مذہب

فینانس پر گاڑی لینے کی ایک جائز صورت

یہ صورت درست ہے، اگر کسی سامان کی ایک لاکھ قیمت متعین ہو، ادائے گی میں تاخیر کی صورت میں قیمت میں اضافہ نہیں کیا جائے۔

سوال:- آج کل فینانس پر گاڑی فروخت کی جاتی ہے ، اس کی ایک صورت یہ ہوتی ہے کہ مثلا تین لاکھ کی گاڑی کمپنی تین لاکھ پچاس ہزار روپئے میں فروخت کرتی ہے ،

پچاس ہزار روپئے شروع میں وصول کرلئے جاتے ہیں ، باقی تین لاکھ روپئے دس مساوی قسطوں میں لئے جاتے ہیں ،

اگر خرید کرنے والے نے مطلوبہ قسط ادا نہیں کی ، تو اس کی وجہ سے قیمت میں کوئی اضافہ نہیں کیا جاتا ؛

بلکہ کمپنی گاڑی ضبط کرلیتی ہے ، اسے فروخت کرکے اپنا بقایہ وصول کرلیتی ہے اور اگر کچھ پیسے بچ گئے تو واپس کردیتی ہے، ۔۔۔ کیا یہ صورت جائز ہے ؟ (رفعت حسین،بنجارہ ہلز)

جواب:- یہ صورت درست ہے ، اگر کسی سامان کی ایک لاکھ قیمت متعین ہو ، ادائے گی میں تاخیر کی صورت میں قیمت میں اضافہ نہیں کیا جائے ،

البتہ ادھار قیمت نقد سے زیادہ رکھی جائے ، تویہ سود کے دائرے میں نہیں آتا ہے ، یہ بات بھی درست ہے کہ سابقہ معاہدہ کے مطابق قیمت ادا نہ کرنے کی صورت میں سامان ضبط کرلیا جائے اور اس سے اپنی رقم حاصل کرلی جائے ،

یہی حکم مال رہن کا ہے ، گویا خریدار نے خرید کردہ گاڑی کمپنی ہی کے پاس رہن رکھ دی ہے اور اس کی اجازت سے اسے استعمال کررہاہے ،

ہاں ! اگر ایک قیمت مقرر نہ کی جائے بلکہ طے پائے کہ قیمت کی ادائے گی میں جس قدر تاخیر ہوتی جائے گی ، اسی نسبت سے قیمت میں اضافہ ہوتا جائے گا ، تو یہ جائز نہیں ہے اور سود میں داخل ہے ۔