بھارت

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ، شخصی مفادات کی تکمیل کا پلیٹ فارم

ایک تحریک کے طور پر بورڈ کا قیام عمل میں آیا تھا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک ادارہ میں تبدیل ہوگیا۔ تحریک اور تنظیم میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ تحریک سے جڑے احباب کے پیش نظر مقصد اہم ہوتا ہے اور تنظیم سے جڑے لوگ چند مخصوص سرگرمیوں کے اسیر ہوتے ہیں۔

انتہائی افسوس کی بات ہے کہ جس ادارہ پر ملک بھر کے مسلمان بجا فخر کیا کرتے تھے کہ یہ مسلمانان ہند کا ایک غیر نزاعی نمائندہ ادارہ ہے اورجس پر تمام مکاتب فکر کے ماننے والوں کا کامل اعتبار تھا، آج وہی ملت اسلامیہ کی رسوائی کا موجب بن رہا ہے۔

ایک تحریک کے طور پر بورڈ کا قیام عمل میں آیا تھا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایک ادارہ میں تبدیل ہوگیا۔ تحریک اور تنظیم میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ تحریک سے جڑے احباب کے پیش نظر مقصد اہم ہوتا ہے اور تنظیم سے جڑے لوگ چند مخصوص سرگرمیوں کے اسیر ہوتے ہیں اور وہ دفتریت میں الجھ کر جمود کا شکار ہوجاتے ہیں۔

تحریک سے جڑے احباب کبھی بھی نتائج کی پرواہ نہیں کرتے اور اپنا مقصد پانے کے لئے کسی بھی قسم کی قربانی دینے ہمیشہ آمادہ رہتے ہیں جب کہ تنظیم سے جڑے لوگ تشہیر پر زیادہ زور دیتے ہیں۔ جب کسی تحریک میں خود غرض افراد کا غلبہ ہوجاتا ہے تووہ مقاصد کو پس پشت ڈال کر مفادات کو ترجیح دینے لگتے ہیں۔

اگرچہ بورڈ کے قیام کے وقت ہمارے اکابر نے مخلصانہ کوشش کی تھی کہ تمام مکاتب فکر کے لوگوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جائے مگر وقت گزرنے کے ساتھ ایک مخصوص مکتب فکر کے حامل لوگوں کا اس پر تسلط قائم ہوگیا ہے جس کو محسوس کرتے ہوئے دیگر مکاتب فکر کے اکابر بورڈ کے اجلاسوں میں شرکت تو کرتے ہیں مگر بورڈ کے داخلی امور سے بالکل الگ تھلگ ہوکر رہ گئے ہیں۔

اگرچہ بورڈ سے جماعت اسلامی‘ جمعیتہ علمائے ہند اور جمعیتہ اہل حدیث ہنوز وابستہ ہیں مگر اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ان تنظیموں کی یہی کوشش رہی کہ بورڈ کی سرگرمیاں جتنا ہوسکے محدود رہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ بورڈ کا استحکام ان کے لئے  شناخت کا بحران پیدا کرسکتا ہے۔ شائد یہی وجہ تھی کہ دیگر تنظیموں کے ساتھ تصادم نہ ہو تحفظ شریعت، تحفظ شعائر اسلام اور اصلاح معاشرہ جیسے تین اہم امور کو ہی بورڈ کے مقاصد میں شامل رکھا گیا ہے۔

ملت اسلامیہ ہند کو ماضی میں کئی نازک مرحلوں سے گزرنا پڑا مگر بورڈ نے ان میں محض اس لئے مداخلت نہیں کی کہ وہ امور، مذکورہ بالامقاصد کے دائرہ کار میں نہیں آتے مگر حالیہ دنوں میں جب شریعت اسلامیہ میں مداخلت کی سرکاری کوششیں ہوئیں اور شعائر اسلام پر حملے بھی ہوئے تو بورڈ نے حرکت کرنے میں بڑی تاخیر کی اور جس انداز میں ردعمل ظاہر کیا اس نے بہت سے مسلمانوں کو مایوس کردیا۔

ایک عرصہ سے ہی محسوس کیا جارہاتھا کہ صدر بورڈ مولانا سید رابع حسنی ندوی کو ریموٹ کنٹرول کیا جارہا ہے بلکہ ان کی مرضی اور منشاء کے بغیر ہی بہت سے امور طے کردئیے جارہے ہیں اور انہیں کسی مسئلہ کا ایک پہلو بتاکر اپنے کئے گئے فیصلہ پر ان سے مہر تصدیق حاصل کرلی جارہی ہے۔

مسلم پرسنل لاء بورڈ کے ویمنس ونگ کی تحلیل اور پھر اس کے موقوف کئے جانے کی بات جب منظر عام پر آئی تو بہت سی ایسی باتیں بھی منظر عام پر آنا شروع ہوگئیں جن سے صاف اشارے ملتے ہیں کہ بورڈ پر تسلط قائم کرلینے والے چند لوگ بورڈ کو یرغمال بناچکے ہیں اور اتحاد امت اور حکمت و مصلحت کی آڑ میں بورڈ کو ایک مفلوج ادارہ میں تبدیل کرچکے ہیں۔

یہ لوگ بڑی ہی چالاکی سے اتحاد امت اور حکمت کی دہائی دیتے ہوئے بورڈ کے داخلی معاملات کو منظر عام پر آنے سے روکتے رہے اور اپنی من مانی کرتے رہے۔ بورڈ میں شامل جید علمائے ربانی جو حق کہنے میں کبھی تردد نہیں کیا کرتے تھے، وہ بھی محض اس لئے خاموشی اختیارکئے ہوئے تھے کہ اتحاد امت پر ضرب نہ پڑے مگر اب ان کے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوچکا ہے۔

ماضی قریب تک بھی جب کبھی ملک میں شریعت یا شعائر اسلام پر حملہ ہوتا تو تمام مسلمانوں کی نگاہیں مسلم پرسنل لاء بورڈ پر ہوتی تھیں اور بورڈ اپنا مؤقف پیش کرنے میں پس وپیش نہیں کرتا تھا مگر کچھ دنوں سے بورڈ کا رویہ موافق حکومت ہوتا چلاگیا اور ایسا لگ رہا تھا کہ ایک غیر مرئی طاقت بورڈ کو اقدام سے روک رہی ہے۔

بہت سے لوگوں کو پرسنل لاء بورڈ کی کارکردگی پر تعجب ہونے لگا تھا کہ آخر شریعت میں مداخلت اور شعائر اسلام پر حملوں کے بعد بھی بورڈ خاموش کیوں ہے مگر اس قضیہ میں یہ بات بھی عیاں ہوگئی ہے کہ بورڈ کے چند ارکان، ایجنسیوں کی ایماء پر کام کررہے ہیں۔

ویمنس ونگ کی کنوینر ڈاکٹر اسماء زہرہ نے شعبہ کی تحلیل پر ارکان عاملہ کو جو مکتوب لکھا اس میں چند ارکان کا ایجنسیوں سے تعلق ہونے کا ادعا کیا ہے۔ یقیناً یہ کوئی معمولی الزام نہیں ہے۔ ان کے اس الزام میں کچھ صداقت بھی لگتی ہے۔ ملک کے مایہ ناز عالم دین مولانا خلیل الرحمن سجاد نعمانی نے محترمہ کے موسومہ مکتوب میں دبے الفاظ میں ہی سہی، اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ بورڈ اب مخلص افراد کا ادارہ نہیں رہا ہے۔

مولانا سجاد نعمانی نے بجا کہا ہے ”عوام کی اصلاح کرنے والے ہم خواص کی جو حالت ہے وہ کسی صاحب شعور سے مخفی نہیں ہے۔ اقدامی کوشش تو دور کی بات ہے، ہمارے نفاق اور شقاف نے اور ہماری نفسیاتی بیماریوں نے ہمیں دفاعی تدبیریں کرنے کے لائق بھی نہیں چھوڑا، احساس کمتری، حسد اور ذاتی اغراض و مفادات نے ہر اجتماعی کام کو اندر سے کھوکھلا کردیا ہے….‘‘

آپ نے زیادہ صراحت کے ساتھ لکھ دیا ہے کہ ہمارے درمیان کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کا تعلق ایجنسیوں سے ہے۔ آپ بخوبی واقف ہیں اور بھی ایسے لوگ ہیں جن کو اسی طرح کی ”جفائے وفا نما“ کے تجربے ہوچکے ہیں۔“

(یہ روزنامہ منصف حیدرآباد کا اداریہ ہے جو 25؍ اکتوبر 2022 بروز منگل کے اخبار میں شائع ہوا تھا)