مضامین

برطانیہ کی تاریخ کیا ہندوستان میں دہرائی جائے گی ؟

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

برطانیہ کی زائد ازدوسو سالہ پارلیمانی تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک غیر سفید فام شہری وزارتِ عظمیٰ کے عہدہِ جلیلہ تک پہنچنے میں کا میاب ہوگیا۔ ہندوستانی نژاد رشی سونک 24 اکتوبر 2022 کوبرطانیہ کے وزیر اعظم منتخب ہو گئے۔ 25 اکتوبر کو انہوں نے اپنے عہدے کا باقائدہ جائزہ بھی لے لیا۔ 42سالہ رشی سونک کو یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ گزشتہ دو صدیوں کے دوران منتخب ہونے والے برطا نیہ کے وزرائے اعظم میں سب سے کم عمر وزیر اعظم ہیں۔ اسی طرح وہ برطانیہ کے پہلے وزیراعظم ہیں جن کا تعلق ایشیاءسے ہے۔ انہوں نے محض سات سالہ سیاسی سفر کے بعد برطانیہ کے وزیراعظم کے عہدے تک رسائی حاصل کرکے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔ 2015 میں وہ پہلی مرتبہ برطانیہ کی پارلیمنٹ کے رکن بنے اور برطانیہ کی کنزرویٹیو پارٹی کے رکن کی حیثیت سے انہوں نے اپنی قابلیت کا لوہا منواتے ہوئے ملک کی سیاست میں اپنا مقام بنایا اور اب وہ ملک کے وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہو گئے ہیں۔ وہ ایک ماہر معاشیات ہیں اور انہوں نے وزیر فینانس کی حیثیت سے کووڈ۔19کے خطرناک دور میں برطانیہ کی معیشت کو بحران سے بچانے میں اہم رول ادا کیا۔ رشی سونک برطانیہ کے شہر ساو¿ تھمپٹن میں 12 مئی1980 کو پیدا ہوئے۔ ان کے آباءواجدا د کا تعلق غیر منقسم ہندوستان سے تھا۔ن کے دادا ، دادی موجودہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے مقام گجرانوالہ سے تعلق رکھتے تھے۔ 1935میں ان کے دادا گجرانوالہ سے نیروبی منتقل ہو گئے ۔ ان کی دادی پہلے نئی دہلی آئیں اور بعد میں کینیا چلی گئیں۔ رشی سونک کے والد کینیا میں پیدا ہوئے اور والدہ تنزانیہ میں تولد ہوئیں۔بعد میں یہ خاندان برطانیہ منتقل ہو گیا۔ رشی سونک کی خاندانی جڑیں ہندوستان اور پاکستان سے جڑی ہوئی ہیں ۔ اس لیے دونوں ممالک کے پُرجوش عناصر انہیں اپنا ہم وطن ثابت کرنے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ کوئی یہ نہیں دیکھ رہا ہے کہ رشی نے ایک غیر مانوس ماحول میں اتنا بڑا مقام کیسے حاصل کیا اور برطانیہ کے سماج نے انہیں ایسے غیر معمولی مواقع دینے میں کوئی کوتاہ نظری نہیں دکھائی۔رشی سونک کے موجودہ خاندانی بندھن بھی ہندستان سے کافی مضبوط ہیں۔انہوں نے 2009 میں انفوسس کے بانی اور ہندوستانی ارب پتی نارائن مورتی کی بیٹی اکشتا مورتی سے شادی کی۔ ان کی دو بیٹیاں ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ رشی سونک ہندو مذہب پر سختی سے عمل بھی کرتے ہیں۔ انہوں نے 2017 میں ہاو¿س آف کا منس میں بھگود گیتا پر ہاتھ رکھ کر اپنے عہدے کا حلف لیا تھا۔ برطانیہ کے سابق وزیر اعظم بورس جانسن کے استعفیٰ کے بعد سے ہی رشی سونک وزارت عظمی ٰ کے عہدے کی دوڑ میں شامل ہو گئے تھے لیکن قسمت نے ساتھ نہیں دیا اور میری الزبتھ ٹرس المعروف لزٹرس نے بازی مار لی۔ لیکن وہ صرف 43دن وزیر اعظم کے عہدے پر فائز رہ سکیں۔ ملک میں جاری معاشی بحران پر قابو نہ پانے کے الزام میں لزٹرس کو وزارت عظمیٰ چھوڑنی پڑی۔ان کے استعفیٰ کے بعد رشی سونک کا مقدر جاگا اور وہ برطانیہ کے وزیر اعظم منتخب ہو گئے۔ انہوں نے یہ عہدہ ایک ایسے وقت سنبھالا ہے جب کہ برطانیہ سیاسی اور معاشی طور پر عدم استحکام کے دور سے گزر رہا ہے۔ قیمتوں میں بے انتہا اضافہ سے اشیائے ضروریہ کی خریدی بھی مشکل ہو گئی ہے۔ برطانوی عوام کے حالات ابتر ہو تے جا رہے ہیں ،انہیں حکومت کوئی راحت پہنچانے میں ناکام ہو گئی ہے۔ معیشت میں سدھار آنے کے کوئی آ ثار نہیں ہیں۔ عالمی سطح پر بھی برطانیہ کی ساکھ متاثر ہوتی جا رہی ہے۔
ایک ایسے وقت جب کہ برطانوی عوام حکمرانوں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے مختلف اندیشوں کا شکار ہیں، ایسے میں رشی سونک کا وزیراعظم کی حیثیت سے انتخاب ان کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہے وہ کس طرح سے ملک کی ڈگمگاتی معیشت پر قابو پاسکیں گے اور عوام کو مشکلات سے نکال کر راحت پہنچا سکیں گے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔ چھ سال کے مختصر عرصہ میں برطانیہ میں اقتدار کی پانچویں مرتبہ تبدیلی اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ جس سلطنت کا سورج کبھی غروب نہ ہونے کا دعویٰ کیا جاتا تھا آج وہ کس قدر ابتری کے دور سے گزررہی ہے۔ نو منتخب وزیر اعظم نے اس بات کا اعتراف تو کیا کہ سابق حکمرانوں نے کچھ غلط فیصلے کئے لیکن ان اقدامات کے پیچھے کسی قسم کی بدنیتی یا برے ارادے نہیں تھے۔ ان غلطیوں کو ٹھیک کرنے اور ملک میں معاشی استحکام کی راہیں تلاش کرنے کا انہوں نے وعدہ بھی کیا ۔ لیکن باور کیا جارہا ہے کہ قدامت پسند پارٹی ( کنزرویٹیو پارٹی ) کے قائدین نے کساد بازاری پر قابو پانے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے جس سے ملک میں بے چینی بڑھتی چلی گئی ۔کرونا کی وباءنے پہلے ہی پوری بین الاقوامی مارکٹ میں کہرام مچادیا تھا بعد میں روس۔ یوکرین جنگ نے برطانیہ کی رہی سہی معیشت کو بھی ٹھکانے لگادیا۔ برطانیہ کی جانب سے روس کے خلاف جنگ میں نبرد آزما یوکرین کی مدد سے خود برطانیہ کے حالات بگڑتے چلے گئے ۔ برطانوی عوام کو شکایت ہے کہ ہزاروں یوکرینی پناہ گزینوں کو برطانیہ میں قیام کا موقع دے کر ملک کے عوام کے ساتھ انصاف نہیں کیا گیا۔ اسی بحران کا شاخسانہ تھا کہ پہلے بورس جانسن کو وزیراعظم کے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا ، اس کے بعد ان کی جانشین لزٹرس کو محض 43دن حکومت کر کے وزارت عظمیٰ کی گدی چھوڑنی پڑی اور اب رشی سونک دو ماہ کے دوران برطانیہ کے تیسرے وزیراعظم بنے ہیں۔ وہ کب تک اس عہدے پر فائز رہ سکیں گے، اس بارے میں کوئی حتمی بات نہیں کہی جا سکتی۔ رشی سونک کا انتخاب ان کی پارٹی نے کیا ہے۔ وہ عوام کی جانب سے راست طور پر منتخب نہیں ہوئے ہیں۔ جب انتخابات کا مرحلہ آئے گا، اس وقت ان کا اصل امتحان ہوگا۔ برطانیہ میں جاری معاشی انحطاط کو اپوزیشن پارٹیاں کنزرویٹیو پارٹی کو ذ مہ دار قرار دیتی ہیں ، اس کا جواب الیکشن کے دوران رشی سونک کس انداز میں دیں گے یہ ان کے لیے بہت بڑا مسئلہ ہوگا۔ رشی سونک ایک راسخ العقیدہ ہندو مانے جا تے ہیں۔ اس لیے ہندوستان کو ان سے بڑی امید یں وابستہ ہیں۔ وزیر اعظم نریندرمودی سمیت ہندوستان کے کئی قائدین نے انہیں اس جلیل القدر عہدے پر فائز ہوتے ہی مبارکبا د دیتے ہوئے ہند۔ برطانیہ کے درمیان ایک نئے اور خوشگوار عہد کے آغاز کی توقع ظاہر کی۔ ہند، برطانیہ تعلقات ماضی میں بھی بڑے مضبوط رہے اور رشی سونک کے ہندوستان سے ذاتی تعلق ہونے کی وجہ سے اس میں مزید بہتری کے آثار پائے جا رہے ہیں۔ لیکن یہ سب کچھ عالمی سیاست پر منحصر ہے کہ کب ، کون کس کا دوست بنتاہے اور کب حالات کشیدہ ہوجاتے ہیں۔ رشی سونک اگرچکہ ہندوستانی نژاد ہیں لیکن وہ پیدائشی طور پر برطانوی ہیں۔ برطانیہ نے ہندوستان پر اپنا سامراجی نظام قائم کرکے ہندوستان کے وسائل پر جس انداز میں قبضہ کرلیا تھا، اس سے ساری دنیا واقف ہے۔ سامراجیت کے خلاف دو سوسال تک ہندوستانیوں کو اپنی قربا نیاں دینی پڑی۔ تب کہیں یہ ملک انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوا۔ مجاہدین آزادی کی ان جانفشانیوں کو نظرانداز کر تے ہوئے ہندوستانی اگر برطانیہ کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھتے ہیں تو پھر ایک بار ہندوستانیوں کو پابہ زنجیر ہونے کی نوبت آئے گی۔ آج کوئی ملک کسی ملک پر حملہ کرکے قبضہ نہیں کرسکتا لیکن کسی قوم کو ذہنی غلامی کے لیے تیار کرسکتا ہے۔ برطانیہ سے قربت کے معنی ہندوستانیوں ایک نئی غلامی کو دعوت دینا ہے۔
برطانیہ میں رشی سونک کے وزیراعظم کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد ہندوستان میں ایک نئی بحث شروع ہو چکی ہے۔ کانگریس کے سینئر لیڈر اور ملک کے سابق وزیر فینانس پی چدمبرم نے اس تناظر میں کہا کہ ہندوستان کو اقلیتوں سے متعلق اپنا نظریہ بدلنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے اپنے ٹویٹ میں کہا کہ پہلے کملا ہریس اور اب رشی سونک کو امریکہ اور برطانیہ کے عوام نے اپنے گلے سے لگایا جب کہ یہ دونون غیر اکثریتی شہری ہیں۔ وہاں کے عوام نے انہیں اعلیٰ عہدوں پر فائز کرکے جس وسیع النظری کا مظاہرہ کیا، اس سے ہندوستان اور یہاں کی اکثریتی جماعتوں کو بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ اسی طرح کانگریس کے دوسرے سنیئر قائد ششی تھرور نے بھی یہ سوال کیا کہ کیا کوئی مسلمان ، ہندوستان کا وزیر اعظم بن سکتا ہے ؟ انہوں نے کہا کہ کیا ہم اپنی اس اکثریتی سیاست میں جس میں بی جے پی کا بڑا ہاتھ ہے ،کسی ایسے دن کا تصور کر سکتے ہیں جب کوئی ایسا شخص ہماری حکومت کا سربراہ ( ویزر اعظم ) بنے جو نہ ہندو ہو، نہ جین ہو، نہ سکھ ہو اور نہ بدھ ہو۔ ان کا اشارہ مسلمانوں کی طرف تھا۔یہ ایک حقیقت ہے کہ ہندوستان کی آزادی کے پچھتر سال بعد بھی کسی مسلمان کو وزیر اعظم کا عہدہ نہیں مل سکا۔ مسلمانوں کی قربانیوں اور ملک کی تعمیر نو میں ان کے رول کا اعتراف تو کیا جا تا رہا لیکن کبھی مسلمان کو ملک کاسربراہ بنانے کے بارے میں سوچا بھی نہیں گیا۔ کانگریس قائدین کے ان بیانات سے بی جے پی کے لیڈر چراخ پا ہو گئے اور دعوی کرنے لگے کہ ہندوستان ، برطانیہ سے زیادہ روادار ملک ہے۔ منموہن سنگھ کے وزیراعظم بننے اور اے پی جے عبدالکلام کے صدر جمہوریہ کے عہدے پر فائز ہونے کو اپنا کمال بتاتے ہوئے کہا کہ ہمیں کسی ملک کے تنوع پر چلنے کا سبق دینے کی کسی کو ضرورت نہیں ہے۔ یہ دعویٰ کیا گیا کہ اس ملک میں تین صدر جمہوریہ مسلمان رہ چکے ہیں اور ایک سکھ نے دس سال سربراہِ حکومت کے فرائض انجام دیے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ہندوتوا پر ایقان رکھنے والی پارٹی نے ایک قبائلی خاتون کو اپنے ملک کا صدر جمہوریہ بنایا ہے۔ موجودہ صدر جمہوریہ دروپدی مرمو قبائلی طبقہ سے تعلق رکھتی ہیں۔ بہرحال یہ بحث لایعنی ہے کہ کسی ملک کے وزیر اعظم کے ہند نژاد ہونے سے ہندوستان کی سیاست پر کوئی فرق پڑنے والا ہے۔ لیکن ہندوستان جو پرامن بقائے باہم کے نظریہ پر یقین رکھتا ہے اور جس ملک کے دستور میں یہ بات درج کردی گئی کہ بلا لحاظِ مذہب، فرقہ و ذات کوئی بھی شخص کسی بھی سیاسی عہدہ کو حاصل کر سکتا ہے۔ آخر کیا بات ہے کہ ایک مخصوص طبقہ کو جو ملک کی پوری آبادی کا چودہ فیصد حصہ ہے ، اسے یہ موقع کیوں نہیں دیا گیا کہ وہ سربراہِ حکومت بن کر ملک اور قوم کی خدمت کر سکے۔ کسی مسلمان کا ہندوستان کا وزیراعظم نہ بننا دراصل اس اعتماد کی کمی کا نتیجہ ہے جس کا شکار یہاں کی اکثریت ہے۔ یہاں کی اکثریت کے دل و دماغ میں یہ بات پیوست کر دی گئی کہ اس ملک کے مسلمانوں کو کلیدی عہدوں پر فائز نہ کیا جائے۔ ملک کے پہلے وزیراعظم پنڈت جواہر لال نہرو نے آزادی کے بعد ملک کی ریاستوں کے چیف منسٹرس کو خطوط لکھ کر کہا تھا کہ یہ ملک اقلیتوں کو اعتماد میں لیے بغیر نہیں چل سکتا۔ انہوں نے یہ بھی لکھا کہ یہ اکثریت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اقلیتوں کو مطمئن اور خوش رکھے، کیوں کہ اسی میں ملک کا مفاد ہے۔ لیکن آج حالات اس کے بالکل بر عکس ہیں۔ اقلیتوںکو اعلیٰ عہدے ملنا تو درکنار ان کی جان ومال خطرے میں پڑ گئے ہیں۔ ان کی تہذیب و ثقافت مٹادی جا رہی ہے۔ ان کے دین و ایمان پر حملے ہو رہے ہیں۔ بدلتے عالمی منظر نامے سے ہندوستانی سبق نہیں لیتے ہیں اور یہاں کی اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کے ساتھ نا انصافی، ظلم اور تعصب کا سلسلہ ختم نہیںہوتا ہے تو دنیا یہی کہے گی کہ ہندوستان میں اقلیتوں کے تئیں ابھی بھی نظریہ نہیں بدلا ہے۔٭٭