مضامین

بچوں کی ناجائز ضد….

بچوں کے بےجا رونے دھونے سے ہر گز پریشان نہ ہوں، بلکہ انھیں نظر انداز کریں اور ان کی طرف متوجہ نہ ہو۔ کوشش کریں کہ اس طرح رونے کی نوبت ہی نہ آئے۔ بچہ جب بھی کسی چیز کے لیے ضد کرے تو فوری طور پر اس کا دھیان بٹانے کی سعی کریں۔

مہرین ناز

متعلقہ خبریں
بچوں کی ناکامی کا ذمہ دار کون؟
چائے ہوجائے!،خواتین زیادہ چائے پیتی ہیں یا مرد؟
6سال سے کوما میں موجود لڑکے کی موت، والدین کا ڈاکٹر کے خلاف کارروائی کا مطالبہ
16سالہ لڑکی حاملہ پائی گئی، والدین و شوہر کے خلاف کیس درج
مشرکانہ خیالات سے بچنے کی تدبیر

اکثر والدین یہ شکایت کرتے ہیں کہ ہمارے بچے ہماری بات نہیں مانتے ہر بات پر اپنی من مانی کرتے ہیں۔ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ضد کرتے ہیں۔ بچوں کی یہی ضد آگے چل کر نہ صرف خود ان کے لیے بلکہ دوسروں کے لیے بھی نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔

اس لیے والدین کو چاہیے کہ وہ شروع سے ہی بچوں کی تربیت میں ان عوامل کو مد نظر رکھیں جو بچوں کی شخصیت بنانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اگر آپ کا بچہ ضدی ہے تو سب سے پہلے آپ ان وجوہ پر غور کریں، جن کی وجہ سے وہ ضد یا غصہ کرتا ہے۔

سب سے پہلی وجہ تو یہ ہو سکتی ہے کہ آپ کا بچہ جس قسم کا رویہ اپنا رہا ہے، عین ممکن ہے کہ گھر کے کسی فرد کا رویہ بھی اسی قسم کا ہو ،یعنی اس فرد میں غصہ اور ضدی پن پایا جاتا ہو۔ حقیقت تو یہ ہے کہ بچے اپنے ماحول سے زیادہ سیکھتے ہیں، ایسی صورت میں بچے ماحول سے ضد یا غصہ کرنے کی عادت اپنا لیتے ہیں۔

دوسری بڑی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ آپ اپنے موقف یا اپنی بات سے پھر جاتے ہوں، مثلاً آپ نے بچے سے کہا کہ اگر تم اپنی تعلیم پر توجہ نہیں دو گے تو تمھیں فلاں چیز نہیں ملے گی، مگر اس کی تعلیمی کار کردگی بہتر ین نہ ہونے کے باوجود اسے مطلوبہ شے دلادی جاتی ہے یا اسے کسی غلطی پر خوب ڈانٹا جاتا ہے اور پھر فوراً ہی پیار بھی کر لیا جاتا ہے۔ اس طرح بچہ آپ کی کہی ہوئی کسی بات کو سنجیدہ نہیں لیتا اور پھر یہ عادت پختہ ہو جاتی ہے۔

تیسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اکثر والدین بچوں کے رونے دھونے سے گھبرا جاتے ہیں اور فوراً ان کی خواہش کو پورا کر دیتے ہیں۔ یاد رکھیں! بچے اکثر اپنے رونے دھونے کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ اس لیے آپ پہلے اس بات پر غورکریں کہ آیا وہ کسی تکلیف کے تحت رو رہا ہے یا محض اپنی بات منوانے کے لیے ضد کر رہا ہے۔

اگر بچہ رو دھو کر اپنی بات منوانے کی کوشش کررہاہے تو اُسے نہ صرف سختی سے ڈانٹیں، بلکہ نظر انداز کریں۔ ایک آسان طریقہ یہ ہے کہ اس کی توجہ کسی اور طرف لگا دیں۔ جب آپ یہ جان لیں کہ آپ کے بچے کے ضدی پن کی وجہ کیا ہے تو اس کے تدارک کی کوشش کریں۔

 واضح رہے کہ بچہ پیدائشی ضدی نہیں ہو تا، بلکہ یہ آپ کی تر بیت پر منحصر ہے کہ وہ کس روپ میں ڈھلتا ہے۔ بچوں کی تمام تر اُمید یں ماں باپ سے وابستہ ہوتی ہیں اور والدین بھی فطری محبت کے باعث مجبور ہو کر بچے کی جائز ونا جائز بات مان لیتے ہیں۔

والدین کو سب سے پہلے یہ دیکھنا چا ہیے کہ بچہ کس چیز کے لیے ضد کررہا ہے۔ اگر مذکور ہ چیز حاصل کرنے کی خواہش بے جا ہے، مثلاً جیسے اس کے پاس رنگین پنسلوں کا سیٹ پہلے ہی سے موجود ہے اور وہ پھر بھی مانگ رہا ہے تو آپ اسے پیار و محبت سے سمجھائیں کہ آپ کے پاس یہ پہلے سے موجود ہے لہٰذا پہلے اسے استعمال کرے، جب یہ ختم ہو جائیں گی تو نیا دلادیا جائے گا۔

اگر بچہ کھانے پینے کی یسی چیز کے لیے ضد کر رہا ہے ،جو مضر صحت ہے تو اسے نرمی سے سمجھائیے کہ یہ شے اس کے لیے نقصان دہ ہے۔بچوں سے ہمیشہ واضح الفاظ میں بات کیجیے۔ انہیں بتائیے کہ گھر میں مہمان کے آنے پر انھیں کس طرح رہنا ہے۔

بچوں کے بےجا رونے دھونے سے ہر گز پریشان نہ ہوں، بلکہ انھیں نظر انداز کریں اور ان کی طرف متوجہ نہ ہو۔ کوشش کریں کہ اس طرح رونے کی نوبت ہی نہ آئے۔ بچہ جب بھی کسی چیز کے لیے ضد کرے تو فوری طور پر اس کا دھیان بٹانے کی سعی کریں۔

 بچے اپنے بڑوں کو دیکھ کر سیکھتے ہیں، اس لیے بچوں کے سامنے اچھی عادات کا مظاہرہ کریں، تاکہ بچے بھی ایسی ہی عادات اپنائیں بچوں کی تربیت میں محض سختی یا بے جاپیار سے کام لینے کے بجائے درمیانہ راستہ اپنائیں اور انہیں موقع کی مناسبت سے سمجھائیں۔

٭٭٭