شمالی بھارت

یوپی میں پسماندہ مسلمانوں کی تائیدحاصل کرنے بی جے پی کی کوششیں

۔ پسماندہ مسلم برادری کے دانش انصاری کو یوپی میں بی جے پی کے دوسرے دورِ حکومت میں وزیربنانے کے بعد سے بی جے پی کا گیم پلان پسماندہ مسلمانوں کو اپنی طرف راغب کرنے کا رہا ہے۔ وہ ریاستی کابینہ میں واحد مسلم وزیرہیں۔

لکھنو: اترپردیش میں لوک سبھا کی تمام 80نشستیں جیتنے کے مقصد سے بی جے پی نے آبادی کے لحاظ سے طاقتور پسماندہ مسلمانوں میں اپنی پہنچ بڑھادی ہے۔ مسلمانوں کی اس برادری کو فری راشن اور امکنہ جیسی سرکاری اسکیموں کا فائدہ پہنچا ہے۔

 بی جے پی‘ ریاستی سطح کی پسماندہ مسلم کانفرنس کے بعد تمام شہری علاقوں میں ایسی کانفرنسیں منعقد کرنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ اس کا دعویٰ ہے کہ پسماندہ مسلمانوں کو سماجی اور معاشی لحاظ سے بااختیاربنانے کے بعد وہ انہیں سیاسی لحاظ سے بااختیاربناناچاہتی ہے۔

پسماندہ مسلم کانفرنسوں میں بی جے پی قائدین بتارہے ہیں کہ سماج وادی پارٹی‘ بہوجن سماج پارٹی اور کانگریس نے مسلمانوں کو ہمیشہ ووٹ بینک کی طرح استعمال کیا۔ انہیں ان کا حق نہیں ملا۔ پسماندہ مسلم برادری کے دانش انصاری کو یوپی میں بی جے پی کے دوسرے دورِ حکومت میں وزیربنانے کے بعد سے بی جے پی کا گیم پلان پسماندہ مسلمانوں کو اپنی طرف راغب کرنے کا رہا ہے۔ وہ ریاستی کابینہ میں واحد مسلم وزیرہیں۔

 دانش انصاری نے پی ٹی ائی سے کہا کہ مرکزی اور ریاستی حکومتوں نے تاحال مسلمانوں کو معاشی اورسماجی لحاظ سے بااختیاربنایا ہے۔ اب بی جے پی چاہتی ہے کہ انہیں سیاسی بااختیاربنایاجائے۔ عام مسلمانوں کو سرکاری اسکیموں کا فائدہ مل رہا ہے۔ ان کی اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ہمارے ساتھ کھڑے رہیں۔

اترپردیش بی جے پی اقلیتی مورچہ کے صدر کنورباسط علی نے کہا کہ اس بار مضبوط اور بااعتماد مسلم بی جے پی ورکرس کو ان مقامات سے شہری مجالس مقامی الیکشن میں ٹکٹ دئیے جائیں گے جہاں بی جے پی وہاں پہلے کبھی نہیں جیتی اور نہ اس نے ان مقامات سے کبھی الیکشن لڑا تھا۔

 باسط علی نے کہا کہ ہم نے منصوبہ بنایا ہے کہ پسماندہ مسلمانوں کی مختلف ذاتوں کے لوگ اپنی برادریوں میں کانفرنسیں کریں۔ بی جے پی قائدین ان کانفرنسوں میں حصہ لیں گے اورپارٹی کی آئیڈیالوجی کے علاوہ حکومت کے منصوبوں پر روشنی ڈالیں گے۔

حکومت کی اسکیموں سے ریاست میں 4کروڑ50لاکھ مسلمانوں کو فیض پہنچاہے۔ بی جے پی نے ایک مسلمان کو وزیر‘دوسرے کو اقلیتی کمیشن کا سربراہ اور تیسرے کو اردواکیڈیمی کا صدربنایا ہے۔ مختلف کمیشنوں اور مورچوں میں پسماندہ مسلمانوں کو 80 فیصد حصے داری دی گئی ہے۔

 یہ پوچھنے پر کہ آیا مسلمانوں کے تئیں بی جے پی کا رویہ بدلا ہے۔ کنورباسط علی نے کہا کہ حکومت کی اسکیموں کا بڑا فائدہ مسلمانوں کو بھی ملا ہے۔ اترپردیش کی مسلم آبادی میں  85 فیصد پسماندہ مسلمان ہیں۔ پسماندہ مسلمانوں کی 41 ذاتیں جن میں انصاری‘ قریشی‘منصوری‘ سلمانی اور صدیقی شامل ہیں۔

مسلمانوں کا یہ طبقہ سیاسی‘معاشی اور سماجی اصطلاح میں انتہائی پسماندہ سمجھاجاتا ہے۔ اترپردیش کے 72اسمبلی اور  14لوک سبھا حلقوں میں مسلم ووٹرس کا خاصہ اثر ہے۔ پسماندہ مسلمانوں کی تعداد کے لحاظ سے دیکھاجائے تو ان کے ووٹ جس کسی جماعت کو ملیں گے اس کے نتائج میں کافی فرق پڑسکتا ہے۔

سی ایس ڈی ایس لوک نیتی سروے کے بموجب جاریہ سال یوپی اسمبلی الیکشن میں 8 فیصد مسلم ووٹرس نے بی جے پی کو ووٹ دیا۔ یہ تعداد 2017ء سے ایک فیصد زائد ہے۔ بی جے پی نے اعظم گڑھ اور رامپور جیسے سماج وادی پارٹی کے قلعے چھین لئے جہاں مسلم ووٹرس کی بڑی تعداد ہے۔

 ان دوحلقوں کی جیت سے اسے نیا حوصلہ ملا کہ وہ مسلم حلقے بھی جیت سکتی ہے۔ اسی دوران اپوزیشن نے پسماندہ مسلمانوں کو اپنی طرف راغب کرنے کی بی جے پی کی کوشش کو بے فیض قراردیا۔ سماج وادی پارٹی کے رکن پارلیمنٹ حلقہ سنبھل شفیق الرحمن برق نے سوال کیاکہ ملک میں فرقہ وارانہ نفرت پھیلانے والی بی جے پی کو مسلمان اچانک کیوں اچھے لگنے لگے ہیں؟ پورا معاملہ 2024ء کے لوک سبھا الیکشن کا ہے۔

 یوپی کانگریس کے قائد شاہ نوازعالم نے بی جے پی کی کوششوں پر طنزکرتے ہوئے کہا کہ حجاب اور مسلمانوں سے جڑے دیگر رسوم ورواج پر بی جے پی حکومتوں کا جو موقف رہا ہے اس کے مدنظر بھگواجماعت کو مسلمانوں کے ووٹ ملنے والے نہیں۔

انہوں نے کہا کہ بی جے پی پسماندہ مسلمانوں کو سرکاری اسکیموں سے فائدہ پہنچانے کا دعویٰ کررہی ہے لیکن زمینی حقیقیت یکسرمختلف ہے۔ بی جے پی حکومت نے قریشی برادری کی روزی روٹی چھین لی۔ اس برادری کا شمارپسماندہ مسلمانوں میں ہی ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ انصاری جولاہوں کی حالت زار بھی کسی سے چھپی نہیں ہے۔