طنز و مزاحمضامین

وقت کی مار

سرور جمال

بچپن سے سنتے چلے آرہے ہیں، کہ وقت بہت بری شئے ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو یہ محاورے کیسے بنتے۔ ”وقت آپڑا ہے۔“ ، ”وقت وقت کی بات ہے۔“ ، ”خدا کسی پر وقت نہ ڈالے۔“ وقت کی اہمیت جانے بغیران محاوروں کو موزوں وناموزوں لاتعداد بار استعمال کرتی چلی آئی ہوں، خود تو کبھی وقت کی مار میں مبتلا ہونے کا اتفاق نہیں ہوا تھا، لیکن اس بات کی تو اب میں بھی قائل ہوتی جارہی ہوں کہ ”وقت نے کس کا ساتھ دیا ہے۔“ اچھی بھلی آرام کی زندگی گزر رہی تھی، لیکن میری شامت جو آئی، تو میں بھی وقت کی مار میں مبتلا ہوگئی، اب آپ ہی انصاف کیجئے، دن میں کم ازکم سوبار، ”انڈین ٹائم“ ، ”ہندوستانی وقت کے مطابق“، ”مشرق اور وقت کی پابندی“ وغیرہ جیسے فقرے سن کر کوئی غیور مشرقی کب تک بیٹھا رہ سکتا ہے، یہ سب باتیں سن کر میرا خون کھول اٹھتا۔ جب میرا خون کھول کھول اور جل جل کر میرے رنگ کی طرح کالا ہوگیا، تو میں نے ایک فیصلہ کیا اور وہ تھا وقت کا پابند ہونا،دنیا کو نہیں، کم سے کم اپنے وطن والوں کوتودکھا ہی دوں کہ وقت کا پابند ہونا کسے کہتے ہیں اور وقت کا پابند کیسے ہوا جاتا ہے، لیکن جب میں نے بہ بانگ دہل اس بات کا اعلان کردیا کہ آج سے ہم وقت کے پابند ہوگئے اور ہمارا سارا کام گھڑی کی سوئی کے ساتھ ہوگا، تو میرا بری طرح مذاق اڑایا گیا۔ بعضوں کو تو میری دماغی حالت میں بھی کچھ فتور سا نظر آنے لگا، کیونکہ ہمارے یہاں کوئی صحیح الدماغ شخص ایسا سوچ بھی نہیں سکتا، کس کی عقل ماری گئی ہے، جو اپنے آپ کو ساری دنیا سے کٹ آف کرکے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنالے، اس لیے مجھ کو اس پاگل پن سے دور اور اپنے سے نزدیک رکھنے کے لیے طرح طرح سے میری حوصلہ شکنی کی گئی، بار بارتنبیہ کی گئی۔ ”اے بی، یہاں تو بڑے سے بڑا وقت کا پابند نہ ہوسکا، پھرتمہاری کیا حقیقت ہے، چہ پدّی چہ پدّی کا شوربہ۔“ مجھ پر بھی ضد سوار ہوگئی، اور ترکی بہ ترکی جواب دیا، ”آخر وہ لوگ بھی تو ہیں، جو وہ کام کر گزرتے ہیں جو رستم بھی نہ کرسکا۔ میں بھی دکھا کے رہوں گی، کہ رستم کسے کہتے ہیں۔“ اور اس دن سے میرا نام ’رستمِ وقت‘ پڑگیا۔ میرے ایک بزرگ نے جب میرا یہ عزم سنا، توبہت خوش ہوئے اور کہنے لگے، ”ارادہ تو بہت نیک ہے، لیکن سوچ لو، کہیں بعد میں پچھتانا نہ پڑے۔ وقت کا پابند ہونا بڑی اچھی بات ہے، لیکن کبھی کبھی لیٹ ہوجانے سے بھی انسان بہت بڑی پریشانی سے نجات پاجاتا ہے۔“
”وہ کیسے؟“
”وہ ایسے کہ ایک بار میں ایک میوزک کنسرٹ میں گیا۔ پروگرام شروع ہوچکا تھا اورمیں تقریباً ایک گھنٹہ لیٹ پہنچا تھا۔ میں پریشان تھا، اس لیے منیجر سے پوچھا، ”اس سے پہلے کیا ہو رہا تھا۔“ جواب ملا، ”مس ماریا پبلک کے بے حد اصرار پرتیسری بارگارہی ہیں۔“ میں بے ساختہ بول اٹھا، ”تب تو دیر سے پہنچنے کا مجھے کوئی غم نہیں۔“ اس لطیفہ کو سن کر مجھے ہنسی تو آئی، لیکن میں نے اس کا کوئی اثر نہیں لیا۔ اور ڈٹی رہی اپنے ارادہ پر،اور سب کا دنداں شکن جواب یہی تھا، کہ بس اب تو ہم ہیں اور ہمارا ٹائم ٹیبل۔ کہتے ہیں Charity Begins from Home(خیرات گھر سے شروع ہوتی ہے) اس لیے اصلاح اپنے آپ سے شروع ہونی چاہیے، اپنے آپ پر نظر ڈالی تو خامیاں ہی خامیاں نظر آنے لگیں اس لئے سب سے پہلے آپ سدھارمیں لگ گئی۔ اس کے لئے ضروری تھا کہ کچھ ضابطے اور اصول بنائے جاتے، اس لئے بڑی محنت اور لگن سے میں نے دن بھر کے کاموں کا ایک ٹائم ٹیبل تیار کیا، جس میں بستر سے اٹھنے سے بستر پر جانے تک کے تمام چھوٹے بڑے کاموں کے اوقات درج تھے، جنہیں مقررہ وقت پر کرنے کا عزم میں تہہ دل سے کئے ہوئے تھی۔ گھر والوں کو سختی سے منع کردیا گیا کہ کوئی میرے کام میں مداخلت نہ کرے، اب بھلا کس کی مجال تھی کہ رستمِ وقت سے ٹکر لیتا۔
قصہ مختصر، پہلے دن میں نہایت جوش کے ساتھ اپنے مقررہ وقت پر گھڑی کے الارم کے ساتھ بیدار ہوگئی۔ اصول کی خاطر پیاری نیند کو خیرباد کہنا پڑا۔ شاید زندگی میں پہلی بار طلوعِ آفتاب کا منظر دیکھا، ورنہ آنکھیں آج تک تو غروب آفتاب ہی کو دیکھنے کی عادی تھیں، ناشتے کے وقت ٹائم ٹیبل کی دیواریں متزلزل نظر آئیں کیونکہ ہماری بوا اس معاملہ میں خالص مشرقی ذہنیت رکھتی ہیں اور انڈین ٹائم کی زور دار حامی ہیں، اس لئے ناشتے کے وقت اماں کا سوکھا سا جواب ملا۔ ”ناشتے کے لئے اتنی جلدی ہے اور اصول اتنا پیارا ہے تو رات کی باسی روٹی اور سالن نعمت خانہ سے نکال کر کھالو، ہم تو جب بوا آئیں گی اور گرم گرم ناشتہ تیار کریں گی، تب ہی کھائیں گے۔“ اب تو دو ہی صورتیں تھیں، یا تو ناشتہ گول کرو، یا باسی کھاو¿، لیکن بھوکا رہا کس سے جاتا یہاں تو یہ حال ہے کہ ”بھوکے بھجن نہ ہوئے“ ایک پیالی چائے بنانے میں ٹائم ٹیبل کا نقشہ ہی بدل گیا، دھوئیں والی چائے اور باسی سالن روٹی کھانے کے بعد مطالعہ کا وقت (ٹائم ٹیبل کے مطابق) آدھا بھی نہ رہا، لیکن یہ سوچ کر کہ دھیرے دھیرے سب ٹھیک ہوجائے گا، مطالعہ میں غرق ہوگئی۔ اچانک ایک ٹھوکر سی لگی۔ سامنے منی پڑوسن کی لڑکی کھڑی تھی۔ پڑوسن نے میرا نیا سوئٹر کہیں پہن کر جانے کے لیے عاریتاً مانگا تھا۔ چند لمحوں کے لیے میں چکراگئی۔ ارے توبہ! میرے ٹائم ٹیبل میں ایسے اہم کاموں کے لیے کوئی وقت نہ رکھا گیا تھا، حالانکہ مانگ کر کام چلانا ہمارے معمولات میں داخل ہے۔ اس ضروری نکتہ کو مجھے ضرور سمجھنا چاہیے تھا، لیکن اس بھول کی سدھار اس وقت ممکن نہ تھی، اس لئے میں نے اس سے کہا، یہ میرے پڑھنے کا وقت ہے، تم کسی فرصت کے وقت میں آکر لے لینا، وہ حیرت سے میرا منہ تکنے لگی، اب میرا فرض تھا کہ میں اس چھوٹی بچی کو وقت کی پابندی کا ایک سبق دوں، اس لیے میں نے اس کے سامنے ایک چھوٹی سی تقریر کر ڈالی جس میں میرے پورے پانچ منٹ دوسکنڈ صرف ہوگئے(بعد میں میری پڑوسن نے مجھ سے بات کرنا بند کردی کہ میں نے سوئیٹر نہیں دینے کے لیے بہانہ بازی کی اور لڑکی کو فضول باتوں میں الجھا دیا)
مطالعہ کے بعد جب میں کالج جانے کے لیے تیار ہونے لگی تو پہلی بار اس بات کا اندازہ ہوا کہ ایک عورت کو پورے طور سے تیار ہونے کے لیے کم ازکم چار گھنٹے چاہیے، جو وقت مکمل تیاری کا میرے ٹائم ٹیبل میں رکھا گیا تھا، اتنے میں تو لپ اسٹک تک ٹھیک سے نہیں لگائی جاسکتی، اورصرف لپ اسٹک لگا کرتوکالج جایا نہیں جاسکتا، ظاہر ہے کہ کالج دیر سے پہنچی۔ کالج پہنچی تو ہماری پرنسپل صاحبہ Last in First outوالی خالص افسرانہ ذہنیت رکھنے کے باوجود آچکی تھیں، اور نہ صرف آچکی تھیں بلکہ حاضری کے رجسٹر میں میرے نام کے خانے میں اپنی فتح کا سرخ جھنڈا بھی لہراچکی تھیں۔
رات کو میں نے ایک بار پھرٹائم ٹیبل میں ترمیم کی۔ کچھ وقت فضول کاموں اور گپ شپ کے لیے رکھا۔ صبح نئے ٹائم ٹیبل کے مطابق میرے تمام کام وقت سے پہلے ہوچکے تھے اور جب میں کالج پہنچی تو وہاں چپراسی تک نہ آیا تھا۔
شام کو واپسی پر گھر میں ایک عجیب سی ہلچل دکھائی دی۔ معلوم ہوا کہ گھر میں مہمان آئے ہوئے ہیں۔ ان کے ناشتے اور چائے کے انتظام کے لیے باورچی خانہ جانے کا، پھر بیٹھ کر ان کا دل بہلانے کا حکم ملا، لیکن یہ وقت تو خود میرے تھوڑی دیر آرام کرنے، چائے پینے اور پھر ہوا خوری کا تھا، لہٰذا ٹکا سا جواب دے کر اپنے کمرے میں چلی گئی۔
شروع شروع میں مجھے ٹائم ٹیبل کے حساب سے چلنے میں کافی دقت محسوس ہوئی، کیوں کہ آج تک ایک گھڑی تو کیا متعدد گھڑیاں رکھنے کے باوجود گھڑی کو وقت کے مطابق چلنے کے لیے استعمال نہیں کیا تھا۔آج تک سوچا ہی نہیں تھا کہ کتنا وقت صحیح معنوں میں کام میں صرف کرتی ہوں اور کتنا فضول گپ شپ اور بےکار باتوں میں، لہٰذا میرے کام کے اوقات کبھی تو بڑھ جاتے اور کبھی گھٹ جاتے اس لیے مجھے تقریباً روز ہی ٹائم ٹیبل میں کچھ نہ کچھ ردوبدل کرنا پڑتا، کبھی کوئی آئٹم بڑھانا پڑتا، تو کبھی کسی کام کے لیے کچھ وقت بڑھانا پڑتا۔
لیکن جناب اب تو یہ عالم ہے کہ میرے روزوشب گھڑی کے محور کے ساتھ گھوم رہے ہیں، مجھے اچھی طرح معلوم ہوگیا ہے، کہ کس کام میں کتنا وقت لگتا ہے۔ مجھے بات زبانی یاد ہوگئی ہے کہ منہ دھونے میں کتنے منٹ لگتے ہیں اور غسل کرنے میں کتنے گھنٹے لگتے ہیں، مختلف میک اپوں یعنی کالج جانے کا میک اپ، سنیما جانے کا میک اپ، معمولی تقریبات میں جانے کا میک اپ، شادی بیاہ میں جانے کے میک اپ اور کسی ادبی تقریب یا جلسے میں جانے کے میک اپ میں کتنا فرق ہے اور ہر ایک میک اپ میں کتنا وقت لگتا ہے، ایک نوالہ کتنے منٹ میں چبایا جاسکتا ہے اورپانی کا ایک گھونٹ یا چائے کی ایک کپ کتنے سکنڈ میں پی جاسکتی ہے وغیرہ وغیرہ۔
لیکن اب مشکل یہ آن پڑی ہے کہ جیسے جیسے ٹائم ٹیبل میرے قریب آرہا ہے، میرے گھر والے، پاس پڑوس والے، کالج کے ساتھی ٹیچرز، میری سہیلیاں میرا ساتھ چھوڑ چلی جارہی ہیں، کیونکہ بدقسمتی سے کسی کا نظام اوقات میرے ٹائم ٹیبل سے نہیں ملتا عام لوگوں کو تو چھوڑیئے، حکومت کے اہم شعبوں کو لیجئے، اوپر سے نیچے تک سب ہی وقت کی طرف سے غفلت کے شکار ہیں، محکمہ ڈاک وتار کی غفلت کا تو کوئی جواب نہیں، ہمارے بعض بعض خط ایسے بھی ہوتے ہیں، جو سال بھر کے بعد اپنی منزل مقصود کو پہنچتے ہیں۔ اکثر ہمارے تار ہفتوں میں اپنا چند منٹوں کا سفر طے کرتے ہیں۔ ٹرینوں کو دیکھئے کبھی وقت پر آنے کا نام نہیں لیتیں۔ میں تو ٹائم ٹیبل کا مطالعہ خاص کر کے یہی دیکھنے کے لیے کرتی ہوں کہ ریل گاڑیاں چھپے ہوئے ٹائم ٹیبل سے کتنی لیٹ آتی ہیں۔ ایک بار کئی گھنٹے کے مسلسل انتظار کے بعد جب جھنجھلاکر میں نے اسٹیشن ماسٹر سے پوچھا ، ”جناب یہ ریل گاڑیاں اتنی لیٹ کیوں آتی ہیں؟“ تو جواب ملا، ”اگر ریلیں وقت پر آنے لگیں تو وہ ویٹنگ روم کس کام آئیں گے اور اس بورڈ کا کیا مصرف رہ جائے گا، جس پر ریلوں کے لیٹ آنے کے ٹائم لکھے جاتے ہیں۔“
خیر مجھ میں ان صاحب کی طرح اتنی ہمت تو ہے نہیں جنہوں نے صرف وقت پر گاڑی آنے کے انتظار میں تین دن گزار دیئے اور اصول کی خاطر اپنا سفر ملتوی کیے رہے، اس لیے اسٹیشن ماسٹر کا یہ مضحکہ خیز جواب سننے کے بعد بھی بارہ گھنٹے لیٹ ٹرین پر سفر کرنا ہی پڑا۔ لیکن اب تو مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ اس بھری پری دنیا میں بجزٹائم ٹیبل کے کوئی میرا اپنا نہیں، سب خفا ہیں، دھیرے دھیرے میرا ساتھ چھوڑ رہے ہیں، کیونکہ جو وقت میرے سونے کا ہے وہ وقت میری سہیلیوں کے آنے کا ہے،لہٰذاان سے دور بھاگنا پڑتا ہے،جووقت میرے مطالعہ کا ہے،اس میں بچے کہانیاں سننا چاہتے ہیں، اس لیے ان سے بے مروتی اختیار کرنا پڑتی ہے، جو وقت میری سیروتفریح کا ہے اس میں اکثرگھرکے چھوٹے موٹے کام نکل آتے ہیں،جس سے بچنے کے لیے دوسروں سے بے رخی برتنی پڑتی ہے۔
ستم بالائے ستم تو یہ ہے کہ دعوتیں، پارٹیاں، سوشل تقریبات، ادبی ونیم ادبی تقریبات، شادی بیاہ میں شرکت، سب کچھ چھوڑنا پڑتا ہے، کیوں کہ اگر وقت پر دعوت میں پہنچئے تو پتہ چلتا ہے کہ ابھی تک میز کرسیاں فرش فروش تک نہیں بچھے ہیں، تقریر سننے جائیے تو معلوم ہوگا کہ مقرر تو درکنار، ابھی منتظمین کا کہیں دور دور پتہ نہیں، مشاعروں میں جائیے تو شاعر صاحبان وقت پر پہنچنا کسرِ شان سمجھتے ہوئے غائب ہیں، لہٰذا اپنے اصولوں کی خاطر ہر طرح کی دعوت، پارٹیوں اور تقریبات سے کنارہ کشی کرتی جارہی ہوں اور عزیزوں اور دوستوں کی زبان میں ’اِن سوشل‘ ہوکررہ گئی ہوں۔
قصہ مختصر یہ کہ آج میں اپنے واحد ساتھی ’گھڑی‘ کے ساتھ ایک تنہا، سونی اور بے کیف زندگی گزار رہی ہوں، میری تو سمجھ میں کچھ نہیں آتا، اب آپ ہی بتائیے، میں کیا کروں، اور آخرکب تک وقت کی مارمیں مبتلا رہوں؟٭٭