مذہب
ٹرینڈنگ

آثار مبارک حضور پر نور محمد ﷺ، فضیلت، اہمیت اور زیارت قرآن و احادیث کی روشنی میں

اللہ تعالی نے پہلے اپنے نورسے حضرت محمد ﷺ کے نور کو پیدا فرمایا اور آپ ﷺ کے نور سے سارے مخلوقات کو پیدا فرمایا ۔ آپ ﷺ کا فیض ہر زمانہ کے لوگوں پر عام تھا اور رہے گا۔ آپ ﷺ سے وابستہ ہر شئے مقدس، متبرک، محترم اور بے مثال قرار پاتی ہے۔

سید شجاعت اللہ حسینی بیابانی
موظف پرنسپل ورنگل

اللہ تعالی نے پہلے اپنے نورسے حضرت محمد ﷺ کے نور کو پیدا فرمایا اور آپ ﷺ کے نور سے سارے مخلوقات کو پیدا فرمایا ۔ آپ ﷺ کا فیض ہر زمانہ کے لوگوں پر عام تھا اور رہے گا۔ آپ ﷺ سے وابستہ ہر شئے مقدس، متبرک، محترم اور بے مثال قرار پاتی ہے۔ آپ ﷺ کے آثار مبارک، باقیات اور متروکات سارے آپ ﷺ کی مبارک نشانیاں ہیں اور با برکت ہیں۔ تابوت سکینہ کا ذکر سورہ بقرہ میں ، حضرت یوسف علیہ السلام کی قمیص کا ذکر سورہ یوسف میں مقدس وادی طویا کا سورہ طہ میں ملتا ہے۔

تابوت سکینہ انبیاء کرام کے آثار مبارک کا حامل بابرکت صندوق: قرآن المجید و الفرقان الحمید میں اللہ تعالی نے انبیاء کرام کے آثار مبارک یا باقیات کو مِّمَّا تَرَکَ فرمایا ہے اور ان کی تعظیم و توقیر کرنے کی ہدایت فرمائی ۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے: ترجمہ:اور ان سے(یعنی قوم بنی اسرائیل سے) ان کے نبی نے فرمایا اس کی بادشاہی کی نشانی یہ ہے کہ تمہارے پاس تابوت آئیگا جس میں تمہارے رب کی طرف سے دلوں کا چین( یعنی سکینہ) ہے اور کچھ باقیات( بچی ہوئی چیزیں) معزز موسیٰ علیہ السلام اور معزز ہارون علیہ السلام کے ترکہ کی اسے فرشتے اٹھاتے لائیں گے ۔

اگر (تم) ایمان رکھتے ہو(تو) تمھارے لئے اس میں بیشک بڑی نشانی ہے ۔(البقرہ: 248) اسی اہمیت کے پیش نظر اللہ رب عزت نے اس آیت کے آخر میں ارشاد فرمایا: اگر (تم) ایمان رکھتے ہو(تو) تمھارے لئے اس میں بیشک بڑی نشانی ہے ۔اللہ تعالی نہ صرف انبیاء کرام علیہم السلام کو چاہتا ہے بلکہ ان کی استعمال کردہ و ان سے منسوب اشیاءکو بھی چاہتا ہے اور ان میں برکت عطا کرتا ہے اور ان کے وسیلہ سے کی جانے والی دعاؤں کو قبولیت کا درجہ عطا کرتا ہے۔ سورہ الحج میں اللہ تعالی انبیاء کرام کی مقدس نشانیوں اورآثار مبارک کو شَعٰٓائِرَ اللہِ فرمایا ہے اور ان کی تعظیم کرنے کی ہدایت فرمائی۔ اللہ تعالی کا ارشادہے:

ترجمہ:بات یہ ہے اور جو اللہ کے نشانوں کی تعظیم کرے تو یہ دلوں کی پرہیزگاری سے ہے۔(الحج: 32) حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہم بیان کرتے ہیں: لوگ حضور اکرم ﷺ کے ساتھ ثمود کی سر زمین حجر میں اترے اس کے کنویں سے پانی نکالا اور اس پانی سے آٹا گوندھا۔ انہیں حضور اکرم ﷺ نے حکم دیا کہ اس (پلید) وادی کے کنویں سے جو ( ناپاک ) پانی نکالا گیا ہے اسے پھینک دو اور گوندھا ہوا آٹا اونٹوں کو کھلادو۔ آپ ﷺ نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حکم دیا کہ وہ اس (مبارک) کنویں سے پانی لیں جس پر حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی آئی تھی(یعنی پانی پی تھی)۔(صحیح البخاری) اسلاف صالحین کا صحیح عقیدہ: امام قرطبی رحمتہ اللہ علیہ نے اس واقعہ کی تشریح میں فرمایا کہ حضور اکرم ﷺ کا یہ ارشاد فرمانا کہ حضرت صالحہ علیہ السلام کی اونٹنی کے کنویں سے پانی لو انبیاء و صالحین کے آثار سے تبرک حاصل کرنے پر دلیل ہے (تفسیر جامع الاحکام القرآن)

حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم حضور اکرم ﷺ سے بے پنہا محبت رکھتے تھے۔ آپ ﷺ کے لعاب دہن (تھوک) پسینہ وضو کا بچا ہوا پانی اور خون کو بھی متبرک جانتے بلکہ بغرض حصول برکت اس سے استفادہ بھی فرماتے تھے۔ اس حدیث سے نہ صرف ان مبارک و مسعود تبر کات کی زیارت کا ثبوت ملتا ہے بلکہ ان سے حاصل ہونے والے فیوض و برکات اور سرفرازی کا ثبوت ملتا ہے۔ اور یہ معلومات تجربہ سے حاصل شدہ ہیں۔حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہ سفر میں حضور نبی کریم ﷺ کے نعلین مبارک، مسواک مبارک، عصاء مبارک ، وضو کا پانی، اور بستر اٹھائے رہتے۔ اس لئے صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم آپ کو صاحب نعلین ، صاحب سواک، صاحب عصاء اور صاحب پانی کہا کرتے تھے۔

صحیح البخاری میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالی عنہما کے مناقب میں ان کی پہچان ہی صاحب نعلین و الوسادۃ المطہرہ لکھی ہے۔ علامہ محمود کردی کی کتاب تبرک الصحابہ بہ آثار رسول اللہ ﷺ کے مطالعہ سے اس اعتقاد کو تقویت ملتی ہے کہ نعلین پاک سے برکت حاصل کرنا کوئی امر بدعت نہیں بلکہ معمول صحابہ و تابعین رہا ہے۔ محدثین کرام و اسلامی مورخین کے بیانات و تحریر ات سے اسکی تصدیق ہوتی ہے۔ مشہور صوفی شاعر حضرت عبد الرحمن جامی رحمت اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:

چوں سوئے گذر آری ، من مسکین ز ناداری
فدائے نقش نعلینت کنم جاں، یا رسول اللہ

اگر آپ (ﷺ) کبھی میری طرف تشریف لائیں تو میں مسکین ناداری اور عاجزی سے آپ (ﷺ) کے نعلین مبارک کے نقش پر اپنی جان قربان کردونگا۔ السائب بن یزید رضی اللہ تعالی عنہ نے بیان کیا : میری خالہ مجھ کو حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں لے گئیں اور عرض کیا: یا رسول اللہ ! میری بہن کے بیٹے کے پیر میں مرض ہے۔ چنانچہ آپ ﷺ نے میرے سر پر ہاتھ پھیرا اور میرے لیے برکت کی دعاء فرمائی؛ اسکے بعد آپ ﷺ نے وضو فرمایا اور میں نے آپ (ﷺ)کے وضو سے بچا ہوا پانی پی لیا۔ (صحیح بخاری: جلد1: 189) حضرت ابو جحیفہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے:

میں نے دیکھا کہ حضور نبی کریم ﷺ سرخ چمڑے کے خیمہ میں تشریف فرما ہیں اور میں نے دیکھا کہ بلال حضور نبی مکرم ﷺ کے وضو کرنے کے بعد بچا ہوا پانی پی رہے ہیں۔ میں نے دیکھا کہ لوگ ( حضرات صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم) بے صبری سے (وضو کا) استعمال کیا ہوا پانی حاصل کررہے ہیں اور جس کسی (صحابی) کو ملا وہ اسے اپنے بدن پر مل رہا ہے اور جس کسی کو کچھ نہ ملا وہ دوسروں کے ہاتھ سے اسکی نمی لے رہا ہے۔ (صحیح بخاری: 1: 373) حضور نبی کریم ﷺ کے آثار مبارک میں سب سے زیادہ جو چیز عام طور پر شہر وں اور قریوں میں بصد احترام ، قلوب مضطر کی تسکین کا ذریعہ بنی ہے وہ آپ ﷺ کے سر اقدس و ریش مبارک کے بال ہیں۔

جنہیں حضور ﷺ کے غلام و عشاقان، بڑے ادب و احترام کے پیش نظر موئے مبارک کہتے ہیں جو تمام آثار مبارکہ میں سب سے زیادہ متبرک و مقدس مانے جاتے ہیں ۔صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم نے آپ ﷺ کے ان آثار مبارکہ سے محبت، تعظیم اور توقیر فرمائی اور ان کی حفاظت اپنی جانوں سے زیادہ فرمائی ہے۔اپنی دلی تسکین و دماغی سکون حاصل کرنے کے لئے اور اپنے روحانی و مادّی مقاصد کی تکمیل کے لئے اسے واسطہ بنایا اور امراض خبیثہ و دفع بلیات کے لئے اس کا استعمال اسی پورے ادب و احترام سے فرمایا جیسے خود حضور نبی کریم ﷺ کا اور آپ کی موجودگی میں آپ سے حاصل کردہ کسی شئے کا کیا جاتا تھا۔

سنہ 10 ہجری میں حضور نبی کریم ﷺ نے بموقعہ حجتہ الوداع 10 ذوالحجہ کے دن بعد رمی جمار و ادائی قربانی حلق فرمایا (یعنی سر کے مبارک بال اتارے) حضرت معمار بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ (معززحجام) نے حضور نبی کریم ﷺ کے سر کے بال (مبارک گیسو) اتارے جنہیں حضور نبی کریم ﷺ نے خود صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم میں تقسیم فرمائے ۔یعنی بطور تبرک صحابہ کرام کوعطا فرما۔ صحیح البخاری و صحیح مسلم وغیرہ کی احادیث مبارکہ میں ان مبارک گیسوں یا موئے مبارک کو سب سے پہلے خوش عقیدہ سے حاصل کرنے والے خوش نصیب صحابہ کرام ؓ میں امیر الموءمنین حضرت ابو بکر الصدیق ، حضرت ابو طلحہ، امّ سلیم رضی اللہ تعالی عنہم کا نام آتا ہے۔

ام المؤمنین حضرت امّ سلمہ رضی اللہ تعا لی عنہا کے پاس کوئی مریض آتا تو آپ ایک پیالہ میں پانی لیکر اسمیں اس متبرک و مقدس موئے مبارک کو ہلاتیں اور مریض کو پلا دیتیں۔ چنانچہ وہ مریض شفاء یاب ہوجاتا تھا۔ حضرت عثمان بن عبد اللہ رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: میری بیوی مجھے ایک پیالہ دیکر حضرت امّ سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے ہاں بھیجا۔ وہ اس لئے کہ جب کبھی کوئی نظر بد کا شکار ہوتا یا بیمار ہوتا، تو ایک پیالہ میں پانی حضرت امّ سلمہ رضی اللہ تعالی عنہا کے ہاں بھیجا جاتا۔ آپ کے پاس حضور نبی کریم ﷺ کے مقدس موئے مبارک ایک چاندی کی ڈبیا میں محفوظ تھے اور آپ انہیں پانی میں ڈبویا کرتیں۔

مریض اس(متبرک) پانی کو پینے کے بعد صحتمند ہوجایا کرتے۔ (صحیح البخاری:2 : 875 ) امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعا لی عنہ، حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ تعا لی عنہ و امیر المؤمنین حضرت سیدنا عمر بن عبد العزیز رضی اللہ تعالی عنہ وغیرہ نے انکے کفن میں اشرف الانبیاء حضور پر نور نبی کریم ﷺ کے متبرک و مقدس موئے مبارک کو رکھنے کی ہدایت فرمائی تاکہ عالم برزق و آخرت میں خیر ہی خیر ہو۔ حضور نبی کریم ﷺ کی محبت اور انہیں صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم کی اتباع میں ائمہ کرام، محدثین کرام، صالحین، علماء حق ، مشائخین وغیرہ نے بھی ان متبرک و مقدس موء ے مبارک کو بطور تبرک ہمیشہ اپنے پاس محفوظ رکھا اور ان کی موجودگی میں اللہ تعالی سے دعاء مانگا کرتے جو فوری قبولیت کے درجہ پر پہنچتی۔ اس طرح کا عمل یہ ظاہر کرتا ہے کہ جو محبان حضور نبی کریم ﷺ کے دیدار سے مشرف نہ ہوسکے کم از کم انہیں آپ ﷺ کے آثار مبارکہ کا دیدار ہی ہوجاے۔

ان کی برکتوں و فیوض سے سرفراز ہوں۔ صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم انہیں بڑی محبت خوشی اور شوق سے حاصل فرماے اور بطور برکت بڑے احترام سے اپنے مکانات میں محفوظ رکھا جہاں سے نہایت ہی میٹھی آواز میں تلاوت قرآن کی آواز آتی تھی۔ اور وہ مبارک و مسعود آواز اور کسی کی نہیں بلکہ فرشتوں کی ہوتی۔ اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ جہاں حضور نبی کریم ﷺ کے مقدس موئے مبارک (بال) ہوتے ہیں وہاں رحمت کے فرشتوں کا نزول ہوتا ہے۔ ما شآء اللہ۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ تعالی عنہ جہاد میں دوران گھمسان لڑائی اپنا عمامہ ڈھونڈ رہے تھے، ملنے پر دوبارہ اسے اپنے سر پر پہن لیا۔ اسکی ضرورت دریافت کی گئی تو فرمایا : اس عمامہ میں موئے مبارک حضور نبی کریم ﷺ ہیں۔ اسی کی برکت سے میں ہر جہاد میں دشمنوں پر فتح پاتا ہوں۔ مجھے یہ خوف ہوا کہ اسکی بے حرمتی سے کہیں اسکی برکت مجھ سے چھین نہ لی جائے۔(صحیح مسلم؛ قاضی عیاض: الشفاءجلد:1،صفحہ: 619) حضرت عبیدہ رحمۃ اللہ علیہ تابعی، حضور نبی کریم ﷺ کے پردہ فرمانے کے دو سال بعد اسلام سے مشرف ہوئے۔ وہ حضور نبی کریم ﷺ کا پیارا چہرہ دیکھنے سے محروم رہے۔

لیکن ان کے پاس حضور نبی کریم ﷺ کے موئے مبارک تھے۔ آپ فرماتے : میرے پاس حضور نبی کریم ﷺ کے موئے مبارک ہیں جو مجھے دنیا و آخرت سے زیادہ پیارے ہیں۔ (صحیح البخاری: کتاب الوضو) محمد بن سیرین ؒفرماتے ہیں کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس حضور نبی کریم ﷺ کا عصاء مبارک تھا۔ جب آپکا انتقال ہوا تو آپکی وصیت کے مطابق یہ عصاء آپکے کفن میں رکھا گیا۔ (کنزالعمال: کتاب الفضائل) امام جلال الدین السیوطیؒ نے تحریر کیا : حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ ( کاتب وحی ) کے پاس حضور نبی کریم ﷺ کے مقدس موئے مبارک اور مقدس ناخن تھے۔ انکی وصیت تھی کہ بوقت دفن ان کے آنکھوں اور منہ میں حضور نبی کریم ﷺ کے مقدس موئے مبارک اور مقدس ناخن رکھکر انہیں دفن کیا جائے۔ چنانچہ انکے منہ اور آنکھوں میں ان متبرک آثار مبارک کو رکھ کر انہیں دفن کیا گیا۔( تاریخ خلفاء) حضرت شیخ عبد الحق دہلوی رحمتہ اللہ علیہ نے ایک بیان میں فرمایا: حضور نبی کریم ﷺ کے چند مقدس موئے مبارک امیر المؤمنین حضرت عمر بن عبد العزیز رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس محفوظ تھے۔

آپ ان مقدس موئے مبارک کو ایک کمرے میں بڑے ہی عزت و اہتمام سے رکھے تھے اور ہر روز ایک مرتبہ اسکی زیارت فرمایا کرتے۔ جب کبھی کوئی خاص مہمان آتا تو آپ اسکو ان مقدس موئے مبارک کی زیارت کرواتے اور فرماتے ، یہی میری دولت ہے ۔ (مدارج نبوۃ؛ موئے مبارک ، فضائل و آداب) حضرت ابن سرین رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا: میں نے عابدہ سے کہا، میرے ہاں حضور نبی کریم ﷺ کے چند مقدس موئے مبارک ہیں جنھیں میں حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ (یا ان کے خاندان )سے حاصل کیا۔ ۔ عابدہ نے کہا، بے شک اگر میرے پاس (‎حضور نبی کریم ﷺ کا ) ایک مقدس موئے مبارک ہوتا تو وہ ساری دنیا اور اس میں جو کچھ بھی ہے اس سے مجھے پیارا ہوتا۔ (صحیح البخاری: جلد اول: باب 34: نمبر: 170) عظیم صحابیہ حضرت اسماء بنت سیّد نا ابوبکر رضی اللہ عنہما کے پاس حضور اکرم نبی محترم شافع محشر ﷺ کا جبّہ مبارک تھا۔

آپ رضی اللہ عنہا اس مبارک جبّہ کی زیارت کا اہتمام فرماتیں۔ اگر کوئی بیمار آتا تو اس مبارک و مسعود جبّہ کو دھوکر اس کا پانی مریض کو پلاتیں۔ جسکی برکت سے وہ مریض صحت مند ہوجاتا تھا۔ (مدارج النبوۃ جلد اول : 218) حضور اکرم ﷺ کے مقدس آثار مبارک کی خلوص دل سے زیارت ہمارے قلوب و ذہنوں میں حضور اکرم ﷺ کی محبت میں اضافہ کرتی ہے۔ حضور اکرم ﷺ کی روحانی تعلیمات کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی صلاحیت پیدا کرتی ہے۔ یہ قلب کے تقوی میں سے ایک ہے۔ ہم کو روز محشر حضور اکرم ﷺ کی قربت حاصل ہوسکتی ہے اور آپ کی شفاعت کی حقدار بناتی ہے۔

آخرت میں ہماری نجات کا باعث ہوسکتی ہے ۔ حضور نبی کریم ﷺ کے آثار مبارک آج بھی دنیا کے ہر خطہ و ملک میں جہاں جہاں صوفیاء کرام وخوش عقیدہ مسلمان بستے ہیں وہاں بفضل اللہ تعالی بڑے ادب و احترام سے محفوظ رکھے گئے ہیں اور ماہ ربیع الاول اور عیدین کے موقع پر ان کی زیارت کرواتے ہیں۔ اگر دنیا میں برکت اور آخرت میں نجات چاہتے ہوں تو ضرور عقیدت و احترام کے ساتھ موئے مبارک کی زیارت کریں۔
٭٭٭