دہلی

تعدد ازدواج اور نکاح حلالہ کا مسئلہ، سپریم کورٹ 5 رکنی بنچ تشکیل دے گا

ایڈوکیٹ اشوینی اُپادھیائے جنہوں نے اس سلسلہ میں ایک درخواست داخل کی ہے‘ چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی زیرصدارت بنچ پر اس معاملہ کا تذکرہ کیا۔ اس بنچ میں جسٹس پی ایس نرسمہا اور جسٹس جے بی پاڑدی والا بھی شامل ہیں۔ بنچ نے کہا کہ وہ اس معاملہ پر غور کرے گی۔

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے آج کہا کہ وہ مسلمانوں میں تعدد ِ ازدواج اور نکاح ِ حلالہ کے دستوری جواز کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کے لئے مناسب مرحلہ پر ایک تازہ 5 رکنی بنچ تشکیل دے گا۔

متعلقہ خبریں
عباس انصاری والدکی فاتحہ میں شرکت کے خواہاں
سی اے اے قواعد کا مقصد پڑوسی ملکوں کی اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ
صدر جمہوریہ کے خلاف حکومت ِ کیرالا کا سپریم کورٹ میں مقدمہ
الیکشن کمشنرس کے تقرر پر روک لگانے سے سپریم کورٹ کا انکار
مولانا کلیم صدیقی پر کیس کی سماعت میں تاخیر کا الزام

ایڈوکیٹ اشوینی اُپادھیائے جنہوں نے اس سلسلہ میں ایک درخواست داخل کی ہے‘ چیف جسٹس آف انڈیا (سی جے آئی) جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی زیرصدارت بنچ پر اس معاملہ کا تذکرہ کیا۔ اس بنچ میں جسٹس پی ایس نرسمہا اور جسٹس جے بی پاڑدی والا بھی شامل ہیں۔ بنچ نے کہا کہ وہ اس معاملہ پر غور کرے گی۔

 چیف جسٹس نے کہا کہ کسی مناسب مرحلہ پر میں ایک دستوری بنچ تشکیل دوں گا۔ 30  اگست کو 5 رکنی دستوری بنچ نے جو جسٹس اندرابنرجی‘ جسٹس ہیمنت گپتا‘ جسٹس سوریہ کانت‘ جسٹس ایم ایم سندریش اور جسٹس سدھانشو دھولیہ پر مشتمل تھی۔

 درخواست گزاروں کو ایک نوٹس جاری کی تھی اور قومی انسانی حقوق کمیشن (این ایچ آر سی)‘ قومی کمیشن برائے خواتین (این سی ڈبلیو) اور قومی اقلیتی کمیشن (این سی ایم) کو اس معاملہ میں فریق بنایا تھا اور ان سے جواب طلب کیا تھا۔ بہرحال 2 ججس جسٹس بنرجی اور جسٹس گپتا ریٹائر ہوچکے ہیں۔

 اسی لئے تعددِ ازدواج اور نکاح ِ حلالہ کے طریقہ کو چیلنج کرنے والی متعدد درخواستوں کی سماعت کے لئے ایک تازہ بنچ تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ اُپادھیائے کی درخواست میں کہا گیا کہ طلاق ِ ثلاثہ‘ تعددِ ازدواج اور نکاح حلالہ کے ذریعہ خواتین کو پہنچنے والی تکلیف دستور کی دفعہ 14‘15  اور 21 کے مغائر اور عوامی نظم‘ اخلاقیات اور صحت کے لئے نقصان دہ ہے۔

اس درخواست کے ذریعہ مسلم پرسنل لا (شریعت) اپلیکیشن ایکٹ 1936 کی دفعہ 2 کو غیردستوری اور دستور کی دفعہ 14‘ 15 اور 21 کے مغائر قراردینے کی گزارش کی گئی ہے کیونکہ مذکورہ دفعہ کے تحت تعددِ ازدواج اور نکاح ِحلالہ کو تسلیم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

 اشوینی نے کہا کہ یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ عام قانون کو شخصی قوانین پر فوقیت حاصل ہوتی ہے اسی لئے یہ عدالت طلاق ثلاثہ کو تعزیرات ِ ہند کی دفعہ 498A,1860 کے تحت جرم قراردے سکتی ہے۔ تعزیرات ِ ہند کی دفعہ 375 کے تحت نکاح ِ حلالہ عصمت ریزی ہے اور تعددِ ازدواج آئی پی سی 1860 کی دفعہ 494 کے تحت ایک جرم ہے۔

 اگست 2017 میں عدالت ِ عظمیٰ نے کہا تھا کہ طلاق ِ ثلاثہ غیردستوری ہے اور 2 کے مقابل 3 کی اکثریت سے اسے کالعدم کردیا تھا۔ تعددِ ازدواج کے تحت کسی بھی مسلمان شخص کو بیک وقت 4 بیویاں رکھنے کی اجازت حاصل ہے۔