بھارت

ایک ملک ایک پولیس یونیفارم، مودی کی تجویز

انہوں نے کہا کہ خوف اور دہشت سے پاک معاشرے کی تشکیل کے لئے تمام ریاستوں کی پولیس اور متعلقہ ایجنسیوں کو سماج دشمن طاقتوں کے خلاف سخت کارروائی کرنی ہوگی اور اس معاملے میں کوئی نرمی نہیں برتی جانی چاہیے۔

سورج کنڈ: وزیر اعظم نریندر مودی نے تمام ریاستوں کی پولیس میں یکسانیت لانے، انہیں ایک مشترکہ شناخت دینے اور ان کی طاقت کومتحد کرنے کے لیے ‘ایک قوم ایک راشن کارڈ’ کی طرز پر ‘ایک قوم ایک پولیس یونیفارم’ شروع کرنے کی تجویزپیش کی ہے۔

جمعہ کو یہاں ریاستی وزرائے داخلہ کے چنتن شیور سے خطاب کرتے ہوئے مودی نے کہا کہ ملک بہت تیزی سے ترقی کررہا ہے اور اسی رفتار سے نئے چیلنجز بھی سامنے آرہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تمام ریاستی اور مرکزی حکومت کو ٹیم انڈیا کے جذبے سےان چیلنجوں سے قومی تناظر کو آگے رکھ کر نمٹنا ہوگا اور اگر ہم متحد ہوکر ان کا مقابلہ کریں گے تو تمام چیلنجزچھوٹے ہوسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ خوف اور دہشت سے پاک معاشرے کی تشکیل کے لئے تمام ریاستوں کی پولیس اور متعلقہ ایجنسیوں کو سماج دشمن طاقتوں کے خلاف سخت کارروائی کرنی ہوگی اور اس معاملے میں کوئی نرمی نہیں برتی جانی چاہیے۔

مسٹرمودی نے کہا کہ ملک میں جس طریقے سے ایک ملک ایک راشن کارڈ اورایک ملک ایک گرڈ کا انتظام کیاہے اسی طرزپرایک ملک ایک پولیس یونیفارم کے آئیڈیا پر بھی سنجیدگی سے تبادلہ خیال کیاجانا چاہئے۔ ایسا طریقہ اختیارکرنے سے پورے ملک کی پولیس کو فائدہ ہوگا، ایک تو ان کی شناخت یقینی ہوگی، دوسرا معیار بڑھے گا اور پولیس کے بیڑے میں ایک دوسرے کی طاقت بڑھے گی۔

انہوں نے کہا کہ وہ اپنے خیالات کسی ریاست پر مسلط نہیں کرنا چاہتے لیکن وہ چاہتے ہیں کہ اس تجویز پر غور کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ یکساں وردی نافذ کرتے وقت ریاست اینے خصوصی ٹیگ یا علامت کو وردی پر لگاسکتے ہیں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ہندوستان ترقی کے سفر پر بہت تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے، ایسے میں اس کے چیلنجز بھی بڑھنے والے ہیں اور بعض اوقات یہ چیلنجز دشمنی میں بھی بدل جاتے ہیں۔ کسی ملک کا نام لیے بغیر انہوں نے کہا کہ کوئی بھی ملک ہندوستان کے تیز رفتار ترقی کے سفر سے ناخوش ہوسکتا ہے اور وہ مختلف شعبوں میں اپنی بالادستی برقرار رکھنے کے لیے ہندوستان سے دشمنی بھی مول لے سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ایک فطری عمل ہے لیکن اس سے نمٹنے کے لیے ہمیں مل کر ایسا ماحول بنانا ہوگا کہ کوئی بھی ہمارے مفادات کے خلاف کام نہ کرسکے۔

مسٹرمودی نے تمام ریاستوں سے کہا کہ سماج میں امن پسند لوگوں میں تحفظ کا احساس پیدا کرنے کے لیے سماج دشمن طاقتوں کے خلاف سخت کارروائی بہت ضروری ہے۔ ان قوتوں کے خلاف کسی قسم کی رعایت نہیں برتی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ایک فیصد سماج دشمن قوتوں کے سامنے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے امن پسند 99 فیصد لوگوں کے ساتھ ناانصافی نہیں ہونی چاہیے۔

کسی بھی ملک کے وقار اور امیج کے لیے سیاحوں کو بہت اہم بتاتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا کہ سیاح اپنے مختصر قیام کی بنیاد پر ہی ملک کی شبیہ بنا اور خراب کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے تمام ریاستوں کو ٹورازم پولیس کی تشکیل پر بھی غور کرنا چاہیے اور اس میں خصوصی تربیت یافتہ اہلکاروں کو رکھا جانا چاہیے۔

اس تناظر میں انہوں نے اہم سیاحتی مقامات کے قریب ٹریفک جام کا مسئلہ حل کرنے کی بھی اپیل کی۔ انہوں نے کہا کہ ان سیاحتی مراکز کوتو تبدیل نہیں کیا جا سکتا لیکن وہاں ٹریفک کا مسئلہ حل کرنے کے لیے ایک نظام وضع کیا جا سکتا ہے۔

مسٹرمودی نے کہا کہ امن و امان اب کسی ایک ریاست کے دائرہ کار میں محدود نہیں ہے اور ٹیکنالوجی کے استعمال سے ایک ریاست میں بیٹھ کردوسری ریاست میں اوردوسرے ملک سے ہمارے ملک میں آسانی سے جرائم کا ارتکاب کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس مسئلہ سے نمٹنے کے لئے تمام ریاستوں کی ایجنسیوں کے درمیان ٹھوس تال میل بہت ضروری ہے۔ یہ ہر ریاست کی ذمہ داری ہے کہ اس کی تمام ایجنسیاں دوسری ریاست یا مرکز کی تمام ایجنسیوں کی کھل کر مدد کریں۔ وزیراعظم نے کہا کہ ایجنسیوں اور پولیس کے درمیان چھوٹے اور بڑے کی تفریق نہیں ہونی چاہیے۔

انہوں نے جرائم کے نئے نئے طریقوں سے نمٹنے کے لیے نئی ٹیکنالوجی تیار کرنے پر بھی زور دیا اور کہا، "ہماری ایجنسیوں کو جرائم کی دنیا سے 10 قدم آگے رہنا ہوگا۔ ٹیکنالوجی پر خرچ کرنے سے ہمارے دوسرے اخراجات بچ سکتے ہیں، اس لیے ٹیکنالوجی پر خرچ کرنے سے پیچھے نہیں ہٹناچاہیے۔

مختلف جرائم کی تحقیقات میں انسانی ذہانت کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ ٹیکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ ہمیں اس موڈ کو بھی بے حد مضبوط کرنا چاہیے کیونکہ انسان کی جانچنے اور تقسیم کی طاقت تفتیش میں بہت اہم ہوتی ہے۔

شہریوں کی سہولت میں رکاوٹ بننے والے پرانے قوانین کو منسوخ کرنے کی وکالت کرتے ہوئے مسٹرمودی نے کہا کہ ان کی جگہ بدلتے وقت کی ضروریات کے مطابق قوانین بنائے جانے چاہئیں۔