ضرورت ہے۔

سابق ریاست سے تعلق رکھنے والے جسٹس کول نے کہا کہ مردو خواتین اور بچوں نے گڑبڑ زدہ صورتِ حال کی بھاری قیمت چکائی ہے۔ گڑبڑزدہ علاقہ کے عوام کے انسانی حقوق کی پامالیوں پر انہوں نے کہا کہ اس سلسلہ میں کئی رپورٹس آچکی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کمیشن‘ متاثرین کو موقع فراہم کرے گا کہ وہ اپنی بپتا سنائیں۔ جسٹس کول نے کہا کہ جنوبی افریقہ میں ایسا ہی کمیشن رنگ و نسل کے بھیدبھاؤ کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات کے لئے بنا تھا۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں وادی ئ کشمیر کے مختلف طبقات ایسے کمیشن کے قیام کا مطالبہ کرچکے ہیں۔

سابق چیف منسٹر جموں وکشمیر عمر عبداللہ بھی ریاست میں ٹرتھ اینڈ ری کنسیلیشن کمیشن کے قیام کا مطالبہ کرتے رہے ہیں تاکہ عرصہ سے جاری تشدد سے متاثرہ پنڈت اور مسلم دونوں برادریوں کے مسائل کی یکسوئی ہو۔ جسٹس کول نے خبردار کیا کہ یہ کمیشن فوجداری عدالت میں تبدیل نہ ہو۔ اسے انسانیت کو ملحوظ رکھنا ہوگا۔

یہ کمیشن ڈائیلاگ کی بنیاد پر ہو‘ مختلف آراء قبول کی جائیں اور سبھی کی بات سنی جائے۔ فیصلہ کی خبر آتے ہی۔ ڈیموکریٹک پروگریسیو آزاد پارٹی(ڈی پی اے پی) کے سربراہ غلام نبی آزاد نے کہا کہ فیصلہ افسوسناک اور بدبختانہ ہے لیکن قبول کرنا پڑے گا۔ سابق چیف منسٹر جموں و کشمیر نے کہا کہ خطہ کے لوگ خوش نہیں ہیں۔