مضامین

کرناٹک کی کانگریس حکومت سے توقعات

ڈاکٹر سید اسلام الدین مجاہد

کرناٹک اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی زبردست کامیابی کے بعد اب کانگریس حکومت کے سامنے بہت سارے چیلنجز ہیں۔ الیکشن سے پہلے عوام سے جو وعدے کئے گئے تھے اب انہیں پورا کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ کرناٹک کے رائے دہندوں نے جن توقعات کے ساتھ کانگریس کے ہاتھوں میں اقتدار سونپا ہے، اس پر پورا اُترنا کانگریسی قیادت کی اخلاقی ذمہ داری ہے۔ گزشتہ پانچ سال کے دوران بی جے پی نے ریاست میں فرقہ پر ستی کا جو ماحول بنا دیا تھا اسے ختم کرنا اور فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو فروغ دینا یہ وہ اہم چیلنج ہے جس سے نبرد آزما ہونے کے لئے سدارامیا حکومت کو ٹھوس اقدامات کر نے ہوں گے۔ اسمبلی انتخابات میں کراری شکست کے بعد کرناٹک کی فسطائی طاقتیں پھر سے اس بات کی کوشش میں لگی ہیں کہ ریاست میں فرقہ پرستی کو ہوا دی جائے۔ متنازعہ موضوعات کوموضوع بحث بناکر ماحول کو زہر آلود کرنے کی سازش پھر سے رچائی جارہی ہے۔ ایسے شر پسند عناصر سے فوری نمٹنے کی ضرورت ہے۔عوام کی جانب سے مسترد کئے جانے کے بعد بی جے پی کے قائدین بوکھلاہٹ کا شکار ہو گئے ہیں۔ اس لئے نزاعی عنوانات کو چھیڑ کر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کانگریس کی حکومت کے لئے دوسرا بڑا چیلنج ریاست سے کرپشن کو ختم کرنا ہے۔ بی جے پی حکومت نے پوری ریاست میں کرپشن کو اتنا عام کر دیا تھا کہ ریاست کے سابق چیف منسٹر بسوراج بومئی پر بھی اپنا کمیشن مقرر کرلینے کا الزام تھا۔ ریاستی عوام نے کرپشن کے خلاف ووٹ دیا ہے۔ اگر کانگریس کے وزراءاور قائدین بھی اسی روش کو اختیار کریں گے تو عوام کی امیدوں پر پانی پھر جائے گا۔ حکومت کی فلاحی سرگرمیوں کے ثمرات عوام تک پہنچنے چاہئے۔ چند افراد یا چند خاندان ہی حکومت کے مزے لوٹنے لگیں تو اس سے عوام کو غلط پیغام جائے گا۔ کانگریس کو ایک طویل عرصہ کے بعد کرناٹک میں بر سر اقتدار آنے کا موقع ملا ہے۔ اس شاندار کا میابی کی قدر کر تے ہوئے عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے میںکانگریس حکومت اپنے سیاسی عزم کا ثبوت دیتی ہے تو اس کا اثر نہ صرف دیگر ریاستوں میں ہونے والے اسمبلی انتخابات پر پڑے گا بلکہ آئندہ سال ہونے والے لوک سبھا الیکشن میں بھی کانگریس ملک کی دوسری سیکولر پارٹیوں کے مقابلے میں بہتر مظاہرہ کر سکے گی۔ جمہوریت میں عوام کی توقعات کی بڑی اہمیت ہو تی ہے۔ حکومتیں اگر عوام کی توقعات کو ٹھیس پہنچاتی ہیں تو ان کا اقتدار بھی متزلزل ہونے لگتا ہے۔ بی جے پی نے اپنی نفرت کی سیاست کے ذریعہ کرناٹک کے عوام کی بھلائی کے لیے کوئی کام نہیں کیا۔ وہ محض اپنی فرقہ وارانہ ذہنیت کے مطابق اپنے زہریلے ایجنڈے کو آ گے بڑھاتی رہی۔ اپنی ناکامیوں کی پردہ پوشی کرنے کے لیے پوری ریاست کو فرقہ پر ستی کی آگ میں جھونک دیا۔ عوام کو ایک دوسرے سے دور کرنے اور ان کے درمیان نفرت پیدا کرنے کے لیے ہر وہ کوشش کی جس سے اسے سیاسی فائدہ ہو تا دکھائی دیا۔ مسلمانوں کو ہندوو¿ں کا دشمن بتاتے ہوئے ہر وہ ایک اقدام کیا گیاجس سے ریاست میں فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھتی گئی۔ ریاست کو ترقی کی طرف لے جانے ، نوجوانوں کو روزگار دینے اور غریبوں کے مسائل کو حل کرنے کے بجائے ایسے مسائل کو اپنی پالیسی کا حصہ بنالیا جس سے ریاست میں سوائے افراتفری کا ماحول پیدا ہونے کے کسی کو کچھ حاصل نہیں ہوا۔ ان سارے اقدامات کے ذریعہ اپنی ناکامیوں کو چھپانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن کرناٹک کے سیکولر عوام نے اپنے قیمتی ووٹ کے ذریعہ بی جے پی کو اقتدار سے بے دخل کر دیا۔ بی جے پی نے اپنے پانچ سالہ دور حکومت میں ریاست میں فرقہ پر ستی کا جو زہر گھولا ہے، اس کا سد باب کرنا اس لئے ضروری ہے کہ اس کے بغیر ریاست کی ترقی ممکن نہیں ہے۔بی جے پی حکومت کے ان سارے اقدامات کو کالعدم کرنا ہوگا جس سے ریاست کے مختلف طبقات اور خاص طور پر مسلمان متاثر ہوئے ہیں۔ بومئی کی سابق حکومت نے حجاب کے مسئلہ کو ایک گھمبیر شکل میں پیش کر تے ہوئے جس انداز میں مسلم لڑکیوں کے لئے تعلیم کے دروازے بند کردیے تھے، اس پر فوری قدغن لگانے کی ضرورت ہے۔ کانگریس حکومت نے الیکشن سے پہلے حجاب کے مسئلہ پر جو موقف اختیار کیا تھا، اس پر فوری عمل آوری کی جائے اور با ضاطہ کرناٹک حکومت کے اس سرکاری اعلامیہ ( جی ۔ او ) کو منسوخ کردے جس کے ذریعہ مسلم طالبات کو اسکول اور کالج میں حجاب پہننے پر پابندی عائد کردی گئی تھی، سپریم کورٹ میں بھی یہ مسئلہ زیر دوران ہے۔ لہٰذا کرناٹک کی حکومت سپریم کورٹ میں درخواست داخل کر کے اس مقدمہ کوختم کرنے کی درخواست کرے۔ تا کہ آئندہ کوئی حکومت اس قسم کا جارحانہ اقدام کرنے سے باز رہے۔ ٹیپو سلطان کی شخصیت کو جس انداز میں سابق بی جے پی حکومت نے مسخ کرنے کی کوشش کی ہے، موجودہ حکومت کی ذ مہ داری ہے کہ ایسے عناصر کی سرکوبی کرے جو ایک انتہائی سیکولر حکمران کے خلاف زہر افشانی کر رہے ہیں۔ بی جے پی کی حکومت نے عین الیکشن سے پہلے ریاست کے پسماندہ مسلمانوں کو تعلیم اور روزگار میں دیے جانے والے چار فیصد تحفظات کو ختم کر دیا تھا۔ کانگریس نے اپنے انتخابی منشور میں وعدہ کیا کہ وہ قتدار پر آنے کے فوری بعد مسلمانوں کے تحفظات کو بحال کر دے گی۔ اب اس وعدہ کو فوری پورا کیا جائے۔ یہ توقع کی جا رہی تھی نئی حکومت کی رسم حلف برداری کے موقع پر کانگریس کے قائد راہول گاندھی نے جہاں ریاست کے عوام سے کئے گئے پانچ وعدوں کو پورا کرنے کا اعلان کیا ، ان میں مسلمانوں کے ریزویشن کی بحالی کا بھی اعلان ہوگا۔ لیکن حکومت کے ان پانچ وعدوں میں یہ شامل نہیں تھا۔ ریاست کے مسلمانوں نے متحدہ طور پر کانگریس کے حق میں اپنے ووٹ کا استعمال کیا ہے۔ یہ بات ہر ایک پر عیاں ہے کہ مسلمانوں اوردلتوں کے متحدہ ووٹوں کی وجہ سے کانگریس کو کرناٹک میں اقتدار ملا ہے۔ ان طبقوں کے ساتھ کانگریس اگر انصاف نہیں کرے گی تو اس سے ریاست کی ایک بڑی آبادی مایوس ہو جائے گی۔ مسلمان یہ نہیں چاہتا ہے کہ کسی کا حق تلف کر کے اسے کچھ دیا جائے۔ وہ یہ چاہتا ہے کہ بحیثیت شہری اس کے جو حقوق ہیں وہ اسے دیے جائیں۔ مسلمانوں کے محض ووٹ لیے جائیں اور الیکشن کے بعد ان کے ساتھ وہی سلوک روا رکھا جائے جو برسوں سے جاری ہے تو اس سے کانگریس کا ہی نقصان ہوگا۔ اس ضمن میں ریاست میں مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے بارے میں حکومت کو ایک بلیو پرنٹ بنانا ہوگا۔ یہ دیکھنا ہوگا کہ کن کن شعبوں میں مسلمانوں کی نمائندگی نہیں ہے۔ تعلیم، سرکاری ملازمتوں اور خانگی شعبوں میں ان کی صورت حال کیا ہے۔ اس پر سنجیدگی سے غور وخوص کرتے ہوئے انہیں با اختیار بنانے کی حکومت کوشش کر ے۔ مسلمانوں کو کابینہ میں شامل کرنے یا کوئی سیاسی عہدہ دینے سے عام مسلمانوں کے مسائل حل نہیں ہوتے۔ یہ خوش آئند بات ہے کہ سدارمیا حکومت میں ایک مسلم وزیر بھی ہیں۔ریاستی اسمبلی کے اسپیکر کا عہدہ بھی مسلمان کو دیا گیا۔ آئندہ بھی دیگر عہدے بھی مسلم قائدین میں تقسیم کئے جائیں گے۔ حکومت کو مسلمانوں کی آبادی کے تناسب سے ہر شعبہ حیات میں انصاف کرنا ہوگا۔ چند نمائشی عہدوں کے دینے سے مسلمانوں کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ کانگریس قائدین اس حقیقت کو جتنا جلد سمجھ جائیں وہ پارٹی کے حق میں بہتر ہوگا۔ اس لیے کہ عام مسلمانوں نے کانگریس کو ووٹ د یا ہے ان کے ساتھ انصاف ہونا ضروری ہے۔
کرناٹک میں کانگریس کی نئی حکومت بننے سے ملک میں بھی ایک نئی خوشگوار فضاءپیدا ہو تی نظر آ رہی ہے۔ ملک کے عوام کو توقع ہے کہ کانگریس کے قائدین جن سیکولر نظریات اور جمہوری اقدار کی دہائی دے کر کرناٹک میں اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہیں ، اسی کو بنیاد بناکر پورے ملک سے فرقہ پرستی کو ختم کرنے لیے آگے آئیں گے۔ کرناٹک کی اس سیاسی کامیابی نے کانگریس کو اتنا دم خم دے دیا کہ وہ ملک کی دیگر سیکولر پارٹیوں کو ساتھ لے کر فرقہ پرستی کے عفریت کا قلع قمع کر سکتی ہے۔ چناچہ ان دنوں ملک گیر سطح پر اپوزیشن پارٹیوں کے درمیان اتحاد کی جو سرگرمیاں دیکھی جارہی ہیں اس کا کریڈٹ بھی کرناٹک اسمبلی انتخابات میں کانگریس کی کا میابی کو جا تا ہے۔ کرناٹک میں اگر کانگریس کو پھر سے ناکامی ہوتی اور بی جے پی بازی مارلیتی تو ملک کی سیاسی صورت حال کچھ الگ ہوتی۔بی جے پی کے حوصلے اور بڑھ جاتے اور عوام بھی تذبذب میں پڑ جاتے۔ کرناٹک کے سیاسی طور پر باشعور عوام نے سیکولرازم کے حق میں اپنے متحدہ ووٹ کا استعمال کر کے یہ ثابت کر دیا کہ بی جے پی کے بھوت کو بند کرنا کوئی بڑا کام نہیں ہے۔ جس ریاست کے اسمبلی الیکشن میں کامیابی کے لیے ملک کے وزیراعظم نے اپنے پورے لاو¿ لشکر کے ساتھ انتخابی مہم چلائی تھی ، وہاں کے رائے دہندے ان کے جملوں کے فریب میں نہیں آئے اور ان کی پارٹی کو شرمناک شکست سے دوچار کردیا۔ کرناٹک کے اس پیغام کو سارے ملک میں پھیلانے کی ضرورت ہے۔ اس کے لیے کانگریس سمیت سب ہی سیکولر پارٹیوں کو عوام کی توقعات پر پورا اُ ترنے کے لیے ایثار کے جذبہ سے آگے بڑھنا ہوگا۔بہار کے چیف منسٹر اور جنتا دل ( یو ) کے سربراہ نتیش کمار ان دنوں اپوزیشن پارٹیوں کے درمیان اتحاد کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں، ملک کے اہم قائدین سے ان کی ملاقاتیں اسی وقت رنگ لاسکتی ہیں جب ایک مشترکہ پروگرام کے ساتھ ساری سیکولر پارٹیاں 2024 کے الیکشن کے لیے ابھی سے تیاری کریں۔ کرناٹک حکومت کی رسم حلف برداری میں ملک کی اہم اپوزیشن پارٹیوں کے قائدین کی شرکت نے بھی یہ پیغام دیا کہ بی جے پی کو مرکز سے بے دخل کرنا اب ملک کی ضرورت بن گیا ہے۔ اس ملک کی بڑی اکثریت بھی یہ چاہتی ہے یہ ملک اپنی صدیوں سے جاری دیرینہ روایات پر چلتا رہے۔ اس کی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو کوئی تباہ و برباد نہ کرے۔ بی جے پی نے اپنے سیاسی عزائم کی تکمیل کی خاطر ملک کو جس تباہی سے دوچار کردیا ہے اس کو ملک کے محب وطن عوام اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔ سیکولر پارٹیوں کے انتشار نے ہی دراصل بی جے پی کو اقتدار پر آنے کا موقع دیا ہے۔ کرناٹک کے الیکشن نے واضح کر دیا کہ عوام زیادہ دنوں تک فرقہ پر ستی کی سیاست کو برداشت نہیں کرتے۔ اگر وہ اس کے خوگر ہوتے تو کرناٹک کا نتیجہ کچھ اور انداز میں آ تا۔ پانچ سالہ بی جے پی کی حکومت میں ریاست کے عوام نے دیکھا کہ مذہب کی بنیاد پر عوام کو کیسے بہکایا جا سکتا ہے۔ہندوتوا کا نعرہ لگا کر عوام کے ذہنوں میں جو زہر ڈالا گیا اس سے وقتی طور پر بی جے پی کو کچھ فائدہ ہوا،لیکن اس کا خمیازہ بھی انہیں الیکشن میں ہار کر بھگتنا پڑا۔ کرناٹک میں تشکیل پائی نئی حکومت کو اس سے سبق لیتے ہوئے عوامی مفادات کے مطابق حکمرانی کرنی ہوگی۔ اس کے دور حکومت میں سماج کے تمام طبقے اطمینان اور سکون کے ساتھ زندگی گزاریں اور کسی کے ساتھ بھی کسی بھی معاملہ میںحق تلفی نہ ہو تو کرناٹک کی حکومت ایک مثالی حکومت کی حیثیت سے ملک کے نقشے پر ابھرے گی۔ راہول گاندھی کے بیانات اور ان کے اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ حتی المقدور اپنی پارٹی کے قائدین کو عوام دوست پالیسیوں پر عمل کرنے کی تلقین کر رہے ہیں۔ پارٹی قائدین راہول گاندھی کی باتوں کا لحاظ رکھیں گے تو کرناٹک میں عوام کی حکومت سے توقعات پوری ہونے کے بھر پور امکانات ہیں۔