بھارت

نریندر مودی پر تنقید کرنے والے ارب پتی سرمایہ کار جارج سوروس کون ہیں؟

سوروس کے تبصرے پر بی جے پی قائدین چراغ پا ہوگئے ہیں اور بھگوا پارٹی کے قائدین جارج سوروس کے خلاف صف بندی کرتے ہوئے ایک کے بعد ایک تنقیدی بیانات جاری کررہے ہیں۔

نئی دہلی: امریکی ارب پتی سرمایہ کار جارج سوروس، اڈانی گروپ پر ہنڈن برگ ریسرچ کی حالیہ رپورٹ اور وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ گوتم اڈانی کے روابط پر اپنے تبصروں اور تنقیدوں کے لئے دوبارہ سرخیوں میں ہیں۔

متعلقہ خبریں
تحقیقاتی ایجنسیاں عدالت سے بالاتر نہیں: امیت شاہ
”بھارت میراپریوار۔ میری زندگی کھلی کتاب“:مودی
نئی پالیسی کے باعث حج اخراجات میں کمی آئے گی:اسمرتی ایرانی
اڈانی مسئلہ پر کانگریس سے وضاحت کامطالبہ، سرمایہ کاری کے دعوؤں پر شک و شبہات
وزیر اعظم کے ہاتھوں اے پی میں این اے سی آئی این کے کیمپس کا افتتاح

بلومبرگ کی ایک رپورٹ کے مطابق جارج سوروس نے کہا کہ مودی اس موضوع پر خاموش ہیں لیکن انہیں غیر ملکی سرمایہ کاروں کو اور پارلیمنٹ میں ان سوالات کا جواب دینا پڑے گا کہ اڈانی پر اتنی مہربانیاں کیوں کی گئی ہیں؟

جرمنی میں میونخ سیکوریٹی کانفرنس سے قبل اپنے خطاب میں جارج سوروس نے کہا کہ یہ ہندوستان کی حکومت پر مودی کی گرفت کو نمایاں طور پر کمزور کر دے گا اور انتہائی ضروری ادارہ جاتی اصلاحات کے لئے  آگے بڑھنے کا دروازہ کھول دے گا۔ انہوں نے کہا کہ میں ہندوستان میں جمہوریت کی جلد بحالی کی توقع کرتا ہوں۔

سوروس کے تبصرے پر بی جے پی قائدین چراغ پا ہوگئے ہیں اور بھگوا پارٹی کے قائدین جارج سوروس کے خلاف صف بندی کرتے ہوئے ایک کے بعد ایک تنقیدی بیانات جاری کررہے ہیں۔

سب سے پہلے جوابی حملہ کرنے والوں میں مرکزی وزیر سمرتی ایرانی شامل ہیں جنہوں نے سوروس کے تبصرے کو ہندوستان کے جمہوری عمل کو تباہ کرنے کا اعلان قرار دیا ہے اور کہا کہ بھارت کے خلاف جنگ چھیڑی جا رہی ہے تاہم یہ بات یاد رکھی جانی چاہئے کہ پی ایم مودی ملک کے دشمنوں اور ہندوستان کے درمیان کھڑے ہیں۔

جارج سوروس کون ہے؟

جارج سوروس ایک ارب پتی ہنگری نژاد امریکی سرمایہ کار، ہیج فنڈ مینیجر، شارٹ سیلر اور خدمت خلق میں یقین رکھنے والی شخصیت ہیں۔

سال 1930 میں ہنگری کے ایک خوشحال یہودی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ ان کے خاندان نے ہنگری میں سامیت دشمنی کے عروج کے دوران اپنی یہودی شناخت کو چھپانے کے لیے اپنا نام "Schwartz” سے بدل کر "Soros” رکھ لیا تھا۔ ان کا خاندان جعلی شناختی کاغذات خرید کر ہولوکاسٹ سے بھی بچ گیا تھا۔

جارج سوروس اس بارے میں کہتے ہیں کہ اپنی قسمت کے آگے سر تسلیم خم کرنے کے بجائے ہم نے ایک بری طاقت کا مقابلہ کیا جو ہم سے کہیں زیادہ طاقتور تھی- پھر ہم غالب رہے۔ نہ صرف ہم زندہ رہے بلکہ ہم دوسروں کی مدد کرنے میں بھی کامیاب ہوئے۔

جنگ کے بعد جیسا کہ کمیونسٹوں نے ہنگری میں اپنی پوزیشن مستحکم کی، سوروس لندن چلے گئے جہاں انہوں نے سرمایہ کاری بینکر بننے سے پہلے لندن اسکول آف اکنامکس سے ڈگری حاصل کی۔

انہوں نے اپنا پہلا ہیج فنڈ، ڈبل ایگل، 1969 میں کھولا۔ 1973 میں انہوں نے سوروس فنڈ مینجمنٹ کھولا اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی تاریخ میں سب سے کامیاب سرمایہ کاروں میں سے ایک بن گئے۔

وہ "The Man Who Broke the Bank of England” کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں کیونکہ انہوں نے 1992 کے دوران برطانیہ میں کرنسی بحران کے موقع پر 10 بلین پاؤنڈ اسٹرلنگ کی ’’شارٹ سیلنگ‘‘ کے ذریعہ ایک بلین پاؤنڈ کا منافع کمایا تھا۔

انہوں نے اپنی دولت کا استعمال کرتے ہوئے اوپن سوسائٹی فاؤنڈیشنز کا بھی قیام عمل میں لایا اور 100 سے زائد ممالک میں فاؤنڈیشنز، شراکت داروں اور منصوبوں کا ایک نیٹ ورک قائم کیا جن کے ذریعہ وہ دنیا بھر میں انسان دوست اقدامات روبعمل لاتے ہیں۔

ان کی ویب سائٹ کے مطابق وہ دنیا بھر میں اوپن سوسائٹی فاؤنڈیشنز کو اپنی جیب سے تاحال 32 بلین ڈالر عطیہ کرچکے ہیں جن کی مدد سے دنیا بھر میں فلاحی پروگرام چلائے جاتے ہیں۔

مودی پر تنقید پہلی بار نہیں:

قابل ذکر بات یہ ہے کہ جارج سوروس نے وزیر اعظم مودی پر پہلی تنقید نہیں کی ہے۔ 2020 میں بھارت میں قوم پرستی کے خوفناک عروج کے بارے میں بات کرتے ہوئے سوروس نے کہا تھا کہ سب سے بڑا اور سب سے خوفناک دھچکا ہندوستان کو اس وقت لگا جہاں جمہوری طور پر منتخب نریندر مودی ایک ہندو قوم پرست ریاست کو تشکیل دینے لگے۔ خودمختار مسلم خطہ کشمیر پر تعزیری اقدامات مسلط کر رہے ہیں اور ملک کے لاکھوں مسلمانوں کو ان کی شہریت سے محروم کرنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔