مضامین

نپور شرما پر ریمارکس کے لیے سپریم کورٹ پر حملہ کیوں؟

اپوروانند

دائیں بازو، وہ بھی ہندوتوا نواز جارحیت کس حد تک پہنچ گئی ہے، اس کا کچھ اندازہ سپریم کورٹ کو حال ہی میں ہوا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے اسے اپنے ہر فیصلے کے لیے یا فیصلہ نہ لینے کے عزم کے لیے ہندوتوانوازوں یا قوم پرستوں کی ستائش ملتی رہی ہے۔
لیکن پہلی بار اس کی ایک بنچ کو ان کے قہر کا شکار ہونا پڑرہا ہے۔ وہ بھی کسی فیصلے کے لیے نہیں بلکہ اس لیے کہ اس نے ایک کیس کی سماعت کے دوران ان ہندوتوانوازوں میں سے ایک کے تعلق سے ناراضگی سے بھرے تلخ ریمارکس کیے۔ ان کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں کیا۔ پھر بھی!
عدالت کے سامنے بی جے پی کی (اب معطل) ترجمان نپور شرما کی عرضی تھی کہ ان کے خلاف ایک ہی معاملے میں ملک کی کئی ریاستوں میں کیس درج کیا گیا ہے۔ انہوں نے ان سب کو یکجا کرکے ایک ہی جگہ مقدمہ چلانے کا حکم دینے کی درخواست عدالت سے کی تھی۔
معاملہ ہم سب کو معلوم ہے۔ گیان واپی مسجد کو متنازعہ بنانے کے لیے ایک سروے کی رپورٹ کو عام کرکے دعویٰ کیا گیا کہ مسجد کے احاطہ میں ایک شیولنگ پایا گیا ہے۔ مسجد کمیٹی نے کہا کہ جسے شیو لنگ کہا جارہا ہے وہ وضو خانہ میں بنا ہوا ایک فوارہ ہے۔ مسجد میں آنے جانے والے ہندوﺅں نے بھی بتلایا کہ وہ فوارہ ہی ہے۔
لیکن بی جے پی سے وابستہ افراد نے اور باقی ہندوتوانوازوں نے ضد پکڑلی کہ وہ شیولنگ ہے۔اسے فوارہ کہنا بھی گناہ ہوگیا۔ اسے ہندوﺅں کے جذبات کی توہین قرار دیا جانے لگا۔
”ٹائمس ناﺅ“ نامی ٹی وی چینل پر ایسی ہی ایک بحث میں بی جے پی کی قومی ترجمان نپور شرما نے مشتعل ہو کر پیغمبر صاحب کے بارے میں نازیبا ریمارکس کیے۔ اسے بعد میں دہرایا گیا۔ بی جے پی کے دہلی کے میڈیا ہیڈ نوین جندل نے بھی اس کو نشر کیا۔
نپورشما اور نوین جندل کے قابل اعتراض ریمارکس کے بارے میں جب ”آلٹ نیوز“ کے شریک بانی محمد زبیر نے سب کی توجہ مبذول کروائی اور پوچھا کہ ان پر کیوں کارروائی نہیں ہورہی ہے تو زبیر پر حملہ شروع ہوگیا۔ یہ کہتے ہوئے کہ وہ نپور شرما کے خلاف نفرت انگیز مہم چلارہے ہیں اور تشدد کو اکسارہے ہیں۔زبیر کے توجہ دلانے کے بعد بھی تو نہ تو دہلی حکومت نے نہ دہلی پولیس نے نہ حکومت ہند نے نہ بی جے پی نے کوئی کارروائی کی۔ بلکہ انہوں نے جو پیغمبر صاحب کے بارے میں نازیبا ریمارکس کیے تھے، انہیں مرچ مصالحے لگاکر نشر کیا جاتا رہا۔ وہ تو کچھ دن بعد جب خلیجی ملکوں کی حکومتوں کی طرف سے ان ریمارکس پر اعتراض کیا جانے لگا تب حکومت ہند بیدار ہوئی۔
ایک آدھی ادھوری وضاحت کی گئی۔ دونوں ہی قائدین کو نچلے درجے کا ٹھہرایا گیا۔ بی جے پی نے دونوں کو معطل کردیا۔ بغیر ان کے بیان پر معافی مانگے سارے مذاہب کے تئیں احترام کی بات کہی گئی۔
بی جے پی کے ان دونوں قائدین کو نچلے درجہ کا ماننا ذرا مشکل ہے۔ قومی ترجمان اور دہلی کا میڈیا ہیڈ نچلے درجہ کا ہو یہ کسی کے گلے شاید ہی اترے۔ جو ہو بی جے پی سے معطلی کو ہی ان کے جرم کے لیے کافی سزا مان لیا گیا۔ دہلی پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ وہی ریاست جو کسی کو، خاص کر اگر وہ مسلمان ہے ، حکومت مخالف ریمارکس کے لیے بھی فوری گرفتار کرلیتی ہے، نپور شرما کی اس حرکت کو اتنا سنگین نہیں مان رہی تھی کہ ان کے خلاف کارروائی ہو۔ اس کے لیے خلیجی ملکوں کو مطمئن کرنا ضروری تھا، ہندوتان کے مسلمانوں کو سننا نہیں۔
آپ کو گجرات کے رکن اسمبلی جگنیش میوانی کی گرفتاری یاد ہوگی۔ ان کا جرم کتنا سنگین تھا؟ انہوں نے وزیراعظم سے گجرات کے تشدد سے متاثر علاقوں کا دورہ کرنے کو کہا تھا۔ اس بیان سے آسام کے بی جے پی حامیوں کے جذبات مجروح ہوگئے۔ اور ان کے جذبات کو آسام پویس نے اتنی سنجیدگی سے لیا کہ اسی رات 1000کلومیٹر اُڑ کر ، دوڑ کر جگنیش کو گجرات سے گرفتار کرلیا۔
پھر دہلی پولیس یا حکومت اس معاملے میں کیوں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہی؟ کیوں بی جے پی سے وابستہ افراد کو اس کا حق ہے اور پوری چھوٹ ہے کہ وہ مسلمانوں کی توہین کرتے رہےں؟
ملک کے لوگوں کے دو فرقوں کے درمیان بھید بھاﺅ اس طبقے کو چبھتا ہے جو اس کا شکار ہے۔ اسی وجہ سے جگہ جگہ مسلمانوں کی طرف سے ناراضگی ظاہر کرنے کے لیے مظاہرے کیے گئے۔ کچھ مقامات پر تشدد ہوا۔ وہ کیسے ہوا کس نے بھڑکایا اس کی تحقیقات کی ضرورت ہی نہیں محسوس کی گئی۔ رانچی میں تو دو مسلمان ہی مارڈالے گئے۔
الہ آباد میں تحقیقات سے پہلے ہی آفرین فاطمہ کا مکان زمین دوز کردیا گیا۔ وہی سہارنپور میں مسلمانوں کے ساتھ کیا گیا۔
گرفتاریاں مسلمانوں کی ہی ہوئیں۔ یہ سب کچھ وقوع پذیر ہوجانے کے کچھ دن بعد راجستھان میں نپور شرما کے حق میں ریالی منعقد کی گئی۔ یہ اتفاق نہیں کہ کسی بی جے پی زیراقتدار ریاست میں نپور شرما کے حق میں ایسا مظاہرہ نہیں ہوا۔ راجستھان میں کیا گیا جو کانگریس زیراقتدار ریاست ہے اور جہاں سال بھر بعد انتخابات ہونے والے ہیں اور پھر ادئے پور میں ایک درزی کنہیا لال کا دو مسلمانوں نے گلے پر وار کرکے قتل کردیا۔ وہ قتل منصوبہ بند تھا۔ قتل کا ویڈیو بنایا گیا۔ دونوں نے اس قتل کو اپنے رسول کی شان کی حفاظت کے لیے اٹھایا گیا قدم بتلایا۔
ہندوستان بھر کے مسلمانوں نے ہر طرح سے اس قتل کی مذمت کی۔ ہاں رسول انہیں پیارے ہیں لیکن ان کے نام پر تشدد قبول نہیں۔ اس بحث کو روک کر اپنے موضوع پر لوٹیں۔
نپور شرما پر دہلی کے الگ الگ حصوں میں شکایت درج کرائی گئی۔ اتنے ہنگامے اور دباﺅ کے بعد دہلی پولیس نے بھی ایک ایف آئی آر درج کی ۔ لیکن اس میں ان کے ساتھ ایسے صحافیوں کے نام جو مسلمان ہیں، ڈال دیے۔ یعنی انہیں ایک اجتماعی ایف آئی آر میں ڈال دیا۔ اس سے یہ سمجھ میں تو آ ہی گیا کہ ان کی حرکت کو پولیس اتنی سنگین نہیں مانتی۔
اور وہی پولیس جو آپ کی فیس بک پوسٹ، ٹوئٹ کے لیے ہتھکڑی لیے آپ کا دروازہ کھٹکھٹاتی رہی ہے یہ دلیل دے رہی ہے کہ اس نے تحقیقات شروع کردی ہے اور نپور شرما تحقیقات میں شامل ہوئی ہیں۔
واضح رہے کہ دہلی پولیس نے انہیں گرفتار نہیں کیا۔ اسی پولیس نے جس نے ’آلٹ نیوز“ کے محمد زبیر کو 30سال سے بھی زیادہ پرانی رشی کیش مکرجی کی ایک مزاحیہ فلم ”کسی سے نہ کہنا“ کے ایک منظر کو ٹوئٹ کرنے کے الزام میں فوری گرفتار کرلیا۔ وہ بھی ایک گمنام شکایت پر۔
یہ سیاق و سباق ہے سپریم کورٹ کی ایک بنچ کی ناراضگی کا جب نپور شرما اس کے سامنے اس عرضی کے ساتھ آئی کہ ملک کے الگ الگ حصوں میں جو ایف آئی آر درج ہیں، انہیں یکجا کرکے ایک ہی جگہ مقدمہ چلایا جائے جس سے وہ پریشان نہ ہوں۔ اس پر عدالت پھٹ پڑی اور اس نے نپور شرما اور پولیس کی مذمت کرتے ہوئے خاصا سخت ریمارک کیا۔
”شرما ہی آج ملک میں بدامنی کے لیے ذمہ دار ہیں، پولیس ان کے لیے سرخ قالین بچھارہی ہے وہ جانبدارانہ رویہ اختیار کررہی ہے، انہیں اب تک گرفتار کیو ںنہیں کیا گیا وغیرہ وغیرہ۔ یہ کہ انہیں ملک بھر سے معافی مانگنی چاہیے۔“
ان ریمارکس نے سنسنی پھیلادی۔ نپور شرما کے حامی سکتے میں آگئے۔ نفرت پھیلانا غلط ہے، جرم ہے، اس کے لیے قانونی کارروائی ہونی چاہیے یا گرفتار ہونا چاہیے، یہ سب کچھ ان کے لیے ناقابل تصور ہے ۔ یہ تو ان کا حق ہے۔ مجرم وہ ہیں جو ان کی نفرت کی مہم کو جرم بتلاتے ہیں۔
جیسا سیتاسیتلواد او رمحمد زبیر کی گرفتاریوں سے ظاہر ہے۔
”ہندوستان میں انصاف کی امید نہ رہی۔ عدالت اسلام پسند ہوگئی ہے، شرعیہ عدالت کی طرح برتاﺅ کررہی ہے۔ وہ نپور شرما کو قاتلوں کے حوالے کردینا چاہتی ہے“ چاروں طرف سے ہندوتوانوازوں کی لعنت و ملامت کی بوچھار سپریم کورٹ پر پڑنا شروع ہوگئی۔ وہ سب بھول گئے کہ اسی بنچ کے جج کی وجہ سے مہاراشٹرا میں مہاوکاس اگھاڑی کی حکومت گرائی جاچکی ہے۔ وہ ایک دن پہلے ہی اس نے کیا ہے۔
لیکن بی جے پی حامیوں کے مطابق آپ کو اچھائی اور انصاف یا عمل کا ارادہ ظاہر کرنے کا حق بھی نہیں ہے۔
عدالت نے جو گھن گرج کی ہے، اس کا کوئی عملی مقصد نہیں تھا۔ عدالت نے نپور شرما کو راحت نہ دے کر انصاف نہیں کیا۔ ایک ہی معاملے میں اگر پورے ملک میں کیس درج کردیے جائیں تو یہ کیا ہی جانا چاہیے کہ مقدمہ ایک جگہ چلے۔ وہ کتنی جگہ بھاگتے پھرے۔ کیا ہمیں یاد نہیں کہ اسی وجہ سے فنکار ایم ایف حسین کو ملک چھوڑ دینا پڑا تھا؟
نپور شرما کی گرفتاری پولیس نے نہیں کی، یہ پولیس کی غلطی ہوسکتی ہے ۔ اس کی سزا نپور شرما کونہیں ملنی چاہیے۔
عملی طور پر عدالت اس عرضی کا دائرہ بڑاکرکے پولیس کو منصفانہ عملی کارروائی کی ہدایت دے سکتی تھی لیکن عدالت کو بھی معلوم ہے کہ اس کے لیے کیا زیرغور ہے اور کیا عملی ہے۔
لیکن اس پورے معاملے سے دو باتیں صاف ہوئیں۔ جو نپور شرما کے نفرت پھیلانے والی حرکت کے ناقد ہیں، ان میں بھی زیادہ تر نے کہا کہ انہیں راحت نہ دے کر عدالت نے انصاف نہیں کیا، لیکن جو نپور شرما کے حامی ہیں وہ عدالت کے اخلاقی اُبال سے خفا ہیں۔ وہ زبانی اخلاقیات کو بھی ملک دشمن مانتے ہیں۔
عدالت کی اس سرزنش کا دہلی پولیس پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ وہ جانتی ہے کہ قوم کی تعمیر کے راستے میں اس طرح کے چھینٹے اس کے دامن پر پڑیں گے۔ وہ اتنی معتبر تو ہے ہی کہ اسے نظرانداز کرے۔ سو نپور شرما محفوظ ہیں۔ ان کے خلاف شکایت کرنے والے محمد زبیر کو ایک حربے کے سہارے جیل میں ڈال دیا گیا۔ ملک کے تئیں عدالت کا ضمیر بالکل صاف ہے۔ بی جے پی حامیوں کے ضمیر کا فی الحال پتا نہیں۔