مضامین

بدلتے دور میں استاد اور شاگرد کا تعلق

علیزے نجف

انسانی زندگی میں روحانیت کا جو مقام ہے وہ کم وبیش ہر مذہب اور ہر دور میں انتہائی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ روح ایسا لفظ ہے جس کا احساس ہر دل میں ہی ایک گداز کیفیت کو جنم دیتا ہے۔ رشتوں میں روحانیت کا ہونا اس کو مقدس بنا دیتا ہے ایسے ہی ایک روحانی رشتے کو استاد کہتے ہیں ہماری تہذیب و ثقافت میں استاد کو روحانی باپ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ استاد اور شاگرد کے درمیان تعلق باپ اور بچوں کے تعلق کے جیسا ہوتا ہے۔ یہ اساتذہ ہی ہیں جو بچوں کو قوم کا رہنما بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ نیشنل کا¶نسل فار ٹیچر ایجوکیشن کے نظریے کے مطابق استاد کسی بھی تعلیمی پروگرام کا سب سے اہم حصہ ہوتا ہے۔ بےشک استاد ہی ہے جو علم اور طلبہ کے درمیان میڈیم کا کردار ادا کرتا ہے اور کسی بھی تعلیمی مرحلے میں اس کے ہونے کی اہمیت کی نفی نہیں کی جا سکتی۔ جب بھی کسی طلبہ کی نمایاں کارکردگی سامنے آتی ہے تو لوگ اس کے پیچھے استاد کی شخصیت کو ہی تلاشتے ہیں۔
پچھلے دنوں ہمارے ملک میں یوم اساتذہ ہمیشہ کی طرح پرجوش ہو کر منایا گیا۔ اس کی روشنی میں ہم یہ سمجھ سکتے ہیں کہ اساتذہ کا مقام اور ان کی قدرومنزلت سے انکار کسی بھی دور میں نہیں کیا جا سکتا۔ 5 ستمبر کو ہر سال یوم اساتذہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ممتاز دانشور اور استاد ڈاکٹر رادھا کرشنن کی قوم کے تئیں ان کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ان کے یوم پیدائش 5 ستمبر کو یوم اساتذہ کے طور پہ وقف کر دیا گیا۔ واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک دفعہ جب ان کے طلبہ اور احباب نے ان کے یوم پیدائش کو منانے کے لیے ان سے اجازت مانگی تو انھوں نے کہا کہ میرا یوم پیدائش منانے کے بجائے بہتر ہوگا کہ اس دن کو پوری اساتذہ برادری کے احترام کے لیے وقف کردیا جائے تاکہ پورے ملک میں ان کی سخت محنت اور خدمات کے تئیں احساس ممنونیت کو عام کیا جائے، اس طرح یہ دن ان کی خدمت اور اساتذہ کی انتھک کوششوں کے نام کردیا گیا۔ بےشک ہمیں اس موقع پہ اپنے موجودہ اساتذہ کے ساتھ ان کو بھی خراج عقیدت پیش کرنا چاہیے جو کہ اس دنیا میں نہیں رہے یا مکانی مسافت کی وجہ سے ہمارے ارد گرد نہیں رہے۔ استاد کی عظمت ایسے ہی پرخلوص اور جاں نثار رویے کی متقاضی ہے۔ اساتذہ وہ معمار ہیں جو آدمی کو انسان میں تعاون فراہم کرتے ہیں انھیں شعور دیتے ہیں اور جینے کا سلیقہ سکھاتے ہیں یہ وہ صفات ہیں جو ہمیں جانوروں سے ممتاز کرتی ہیں۔
ڈاکٹر رادھا کرشنن ایک بہترین استاد عالمی شہرت یافتہ مقرر اور ایک بہترین لیڈر تھے، انھوں نے آکسفورڈ جیسی اعلی درسگاہ میں تدریس کے فرائض انجام دیے تھے اور انڈیا کی کئی یونیورسٹیوں میں وائس چانسلر اور پروفیسر کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دیں۔ انھوں نے سوویت روس میں ہندوستان کی سفارت کی اور یونیسکو کے مجلس عاملہ کے صدر بھی رہے۔ انھیں ہندوستان کے نائب صدر جمہوریہ اور صدر جمہوریہ کے عہدے پہ فائز ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ اس قدر گوناگوں خصوصیات کی حامل شخصیت کو یہ اعزاز حاصل ہونا ہی چاہیے تھا۔
ان تمام خوبیوں میں ان کے استاد ہونے کی حیثیت ہمیشہ مسلم رہی۔ انھوں نے ساری زندگی تعلیم و تعلم کی نذر کر دی وہ ساری زندگی اشاعت تعلیم کے لیے کوشاں رہے، وہ ایک کثیر التصانیف کاتب بھی تھے۔ قوم کے تئیں ان کی غیر معمولی خدمات کے لیے انھیں ہندوستان کا سب سے بڑا شہری ایوارڈ بھارت رتن 1954 میں دیا گیا تھا۔
ہماری زندگی میں استاد کا کردار کسی قافلے کے سالار کے جیسا ہے جو اپنی دور اندیشی اور زیرکی سے منزل تک پہنچنے کے لیے ہر کسی کی رہنمائی کرتا ہے اور انھیں سفر کے نشیب و فراز کی حقیقتوں سے آگاہ کرتا ہے اور ان کو تجربات و مشاہدات کی پگڈنڈیوں سے گزار کر منزل آشنائی کی لذت سے ہم کنار کرتا ہے۔ ایک استاد بھی کچھ ایسا ہی کردار اپنے طلبہ کی زندگی میں ادا کرتا ہے۔
کسی بھی معاشرے کی تشکیل اور اور اس کی بقاءو ارتقاءمیں استاد غیر معمولی کردار ادا کرتا ہے۔ دنیا کا کوئی بھی انسان اس بات کا اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ استاد کے ذریعے ہی آج میں علم کی اس بلندی تک پہنچا ہوں۔ اور ضروری نہیں کہ استاد وہی ہو جو باقاعدہ اسکولوں و کالجوں میں تعلیم دیتے ہیں بلکہ استاد کسی بھی رشتے اور تعلق کی صورت میں ہو سکتا ہے۔ کسی کی زندگی میں یہ کردار اس کے والدین ہوتے ہیں اور کسی کی زندگی میں کوئی اور بحیثیت مجموعی وہ استاد کے ہی منصب کے برابر اہمیت رکھتے ہیں۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا مشہور قول ہے کہ ”اگر کوئی شخص مجھے ایک لفظ سکھائے تو گویا اس نے مجھے زندگی بھر کے لئے اپنا غلام بنا لیا“ اس قول سے یہ بات پوری صراحت کے ساتھ معلوم ہوتی ہے کہ استاد کا یہ حلقہ کتنی وسعت کا حامل ہے۔ انسان علم کے تئیں جتنا قدردان ہوتا ہے، اپنے اساتذہ کی نسبت اس کے احساسات اتنے ہی گداز اور خلوص پہ مبنی ہوتے ہیں۔ 5 ستمبر کو یوم اساتذہ کے طور پہ تعین کرنے کا مقصد اساتذہ برادری کی خدمات کو تسلیم کرنا اور طلبہ کو ان کی اہمیت سے آگاہ کرنا ہے۔
استاد کی اہمیت و فضیلت پہ بات کرتے ہوئے لازم ہے کہ ہم آج کے حالات میں اساتذہ اور طلبہ کے درمیان پائے جانے والے ربط و تعلق کو سمجھیں۔ بےشک ایک وقت تھا جب استاد کو سر آنکھوں پہ بٹھایا جاتا تھا، طلبہ کے والدین انتہائی عقیدت کے ساتھ ان سے ملتے تھے اور اپنے بچوں کو ہمیشہ ان کی عزت کرنے کی تلقین کرتے تھے نتیجتاً ان کے اندر بھی ادب و احترام کے جذبات امنڈ رہے ہوتے تھے۔ اس وقت علم کی ترویج و ارتقا آج کے مقابلے میں بہت کم تھی، لیکن تہذیب و ثقافت اور تربیت پہ خاص توجہ دی جاتی تھی۔ جیسے جیسے وقت بدلتا گیا علم کے ذرائع بدلتے گئے اور علم کی ترقی کی رفتار بھی تیز تر ہوتی گئی۔ اسی اثنا میں ٹکنالوجی نامی سہولت نے انسانی سوچ کا زوایہ ہی بدل کر رکھ دیا۔ ٹکنالوجی نے ہر شئے تک رسائی کو آسان ترین بنا دیا۔ نتیجتاً طلبہ کا اساتذہ پہ انحصار بھی کم ہوتا چلا گیا۔ وہ بآسانی کہیں بھی رہتے ہوئے کسی بھی چیز کا علم حاصل کر لیتے ہیں۔
ٹکنالوجی نے بےشک علم کی ترسیل میں معاونت کی ہے، لیکن تربیتی عناصر کے فقدان کو پورا کرنا اس کی اہلیت سے پرے ہے۔ اس پہلو سے ہم یہ بات وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اساتذہ ہی اس خلا کو پر کرنے کی استعداد رکھتے ہیں۔ انھوں نے زندگی سے جو کچھ سیکھا ہوتا ہے، اپنے طلبہ کو انتہائی کم وقت اور مختصر لفظوں میں منتقل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مشینی اشیاءکے ساتھ جذبات کو زیادہ دیر تک جوڑے نہیں رکھا جا سکتا، کیوں کہ انسان اپنی فطرت کے اعتبار سے جذبات کے ردعمل کا عادی ہے اور یہ ربط و التفات کسی استاد کے ساتھ ہی ممکن ہے۔
وہیں طلبہ بھی اپنی ذمہ داریوں سے غافل ہوتے جا رہے ہیں۔ وقت کی بدلتی رعنائیوں میں وہ اس قدر کھو گئے ہیں کہ اقدار و روایات کو پس پشت ڈال دیا ہے۔ علم کو محض حصول معاش کا ذریعہ خیال کر لیا گیا ہے۔ موجودہ وقت میں روایتی درس و تدریس کا نظام ناپید ہوتا جا رہا ہے، کیوں کہ وقت کی ضرورت تبدیل ہو چکی ہے۔ اب اساتذہ کے ساتھ ٹکنالوجی بھی تعلیم و تعلم کے میدان میں برابر کی شریک ہوگئی ہے۔ یہ ایک اچھی پیش رفت ہے، اس طرح طلبہ گزرے وقت میں پائی جانے والی کئی صعوبتوں سے آزاد ہو گئے ہیں، لیکن المیہ یہ ہے کہ ساتھ ہی ساتھ وہ ان اقدار و روایات کو فراموش کرتے جا رہے ہیں جو ہمارے معاشرے کا حسن تھے اور استاد کے تئیں ادب و احترام کے جذبات بھی مجروح ہوتے دکھائی دے رہے ہیں جبکہ ٹکنالوجی خواہ کتنی ہی کیوں نہ ترقی کر جائے، اساتذہ کے ہونے کی ضرورت کو ختم نہیں کر سکتی۔ اس ٹکنالوجی کو آپریٹ کرنے کا طریقہ سیکھنے کے لیے بھی استاد کی ضرورت ہوتی ہے۔ علم تبھی حاصل ہوتا ہے جب علم سکھانے والے کے تئیں دل میں ادب و احترام اور عقیدت کا جذبہ ہو، والدین کو اساتذہ کے لیے بچوں کے دل میں ادب و احترام پیدا کرنے کی باقاعدہ کوشش کرنی چاہیے، ان کے سامنے استاد کے متعلق منفی بات کہنے سے گریز کرنا چاہیے۔
موجودہ وقت میں جہاں طلبہ اپنی روایات سے برگشتہ ہوئے ہیں، وہیں اساتذہ کا معیار بھی مجروح ہوا ہے، ہمارے یہاں اساتذہ اور طلبہ کے تعلق کے درمیان ایک خلا پایا جاتا ہے۔ اکثر اساتذہ خود کو محض اس بات کا پابند سمجھتے ہیں کہ انھیں مذکورہ مضمون کو بس پڑھا دینا ہے اور طلبہ کی طرف سے آئے چنندہ سوالوں کے جوابات دے دینے ہیں، وہ کبھی بھی اپنے طلبہ کے ساتھ تعلق بنانے کی شعوری کوشش نہیں کرتے یا پھر چند ایک طلبہ کو مرکز توجہ بنا کر باقی سب کو مکمل طور سے نظر انداز کرتے رہتے ہیں۔ یہ رویہ ہمارے یہاں سب سے زیادہ پایا جاتا ہے جس کی وجہ سے اکثر طلبہ احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں اور کبھی کبھی کلاس میں مسابقت آرائی کا ماحول پیدا ہوجاتا ہے اور اس کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ چند ایک طلبہ کے سوا باقی طلبہ اپنی صلاحیتوں کو پالش کرنے میں ناکام ہوجاتے ہیں۔ وہ صلاحیت رکھتے ہوئے بھی معمولی زندگی گزارنے پہ قانع ہو جاتے ہیں اور اس کے بدترین نتائج دور رس ہوتے ہیں۔ معاشرتی نظام میں صلاحیتوں و قابلیتوں کا زبردست خلا واقع ہونے کا امکان پیدا ہو جاتا ہے۔ ایک استاد جو کہ کلاس کے سبھی طلبہ کا استاد ہوتا ہے، اسے چند ایک طلبہ کے لیے خود کو وقف کرنے کا حق حاصل نہیں۔ استاد جو کہ قوم کا معمار ہوتا ہے، اس کا اخلاقی اصولوں پہ کاربند رہنا اشد ضروری ہوتا ہے۔ نصاب کی کتابوں سے ہٹ کر اپنے طلبہ سے تعلق کو اس طرح ہموار کرے کہ وہ ان کی نظروں میں معتبریت حاصل کر سکے۔ کہتے ہیں کہ جو ہمارے لیے معتبر ہوتے ہیں، ان کی باتیں بھی ہمارے لیے معتبر ہوتی ہیں اور اس پہ عمل پیرا ہونے پہ خوشی محسوس کرتے ہیں۔ استاد جس کو روحانی باپ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس کا کام محض علم کو ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کرنا نہیں ہے بلکہ اپنے طلبہ کو تہذیب و ثقافت کے ساتھ تربیت اور اسلاف کی روایات سے بھی آگاہ کرنا ضروری ہے۔ اساتذہ میں تحقیق کا فقدان ہونے کی وجہ سے اکثر وہ اپنے طلبہ کے سوالات کا تشفی بخش جواب دینے میں ناکام ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ سے بھی استاد اور طلبہ کے درمیان رشتے میں دراڑ پیدا ہو جاتی ہے۔ اساتذہ کو بدلتے وقت کے تقاضوں کے ساتھ خود کو ہم آہنگ کرنا بےحد ضروری ہے۔ ساتھ ہی ساتھ طلبہ کی نفسیات سے آگاہی حاصل کرنا لازم ہے۔ اس کے بغیر اس مقدس رشتے کی نمو ممکن نہیں۔
٭٭٭