شمالی بھارت

کے سی آر نے تلنگانہ میں قابل قدر کام کیے ہیں: اسد الدین اویسی

صدر آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین اسد الدین اویسی نے اپنی آبائی ریاست تلنگانہ جہاں جاریہ سال کے اواخر میں اسمبلی انتخابات کی تیاری ہورہی ہے، کے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی بھرپور ستائش کی۔

پٹنہ: صدر آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین اسد الدین اویسی نے اپنی آبائی ریاست تلنگانہ جہاں جاریہ سال کے اواخر میں اسمبلی انتخابات کی تیاری ہورہی ہے، کے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی بھرپور ستائش کی۔

متعلقہ خبریں
یونیفام سیول کوڈ کی نہیں ملازمتوں کی ضرورت:اویسی
حیدر آباد کو بھاگیہ نگر بنانے بی جے پی امیدوار مادھوی لتا کی مہم
کانگریس اور آر ایس ایس کومسلم قیادت برداشت نہیں: اسد اویسی
بی آر ایس دور حکومت میں 600فون ٹیاپنگ معاملات کا انکشاف
بی آر ایس کے مزید 2 امیدواروں کا اعلان، سابق آئی اے ایس و آئی پی ایس عہدیداروں کو ٹکٹ

بہار کے ضلع کشن گنج میں سیمانچل جو ریاست میں گنجان آبادی اور سیلاب زدہ علاقہ ہے میں صحافیوں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے ان خیالات کا اظہار کیا۔

راؤ جیسے علاقائی لیڈر کی وزیر اعظم بننے کی خواہش کے بارے میں سوال کے جواب میں اویسی نے کہا کہ کے سی آر ایک ویژن رکھتے ہیں۔ اپنی دورِ حکمرانی کے دوران انھوں نے بعض قابل قدر کام کیے ہیں۔ اویسی نے بہار اور مغربی بنگال کے چیف منسٹروں نتیش کمار اور ممتا بنرجی جو کے سی آر کے ہم رتبہ ہیں کی بھی ستائش کی۔

صدر مجلس جن کی پارٹی کے 7 ارکانِ اسمبلی 119 نشستی ایوان میں شامل ہیں، نے کہا کہ تلنگانہ ایک محروسہ ریاست ہے۔ اس کے باوجود ریاست کی مجموعی پیداوار انتہائی متاثر کن ہے۔ زراعت کے شعبہ میں مستعملہ پمپ سیٹ کی تعداد کے لحاظ سے ریاست کو ملک میں اعلیٰ درجہ حاصل ہے۔

سمکیات کی پیداوار میں بھی تلنگانہ کو دوسرا اعلیٰ ترین مقام حاصل ہے، حالانکہ کے سی آر کی پارٹی بھارت راشٹرا سمیتی (بی آر ایس) کو بھرپور اکثریت حاصل ہے، لیکن بی جے پی کی دراندازی سے آنے والے انتخابات میں اسے چیلنج کا سامنا ہوگا۔

کئی سیاسی ماہرین کے مطابق وہ تلنگانہ کی اصل اپوزیشن کانگریس کا مقام حاصل کرسکتی ہے۔ اویسی نے کانگریس اور اس کی حلیف جماعتوں پر مہاراشٹرا کے واقعات پر جمہوریت خطرہ میں ہونے کے بیانات کے لیے بڑی تنقید کی اور کہا کہ جب بہار میں ان کے ارکانِ اسمبلی کو دوسری پارٹی کی جانب راغب کیا گیا، کانگریس خاموشی اختیار کی۔ بہار میں 2020ء کے اسمبلی انتخابات میں مجلس کے 5 امیدوار کامیاب ہوئے تھے، جن کے منجملہ 4 گزشتہ سال آر جے ڈی میں شمولیت اختیار کیے۔ ان میں سے ایک کو کابینہ میں شامل کیا گیا۔