دہلی

”جیل میں میری لڑکی کی طبیعت ناساز ہے، روزہ نہیں رکھ سکتی“۔ گرفتار جہد کار کی ماں کا دعویٰ

جہد کار گلفشاں فاطمہ کی ماں نے یہ بات کہی جنہوں نے دعوت افطار پر ان خاندانوں سے ملاقات کی جن کے عزیزوں کو سی اے اے کے خلاف 2020ء کے احتجاج کے دوران سخت ترین انسداد دہشت گردی قانون کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔

نئی دہلی: اس کے لیے روزہ رکھنا ممکن نہیں کیو ں کہ جیل میں اس کی طبیعت ناساز ہے۔ جہد کار گلفشاں فاطمہ کی ماں نے یہ بات کہی جنہوں نے دعوت افطار پر ان خاندانوں سے ملاقات کی جن کے عزیزوں کو سی اے اے کے خلاف 2020ء کے احتجاج کے دوران سخت ترین انسداد دہشت گردی قانون کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔

متعلقہ خبریں
دہلی فسادات کیس ایک شخص کو ضمانت منظور
متھن چکرورتی کی والدہ شانتی رانی چل بسیں
آسٹریلیا کے کپتان پیاٹ کمنس کی والدہ کا انتقال
دفاتر میں لڑکیوں کو رکھنا فیشن بن گیا
مستقبل کی مائیں:اپنی صحت کا خیال رکھیں

شہریت قانون کے حامیوں اور مخالفین کے درمیان تشدد کے بعد24/ فروری 2020 کو شمال مشرقی دہلی میں فرقہ وارانہ جھڑپوں میں کم از کم 53 افراد کی موت جبکہ تقریباً200زخمی ہوگئے تھے۔

”افطار“ پر فاطمہ کی ماں نے دعویٰ کیا کہ ان کی لڑکی نے سلاخوں کے پیچھے تین سال گزار ردیے۔ اسے دو ماہ قبل ضمانت مل گئی مگر تاحال رہا نہیں کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ میری لڑکی کو گرفتارہوئے تین سال اور ضمانت حاصل ہوئے تقریباً دو ماہ کا عرصہ ہوچکا ہے مگر مجھے نہیں معلوم کہ میری بیٹی کی جیل سے رہائی میں اتنی تاخیر کیوں ہورہی ہے۔

میں عدالتوں کے مسلسل چکر لگارہی ہوں۔ بس یہی امید کرسکتی ہوں کہ وہ جلد سے جلد رہا ہوجائے۔ حکومت ہی ہمارے بچوں کو تعلیم دینے پر اصرار کرتی ہے۔ کیا میری بچی کو تعلیم دینے کا یہی نتیجہ ہے؟

“کچھ جہد کاروں کو فسادات کی مبینہ وسیع تر سازش کے کیس کے سلسلے میں انسداد غیرقانونی سرگرمیاں (قانون) کے تحت گرفتار کیاگیا۔ فاطمہ کی ماں نے کہا کہ ان کی دختر کی حالت اچھی نہیں ہے، اسی لیے وہ امسال روزہ نہیں رکھ سکتی۔

انہوں نے کہا کہ میری لڑکی کے لیے روزہ رکھنا ممکن نہیں ہے کیو ں کہ جیل میں اس کی صحت پہلے ہی بہت خراب ہوچکی ہے۔ امید کہ وہ جلد رہا ہوگی۔

فاطمہ نے اس کیس میں دہلی ہائی کورٹ سے یہ دعویٰ کرتے ہوئے ضمانت طلب کی تھی کہ تشدد کی حوصلہ افزائی میں اس کا کوئی کردار نہیں ہے۔ اسی قانون کے تحت الزام کا سامنا کرنے والے محمد سلیم کی دختر صائمہ خان نے کہا کہ میرے والد نے جیل میں درپیش مشکلات کا کبھی ذکر نہیں کیا۔“

اس نے کہا کہ میرے والد کی درخواست ضمانت پر فیصلہ فی الحال ہائی کورٹ میں محفوظ ہے۔ ان کی گرفتاری کے بعد ہم دونوں کی زندگی اجیرن بن چکی ہے۔ میرے والد نے جیل کی صعوبتوں کے تعلق سے کبھی بات نہیں کی۔

خان کو 2021ء میں ملزم بنایا گیا اور دہلی پولیس نے فسادات کے سلسلے میں ان کے خلاف تین ایف آئی آر درج کی تھی۔ ایک کیس میں ان پر یو اے پی اے کے تحت الزام عائد کیا گیا اور دیگر دو کیسس میں ضمانت ملنے کے باوجود وہ جیل میں ہیں۔

جہد کار اطہر خان کی والدہ نور جہاں نے کہا کہ میرے لڑکے کو جب گرفتار کیا گیا وہ بی بی اے کررہا تھا۔ میرے لڑکے کے خلاف یو اے پی اے سمیت تین کیسس درج کیے گئے۔ دیگر دو کیسس میں اسے تقریباً دیڑھ سال قبل ضمانت مل گئی مگر یو اے پی اے کا کیس ہنوز زیرالتواء ہے۔ فی الحال اس کے کیس کی سماعت ہائی کورٹ میں جاری ہے۔“