مضامین

فلسطینی عوام پر صہیونی ریاست کی بمباری کا مقصد

خورشید عالم داﺅد قاسمی

اس حالیہ جنگ میں اسرائیل جس طرح عوامی مقامات پر بمباری کر رہا ہے اور اس کے نتیجے میں جس طرح نہتے فلسطینی عوام، معصوم بچے اور خواتین شہید ہو رہی ہیں، اس سے تو یہی پتہ چلتا ہے کہ صہیونی ریاست کا اصل نشانہ فلسطینی عوام ہیں۔ جن عوامی مقامات پر بم برسائے جارہے ہیں، وہ کوئی ایک جگہ نہیں ہے؛ بلکہ ان میں اسپتال، اسکول، مدرسہ، مسجد، عام رہائشی علاقے، پناہ گزینوں کے خیمے حتی کہ قبرستان بھی شامل ہیں۔ اس بمباری میں اسکول بس، عوامی نقل وحمل کے ذرائع، ایمبولینس وغیرہ کو بھی نشانہ بنایا جارہا ہے۔ گزشتہ ماہ، 17/اکتوبر کی شام کو، صہیونی افواج نے فضائی حملہ کرتے ہوئے ”لاہلی عرب اسپتال“ پر بمباری کی۔ اس سے پہلے بھی کئی اسپتالوں پر بمباری کی گئی؛ مگر ان میں اتنے لوگ شہید نہیں ہوئے تھے، جتنے لوگ الاہلی اسپتال پر بمباری میں شہید ہوئے۔ تقریبا پانچ سو افراد اس بمباری میں شہید ہوئے؛ اس لیے اس خبر کو عالمی میڈیا میں جگہ ملی۔
”الاہلی عرب اسپتال“ پر بمباری کے بعد، قابض صہیونی ریاست کے حکام نے اس کی ذمے داری ”اسلامی جہاد“ والوں کے سر ڈالنے کی کوشش کی۔ پھر اس بمباری کے بعد، امریکی صدر جو بائیڈن صہیونی ریاست کے دورے پر ”تل ابیب“ پہنچے اور کہا کہ ”غزہ کے اسپتال پر حملہ بظاہر آپ نے نہیں، دوسری ٹیم نے کیا ہے۔“ مطلب یہ ہے کہ مسٹر بائیڈن صہیونی ریاست کو اصول و ضابطے کا اتنا پابند سمجھتے ہیں کہ ان کو یہ یقین نہیں ہوا کہ ایک اسپتال پر صہیونی افواج نے حملے کیے ہوں گے؛ بلکہ کسی اور نے وہ حملہ کیا ہوگا۔ اس حملے کے بعد سے، متعدد اسپتالوں اور عوامی مقامات پر صہیونی ریاست کی طرف سے حملے کیے گئے ہیں اور ان حملوں کی ذمے داری قبول کی گئی ہے۔ اب مسٹر بائیڈن ان اسپتالوں پر حملے کی ذمہ داری کس ٹیم پر ڈالیں گے؟ بائیڈن صہیونی ہے؛ اس لیے صہیونی ریاست چاہے کسی بھی جرم کا ارتکاب کرے، یہ اس کے خلاف نہیں بول سکتے۔رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق، اسی اسرائیلی دورے میں، بائیڈن نے اسرائیلی وزیر اعظم اور اس کی جنگی کابینہ سے ملاقات کے دوران،یہ یقین دلایا: ”میں نہیں مانتا کہ صہیونی ہونے کے لیے آپ کا یہودی ہونا ضروری ہے اور میں صہیونی ہوں۔“
مستشفی القدس غزہ پٹی کے "تل الہوا” میں واقع ایک بڑا اسپتال ہے۔ یہ اسپتال بھی غاصب صہیونیوں کی بمباری سے محفوظ نہیں رہا۔ فلسطینی ہلال احمر کے ترجمان نے ایک بیان میں یہ کہا کہ بروز: اتوار، 29/ اکتوبر کو صہیونی ریاستی حکام نے دو بار فون کال کرکے، دھمکی دی کہ اس اسپتال کو خالی کرنا ہوگا۔ اگر اسپتال خالی نہیں کیا جاتا ہے اور کسی کی جان جاتی ہے؛ تو اس کی مکمل ذمہ داری فلسطینی ہلال احمر کی ہوگی۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ ”اس اسپتال میں تقریباً بارہ ہزار افراد ہیں۔ آئی سی یو بچوں سے بھرا پڑا ہے۔ یہ وہ بچے ہیں جو حالیہ بمباری میں زخمی ہوئے ہیں۔ ان کو اسپتال سے نکالنے کا مطلب ان کی جان لینے کے برابر ہے۔“ صہیونی ریاست کے حکام کی دھمکی کے اگلے دن، 30/ اکتوبر کو صہیونی افواج نے القدس اسپتال کے ارد گرد بمباری شرع کردی۔ القدس اسپتال کا ایک حصہ بمباری کی وجہ سے مسمار ہوگیا۔ آس پاس کی کئی عمارتیں بھی منہدم ہوئیں۔ اس اسپتال پر سن 2009 میں بھی اسرائیل افواج نے حملے کیے تھے۔ پھر قطر وغیرہ کے تعاون سے اس کی مرمت کروائی گئی اور اسے قابل استعمال بنایا گیا۔
ترک حکومت کے تعاون سے کینسر کا ایک اسپتال، ”ترک فلسطینی فرینڈشپ اسپتال“غزہ پٹی میں چلتا ہے۔ اس اسپتال پر بھی دوسری بار 31/ اکتوبر کو صہیونی لڑاکا طیارے نے بمباری کی ہے۔ اس سے پہلے بھی اس اسپتال پر اور اس کے ارد گرد، بمباری کی گئی تھی۔ غزہ میں یہ واحد اسپتال ہے جہاں کینسر کے مریضوں کا علاج کیا جاتا ہے۔ اس طرح اسپتالوں پر حملہ کرنا صہیونی حکومت کا وحشیانہ فعل ہے۔ انڈونیشین اسپتال پر بھی کئی بار حملے کیے گئے ہیں۔
الشفا اسپتال غزہ پٹی کے اہم اسپتالوں میں شمار ہوتا ہے۔ اس اسپتال پر صہیونی افواج کی نظر بہت پہلے سے تھی۔ صہیونی ریاست کے سابق وزیر اعظم، ایہود بارک نے چند دنوں قبل الشفا اسپتال پر حملہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ ایہود بارک ایک جنگی مجرم ہے جس کے خلاف جنگی مجرم کی حیثیت سے مقدمہ چلانے کا مطالبہ، ماضی میں کیا جاچکا ہے۔ بروز: جمعہ، 3/ نومبر کی شام کو، صہیونی افواج نے الشفا اسپتال کے مرکزی دروازے پر بمباری کی۔ اسپتال کے گیٹ پر ایک ایمبولینس میں، بہت سے زخمی افراد تھے، ان میں سے پندرہ زخمی افراد اس بمباری میں شہید ہوگئے۔ بمباری کے بعد، جو لوگ وہاں سے بھاگ رہے تھے، ان پر بھی حملہ کیا گیا۔ اس بمباری میں کئی ڈاکٹر اور طبی عملے کی شہادت کی بھی خبر ہے۔ مجموعی طور پر الشفا اسپتال پر حملے کے نیتجے میں، تقریبا ساٹھ افراد شہید ہوئے ہیں۔ صہیونی فوج نے اس حملے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ جس ایمبولینس پر حملہ کیا گیا ہے، وہ حماس کے کارکنان اور اسلحے کے نقل وحمل کے لیے استعمال کیا جارہا تھا؛ جب کہ فلسطینی وزارت صحت نے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ در حقیقت صہیونی افواج نے زخمیوں کے لے جانے والے ایمبولینس کو نشانہ بنایا ہے۔
غزہ کے شمالی علاقے میں، فلسطینی پناہ گزینوں کے لیے قائم ایک ”جبالیہ خیمہ“ ہے۔ یہ خیمہ غزہ کے آٹھ پناہ گزیں خیموں میں، سب سے بڑا خیمہ ہے۔ اقوام متحدہ نے سال رواں کے ماہ جولائی میں، اس کا ڈیٹا اکٹھا کیا ہے۔ اس ڈیٹا کے مطابق، اس خیمہ میں ایک لاکھ ساٹھ ہزار فلسطینی پناہ گزیں رجسٹرڈ ہیں۔ اس پر بھی صہیونی ریاست نے 31/ اکتوبر کو بمباری کی۔ اس کے بعد بھی، اس پر کئی بار بمباری کی گئی ہے۔ 2/ نومبر کو بھی اس پر بمباری کی گئی۔ اس خیمہ کے تقریبا دو سو سے زیادہ پناہ گزیں شہید ہوئے ہیں، سات سو کے قریب لوگ زخمی ہوئے ہیں اور سو سے زیادہ افراد لاپتہ ہیں۔ صہیونی مسلح افواج کے ترجمان نے اس کیمپ پر حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا: "جبالیہ خیمہ میں، دو رہائشی عمارتوں کے انہدام اور کثیر تعداد میں شہری اموات کا سبب بننے والا حملہ ہم نے کیا ہے۔“ صہیونی افواج کا کہنا ہے کہ اس خیمہ میں حماس کے ایک کمانڈر کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ ایک کمانڈر کو نشانہ بنانے کے بہانے، سینکڑوں لوگوں کو شہید کیا گیا ہے، اسے تاریخ کبھی نہیں بھولے گی۔
صہیونی افواج کی طرف سے جو بمباری ہورہی ہے، اس سے یہ سمجھنا کوئی مشکل نہیں کہ وہ خاص طور پر رہائشی آبادیوں کو اپنا نشانہ بناتی ہے۔ البریج نامی ایک خیمہ ہے، جس میں فلسطینی پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد ہے۔ اس خیمہ پر بھی 2/ نومبر کو صہیونی افواج نے بمباری کی۔ اس میں بھی بہت سے لوگ شہید ہوئے ہیں۔ وسطی غزہ میں قائم فلسطینی پناہ گزینوں کے المغازی خیمہ پر بھی 4 اور 5/ نومبر کی درمیانی شب میں، حملہ کیا گیا ہے جس میں تقریبا اکاون افراد شہید ہوئے ہیں۔
اس حالیہ جنگ کے دوران صہیونی ریاست نے جس طرح عوامی مقامات کو نشانہ بنایا ہے، اس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی۔ اس صہیونی ریاستی بمباری میں، روزانہ اتنے بے گناہ لوگ شہید ہو رہے ہیں کہ ان کا درست اعداد وشمار پیش کرنا بھی مشکل ہے۔ غزہ میں جدھر بھی نظر دوڑائی جائے، ادھر منہدم مکانات اور ہر طرف بکھری ہوئی شہیدوں کی لاشیں ہی نظر آتی ہیں۔ لوگوں کو خدشہ ہے کہ ان گنت لاشیں ملبے میں دبی ہوئی ہیں۔ غزہ جسے اب تک ایک کھلی جیل کہا جارہا تھا، اب وہ ایک اجتماعی قبرستان میں تبدیل ہوچکا ہے۔ یہی وجہ ہے اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انتونیو گوٹریس کو بھی کہنا پڑا کہ: ”الشفا اسپتال کے باہر ایمبولینس کے قافلے پر اسرائیلی حملے سے انتہائی خوف زدہ ہوں۔ اسپتال کے باہر لاشوں کو پڑے ہوئے دیکھنا بہت خوفناک ہے۔“ صہیونی ریاست کی نظر میں، اقوام متحدہ کی کسی تجویز یا اس کے سکریٹری جنرل کے بیان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اگر کوئی حیثیت ہوتی؛ تو اقوام متحدہ کی طرف سے، 27/ اکتوبر کو جنگ بندی کی تجویز پاس ہونے کے بعد، صہیونی ریاست کا نمائندہ تجویز کی کاپی کو اقوام متحدہ میں، سارے ممبران کے سامنے نہیں پھاڑتا اور صہیونی ریاست جنگ بند کرنے پر مجبور ہوتی۔
اس جنگ میں، 5/ نومبر تک، قابض صہیونی افواج کے حملے میں، صرف غزہ میں، تقریبا 9500 افراد شہید ہوئے ہیں، جن میں 3900 بچے اور 2509 خواتین شامل ہیں؛ جب کہ تقریبا پچیس ہزار لوگ زخمی ہوچکے ہیں۔ مغربی کنارے میں اب تک ایک سو باون افراد کے شہید ہونے اور اکیس سو لوگوں کے زخمی ہونے کی خبر ہے۔ ایک سو پجاس طبی عملے اور 36/ صحافی بھی اسرائیلی حملے کا شکار ہوکر، شہید ہوچکے ہیں۔ اس صہیونی دہشت گردانہ حملے میں تقریبا ساٹھ اسپتال، ستائیس ایمبولینس، پچپن مساجد، تین یونیورسیٹیاں اور تین چرچ بھی نشانے بنائے گئے ہیں۔ اب تک تقریبا تین لاکھ لوگ بے گھر ہوئے ہیں اور کئی خاندانوں کا وجود صفح?ہستی سے مٹ چکا ہے۔
عوامی مقامات اور عوامی ذرائع نقل و حمل پر حملے کے بعد، صہیونی افواج کی طرف بیان آتا ہے کہ وہاں حماس کے لڑاکے تھے؛ اس لیے حملہ کیا گیا۔ القدس اسپتال پر حملے سے پہلے، اسرائیلی حکام نے اسپتال خالی کرنے کی دھمکی دی۔ مان لیا جائے کہ اگر اس اسپتال میں حماس کے مزاحمت کار رہیں ہوں گے؛ تو کیا وہ اس دھمکی کے بعد، وہاں سے فرار نہیں ہوجائیں گے؟ یقینا وہ وہاں سے کسی دوسری جگہ منتقل ہوجائیں گے۔ پھر یہ کہنا کہ وہاں حماس کے جنگجو تھے؛ اس لیے ہم نے وہاں بمباری کی اور میزائل داغے۔ یہ وجہ غیر معقول ہے اور کسی بھی عقلمند آدمی کی سمجھ سے بالا تر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صہیونی افواج اسپتالوں، طبی مراکزوں، مساجد، چرچوں، پناہ گزینوں کے خیموں اور عام لوگوں کے گھروں پر دانستہ طور پر بمباری کر رہی ہے۔ اس بمباری کا مقصد فلسطینی عوام کو نشانہ بنانا، ان کی نسل کشی کرنا اور فلسطین پر قبضہ کرنا ہے۔ ایک امریکی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے، صہیونی ریاست کے وزیر اعظم کی ترجمان: تل ہینرک کی زبان سے بھی یہ بات نکلی ہے۔ اس نے کہا: "اسرائیل غزہ میں کسی اور کو نشانہ نہیں بنا رہا ہے سوائے سویلینز (عام شہریوں) کے۔” مگر جب اسے احساس ہوا کہ اس کی زبان سے ایک سچ اگلا جاچکا ہے؛ تو اس نے اپنے جملے کوبدلتے ہوئے بولی: "نہیں نہیں، نشانہ دہشت گرد ہیں۔”
صہیونی ریاست کو "دو ریاستی حل” بالکل گوارہ نہیں۔ وہ عام طور پر فلسطینیوں پر بمباری کرتی ہے، بغیر کسی جرم کے انھیں گرفتار کرکے جیل میں ڈالدیتی ہے اور ان کے گھروں کو مسمار کردیتی ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ جو بھی فلسطینی مسلمان ہیں، وہ اپنی زمین و جائیداد کو چھوڑ کر، ہجرت کرجائیں۔ اگر ایسا نہیں ہوتا ہے؛ تو پھر ان کی نسل کشی کی جاتی رہے گی؛ تا آں کہ صہیونی ریاست کے خلاف مزاحمت کرنے والا کوئی باقی نہ رہے اور بچے کھچے فلسطین پر بھی صہیونی ریاست کا قبضہ ہوجائے اور "دو ریاستی حل” کا فارمولہ خود ختم ہوجائے گا۔ عام لوگوں کے قتل کرنے اور ان کے مکانات کو مسمار کرنے کے پیچھے صہیونی ریاست کا ایک مقصد یہ بھی ہوسکتا ہے کہ فلسطینی عوام اپنی قیادت اور فلسطینی مزاحمتی جماعت پر مشتعل ہوں ، ان سے ناراضگی کا اظہار کریں اور ان کے خلاف اپنی زبانیں کھولنے پر مجبور ہوں۔ جب اس طرح کا عوامی ردّعمل ہوگا؛ تو کسی بھی مزاحمت پسند جماعت کویہ کہہ کر کنارہ لگایا جاسکتا ہے کہ عوام اسے ناپسند کرتے ہیں اور یہ فلسطینیوں کی نمائندہ جماعت نہیں ہے۔ آج عام فلسطینیوں کا خون بہہ رہا ہے۔ صہیونی ریاست خوش فہمی میں ہے کہ وہ فلسطینی عوام اور حماس کے درمیان دوری پیدا کردے گی۔ مگر یہ اس کی غلط فہمی ہے؛ کیوں کہ اب تک فلسطینی عوام اپنی مزاحتمی جماعت کے ساتھ کھڑے ہیں۔ صہیونی ریاست یہ نہ بھولے کہ وہ جس قوم کا قتل کر رہی ہے، ان کا دل ایمان کی روشنی سے منور ہے۔ آج چاہے انھیں طاقت کے بل پر کچل دیا جائے؛ مگر وہ پھر تازہ دم ہوکر، اٹھ کھڑی ہوگی اور آگے بڑھے گی، ان شاء اللہ۔
٭٭٭٭