طنز و مزاحمضامین

ہائے رے درد دانتوں کا

منظور وقار

دانتوں کی تاریخ اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ باوا آدم اور ماں حوا کی۔ہمارے ان اجداد نے خالق کائنات کے منع کرنے کے باوجود گندم کا دانہ کھا نے کی غلطی کی، اس نافرمانی کی پاداش میں عرش کی جنت سے نکا ل کر فرش کے جہنم عرف دُنیا میں پھینک دیے گئے۔گندم کا دانہ کھانے میں صرف آدمؑ اور حوا ؑکی غلطی نہ تھی اس کے پس پشت اُن کے دانتوں کے علاوہ شرپسند وں کے سردار شیطان کا ہاتھ تھا۔
آدم ؑ اور حواؑ نے گندم کا دانہ کھایا مطلب چبا کر کھایا ہوگا۔گویا اُن کے منہ میں دانت تھے، اگر اُن کے منہ میں دانت ہی نہ ہوتے تو گندم کا دانہ کس طرح چباتے سالم گندم ہی نگل جاتے اگر ایسا ہوگیا ہوتا تو شایدجنت سے ہاتھ نہیں دھو بیٹھتے کیو ںکہ نگلنے کا عمل کھانے میں شمار نہیں ہوتا۔خیر آدمؑ اور حواؑ کی کہانی ادھوری چھوڑ کر ہم اصل موضوع کی جانب آتے ہیں۔
انسان کو آرام و آسائش کی کتنی بھی چیزیں میسر کیوں نہ ہوں وہ مطمئن نہیں رہتا۔ہمیشہ کچھ کر دکھانے اور کچھ بگاڑنے کے چکر میں لگا رہتا ہے۔جوں جوں دُنیا سائنس اور ٹکنالوجی کی جانب تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھ رہی ہے، اسی رفتار سے آج کا انسان عہد ماضی کی تاریخی قبروں کو کھودنے میں دلچسپی لے رہا ہے۔عہد ماضی کی قبروں، مقبروں اور کھنڈروںمیں جتنے بھی انسانی ڈھانچے ملے ہیں،وہ اتنے بوسیدہ اور شکستہ ہوچکے ہیں کہ اُن کے ہاتھوں اور پاو¿ں کی ہڈیوں کے بکھرے پرزوں کو جوڑ کر سالم انسانی ڈھانچے میں تبدیل کرنا مورخین اور ریسرچ اسکالروں کے لیے سردرد ہی نہیں سر کو تاریخی قبروں کی سیاہ چٹانوں سے ٹکرانے کے برابر ہے۔البتہ انسانی ڈھانچوں کے ہاتھ پیر محفوظ ہوں نہ ہوں ان کی کھوپٹریوں اور جبڑوں میں ان کے دانت نہ صرف محفوظ ہیں،پورے جاہ و جلال کے ساتھ دیکھنے والوں ڈراتے بھی ہیں یہ وہی دانت ہیں جو جنگ کے دوران دشمنوں کے دانت کھٹے کرتے تھے۔ جنگ کے دوران اگر دشمن بھاری پڑگیا تو دشمنوں کی گردنیں کاٹنے کی کوششیں میں کبھی کبھی خود کی گردنیں کٹوانے کے ساتھ ساتھ دانت سے بھی محروم ہوجاتے تھے۔
دور ماضی میں اگر کوئی نوجوان خاتون چہرے پر گھونگھٹ ڈالے سرجھکائے دانتوں کو منہ میں چھپائے نظر آتی تو اس خاتون کو حسین اور شریف خاتون کہا جاتا تھا۔آج کل پرانی باتیں صرف یادیں بن کر رہ گئی ہیں۔ آج اگر کوئی خاتون پردے اور گھونگھٹ سے بے نیاز مردوں کے سامنے مسکر ا مسکرا کر دانتوں کی نمائش کرتی ہے تو اس خاتون کا شمار خوبصورت خواتین میں ہونے لگتا ہے۔یہی خاتون اگر سفید دانتوں کے ساتھ ساتھ اپنے جسم کی نمائش کرتی ہے تو حسینہ عالم کا خطاب حاصل کرکے راتوں رات عالمی شہرت حاصل کرلیتی ہے۔
ہر قسم کی مٹھائیوں اور پھل دانتوں کے بغیر بے ذائقہ ہیں۔ جب تک مٹھائیاں اور پھل دانتوں سے ہوتے ہوئے شکم میں نہیں پہنچتے اس وقت تک مٹھائیوں کی مٹھاس کا مزہ آتا ہے اور نہ پھلوں کی کھٹاس کا لطف ملتا ہے۔دانت جہاں 80برس کے بوڑھے کو جوان بنائے رکھتے ہیںوہیں20برس کا نوجوان دانتوں کے بغیر عمر رسیدہ لوگوں میں شمار ہونے لگتا ہے۔جو لوگ کسی نہ کسی وجہ سے قدرتی دانتوں سے محروم ہوجاتے ہیں، وہ بوڑھے کہلانے کے خوف سے نقلی دانت لگاتے ہیں۔نقلی دانت کھانے کے لیے نہیں صرف دکھانے کے لیے ہوتے ہیں۔ ان دنوں نقلی چیزوں کا چلن اس قدر بڑھ گیا ہے کہ اصلی دانتوں پر بھی ہمیں نقلی دانتوں کا گمان ہونے لگا ہے۔اصلی دانتوں پر ہاتھی کے دانت یعنی دکھانے کے دانت بھاری ہیں۔اکثر یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جس کے دانت مضبوط اور لمبے ہوتے ہیں ان کا دل حاتم طائی کے دل کی طرح بڑا ہوتا ہے۔یہ اور بات ہے کہ حاتم طائی نیکی کرکے دریا میں ڈالتا تھا، برخلاف اس کے مضبوط اور المبے دانت والے نیکی کرکے دریا میں ڈالنے کے بجائے اخبارات اور ٹی وی چینلوں میں ڈالتے ہیں تاکہ ان کی نیکی اور بڑے دل کی تشہیر ساری دُنیا میں ہوتی رہے اور انہیں پارلیمانی الیکشن کے دوران ممبر آف پارلیمنٹ کا ٹکٹ مل جائے ۔جو لوگ شب و روز دارو(شراب) پینے کے عادی ہوتے ہیں وہ کچھ کھاتے ہی نہیں صرف پیتے ہی رہتے ہیں۔جب یہ لوگ کچھ کھاتے ہی نہیں تو انہیں دانتوں کی چنداں ضرورت نہیں۔شرابیوں کی شراب نوشی میں جوں جوں اضافہ ہونے لگتا ہے، ان کے دانت پت جھڑ کے پتوں کی طرح گرنے لگتے ہیں۔پورے دانتوں سے محرومی بھی ان کی شراب نوشی کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتی کیوں کہ فرق صرف اتنا پڑ تا ہے کہ یہ لوگ دانت کی موجودگی میں شراب کا گلاس منہ کو لگاتے تھے۔دانتوں سے محروم ہونے کے بعد پوپلے منہ کو شراب کی سالم بوتل ہی لگا دیتے ہیں۔ چند لوگوں کے دانت خودبخود گردجاتے ہیں تو کچھ لوگ دانتوں سے محروم ہونے کے لیے بڑی کدو کاوش کرتے ہیں۔مثلاً دن رات پان سپاری گٹکھا تمباکو وغیرہ کی جگالی کرتے ہیں، بعض لوگوں کو مندرجہ بالا ذائقہ دار چیزوں کی جگالی کرنے کا شوق نہیں ہوتا پھر بھی ان لوگوں کو اپنے دانت اپنی مرضی سے اکھاڑنے پڑتے ہیں،کیوں کہ ان کے دانتوں سے کیڑے دوستی کرلیتے ہیں۔یہ کیڑے انہیں اتنی اذیت دیتے ہیں کہ بے چارہ دانتوں کے درد کا مارا خصوصاً داڑھ کے درد کا مصیبت زدہ گھر ہو یا آنگن آفس ہو کہ ہوٹل پھولے ہوئے گال کو سہلاتے ہوئے روتے بسورتے داڑھ کے درد کو کوستے ہوئے نظر آتا ہے ۔انسان فطرتاً کمزور پیدا ہوا ہے۔بھلا کہاں تک دانت درد کو برداشت کر پائے گا۔مجبوراً دانتوں کے ڈاکٹر کے پاس جا کر دانت اکھاڑ لیتا ہے۔ادھر ایک دانت اکھڑ گیا کہ اس کا پڑوسی دانت ہاتھ پیر نکال کر ہولے ہولے درد دینے لگتا ہے یہاں تک کہ صاحب دانت کو درد کے دریا میں غرق کرکے اس انتظار میں رہتا ہے کہ اسے بھی جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیا جائے۔یوں ایک کے بعد دیگر ایماندار ملازمین سرکار کی طرح کم ہونے لگتے ہیں۔
گنجے انسان بالوں کے بغیر بھی زندگی کی خوشیاں لوٹتے ہیں برخلاف اس کے دانتوں سے محروم انسان زندگی کی خوشیوں کے ساتھ ساتھ پھلوں، گوشت اور لذیذغذاو¿ں کی لذتوں سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔تقریباً ہرجانور اور چرند پرند کے دانت ہوتے ہیں۔علاوہ ازیں شیر ببراور بھیڑیوں کے دانت بھی ہوتے ہیں لیکن ان دانتوں کا شمار خونخوار دانتوں میں ہوتا ہے۔کتے اور سانپوں کے دانت بھی ہوتے ہیں، ان کا شمار زہریلے دانتوں میں ہوتا ہے۔کہتے ہیں سانپ کا کاٹا بچ بھی سکتا ہے لیکن انسان کا کاٹاپانی بھی نہیں مانگتا۔خدانے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ عطا کیا تھا لیکن انسان اپنی وحشیانہ حرکتوں سے درندوں کو بھی پیچھے ڈال دیتا ہے۔محاورہ مشہور ہے کہ کھانے کے دانت کچھ اور ہوتے ہیں دکھانے کے دانت کچھ اور، ہم اگر اس محاورہ کی سچائی کا بہ نفس نفیس مشاہدہ کرنا چاہیں گے تو ہمیں ہمارے ملک کے چند سیاسی لیڈورں اور نام نہاد قائدین کے حالات زندگی پر نظر ڈالنی پڑے گی ۔کسی ریاست کا وزیر اعلیٰ صرف ایک روپیہ ماہانہ تنخواہ لے کر عوام کی خدمت کا دعویٰ کرتا ہے تو کوئی قائد قوم کے لیے خود کو مٹانے اپنی دھن دولت کو قوم و ملت پر نچھاور کرنے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن جب ہم اس طرح کے دعوے کرنے والے سیاسی قائدین اور لیڈروں کے دھن دولت اور بینک بیلنس کا جائزہ لیتے ہیں تو ہماری آنکھیں حیرت سے پھٹ پڑتی ہیں۔ایسا معلوم ہوتا ہے ۔قارون کا خزانہ زمین پھاڑ کر ان لوگوں کے پاس پہنچ گیا ہے۔لڑائی جھگڑے جیسے اہم کارنامے انجام دینے کے دوران لوگوں کو اس طرح کی دھمکیاں دیتے ہوئے آپ نے بارہا دیکھا ہوگا۔”اگر ہاتھ بھی لگایا تو دانت تو ڑ کر ہاتھ میں رکھ دوں گا۔“” اب اگر ایک لفظ بھی منہ سے نکالا تو منہ میں ایک بھی دانت باقی نہیں رہیں گے۔“دانت سلامت رکھنے ہیں تو مجھ سے مت ٹکرانا۔“حالانکہ اس طرح کی دھمکیاں دینے والے لوگ کسی کے دانت توڑنا تو بڑی بات ہے کسی کا بال بھی بیکا نہیں کرسکتے۔برخلاف اس کے بعض وقت خود اپنے دانت دوسروں کے ہاتھوں تڑوا کر مارے شرم کے گوشہ گمنامی میں چلے جاتے ہیں۔جو لوگ نقلی دانت لگاتے ہیں وہ دانت پیس کر اپنے غصہ کا اظہارنہیں کرسکتے، اگر غلطی سے دانت پیس کر غصہ کا اظہار کرنے کی غلطی کرتے ہیں تو بتیسی نکل کر ان کے ہاتھوں میں آجاتی ہے۔ لہٰذا یہ لوگ دانت پیس کر بیوی بچوں پر غصہ کا اظہار کرنے کی بجائے آنکھیں پھاڑ کر غصہ کا اظہار کرتے ہیں۔جبکہ دانت پیس کر غصہ کا اظہار کرنے کا لطف ہی کچھ اور ہوتا ہے۔نقلی دانت رکھنے والے لوگ تہاری بریانی میں موجود بوٹیوں کو نوچنے اور ہڈیوں کو چبانے کی لذت سے محروم ہوتے ہیں۔تاہم لوگ گوشت کے اس قدر دیوانے ہوتے ہیں کہ پوپلے منہ سے بوٹیوں کو یوں نگل کر ہضم کرجاتے ہیں جیسے ہمارے ملک کے چند ایماندار وزراءاور اعلیٰ عہدیدار سرکاری خزانے میں موجود رقم کو نگل ڈالتے ہیں۔زمین پر چلتے پھرتے جانوروں حیوانوں اور رینگنے والے سانپوں اور مگر مچھ کے دانت اصلی ہی ہوتے ہیں صرف انسان ہی وہ مخلوق ہے جو اصلی دانتوں کی محرومی کے بعد نقلی دانت لگاتے ہیں اور نقلی دانتوں کے ساتھ ہی داعی اجل کو لبیک کہتے ہیں۔کفن چور حضرات قبر میں اتر کر کفن کے ساتھ ساتھ نقلی دانتوں کی پوری بتیسی ہی اکھاڑ کر فرارہوجاتے ہیں۔بعض سیٹھ سہوکاروں کو سونے کے دانت لگانے کا بڑا شوق ہوتا ہے۔اُن کے منہ میں دو تین سونے کے دانت یوں چمکتے ہیں جس طرح بعض سیاسی قائدین کی انگلیوں میں ہیرے کی انگوٹھیاں۔ کنگال اور دیوالیہ مار سیٹھ سہوکاروں کو سونے کے دانت لگانے کا شوق ہوتا ہے۔وہ اپنے اس شوق کو سالم سونے کے دانت لگانے کے بجائے دانتوں پر سونے کا پانی چڑھاتے ہیں۔ ہمارے سماج میں ایسے لوگ بھی ہیں جو سونے کے دانت لگا سکتے ہیں اور نہ دانتوں پر سونے کا پانی چڑھانے کی سکت رکھتے ہیں۔تاہم یہ لوگ اپنے دانتوں کو لال پیلا اور مٹیالہ رنگ دینے کے لیے پان تمباکو سپاری پان مصالحہ پان پراگ اسٹار گٹکھامانک چند اور چمن زردہ جیسی ”صحت افزائ“ چیزوں کا استعمال کرتے ہیں۔ ان چیزوں کے چبانے دن بھر جگالی کرتے رہنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ان کے رنگین دانت جلد ہی گلنے بعدازاں سڑنے لگتے ہیں۔یہاں تک کہ دانت جڑسے اکھڑ کر صاحب دانت کو بے دانت بنا دیتے ہیں۔ یوں بھی بے دانت اور بے اولاد لوگوں میں بہت زیادہ فرق نہیں ہوتا۔بے دانت لوگ پھلوں اور غذاو¿ں کی لذت سے محروم ہوتے ہیں۔بے اولاد لوگ اولاد کی خوشیوں سے۔ بے دانت لوگ نقلی دانت لگا کر دانتوں کی خوشی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو بے اولاد لوگ دوسروں کی اولاد کو گود لے کر خوش ہوتے ہیں۔دونوں ہی صورتوں میں خوشی اصلی نہیں نمائشی ہوتی ہے۔بعض معزز حضرات خصوصاً سیاسی قائدین اور اعلیٰ افسروں کے دانت سرخ رنگ کے ہوتے ہیں ۔قیمتی توٹھ پاوڈر،ٹوٹھ پیسٹ لگا کر دن رات برش کرنے کے باوجود ان کے دانت سرخ کے سرخ ہی رہتے ہیں۔دانتوں کی سرخی میں رتی بھر فرق نہیں آتا۔اس کی وجہ جاننے کی کوشش کی گئی تو پتہ چلا یہ لوگ مجبور اور بھولے بھالے انسانوں کا خون رشوت کی شکل میں ایسا ڈٹ کر پیتے ہیں کہ ان کے دانتوں پہ چڑھی خون کی سرخی چھوٹنے کا نام نہیں لیتی۔
کارپوریٹ کمپنیوں ،فائیو اسٹار ہوٹلوں،ہائی ٹیک شاپنگ اور مالس میں کام کرنے والی خوبصورت نوخیزلڑکیوں کے دانت بھی خوبصورت اور سفید بھک ہوتے ہیں۔ان لڑکیوں کو نہ صرف اپنے دانتوں کو سفید رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے بائیں ہمہ گاہکوں کے سامنے مسکرا مسکرا کر دانتوں کی نمائش بھی کرنی ہوتی ہے۔کیونکہ ان کمپنیوں کے کاروبار اور لڑکیوں کی ملازمت کا دارو مدار ہی ان سیلس گرلس (ملازمت پیشہ لڑکیوں) کے سفید اور چمکدار دانتوںپر ہوتا ہے۔ڈراموں، ناٹکوں اور فلموں میں اداکاری کرنے والی لڑکیوں خصوصاً فلمی ہیروین کی کامیابی کا انحصار ان کی اداکاری سے زیادہ ان کے سفید اور چمکدار دانتوں پر ہوتا ہے۔جو فلم اداکارہ زیادہ سے زیادہ مسکرامسکرا کر اپنے سفید اور خوبصورت دانتوں کی نمائش کرتی ہے وہ شائقین فلم کے ساتھ ساتھ فلم ڈائریکٹر کو دیوانہ بنانے میں کامیاب ہوجاتی ہے۔فلم ڈائریکٹر تو اس قدر دیوانے ہوجاتے ہیں کہ پانچ بچوں اور بے ڈول جسم بیوی کو گمنامی کے اندھیرے میںدھکیل کر اپنے سے آدھی عمر کی ہیرو¿ین سے شادی کرلیتے ہیں ۔گنجے سر عمر رسیدہ ڈائریکٹر کے ساتھ اس کی کم عمر بیوی یعنی ہیروین کی تصویر اخبارات میںچھپتی ہے تو لگتا ہے ریچھ کے قریب حسینہ عالم کھڑی ہے۔اگر لوگوں کے منہ میں دانت ہی نہ ہوں تو ہمارے ملک کے80%ٹی۔وی چینلس بند ہوجائیں گے۔کیونکہ ان پرائیوٹ چینلوں کی زندگی کا دارومدار ہی ٹوتھ پوڈر، ٹوتھ پیسٹ اور توٹھ برش کے اشتہارات پر ہے۔جب لوگوں کے منہ میں دانت ہی نہ ہوں گے تو ٹوتھ پوڈر ،ٹوتھ پیسٹ اور ٹوتھ برش کے اشتہارات میں بھلا کون دلچسپی لے گا۔جب اشتہارات ہی نہ ملیں گے پرائیوٹ چینلس زندہ کس طرح رہیں گے۔ائیر ہوسٹس کی ملازمت کا انحصارہی اس کے سفید اور خوبصورت دانتوں پر ہوتا ہے۔ ایئر ہوسٹس ہوائی جہاز میں سوا مسافروں کے سامنے مسکرا مسکرا کر اپنے دانتوں کی نمائش کرتی ہے۔مسافر ائیر ہوسٹس کی مسکراہٹ کا مز ہ لینے کے لیے اس سے کچھ نہ کچھ طلب کرتے ہیں مثلاً کافی ،چائے،ناشتہ کھانا وغیرہ ۔حالانکہ انہیں کافی کی طلب ہوتی ہے اور نہ ہی ناشتہ کی ضرورت۔
مشاعروں میں جن شعرا¿ کو ترنم اور اداکاری کے ساتھ غزل سنانے کا گرنہیں آتا۔وہ ڈائس پر پہنچتے ہی دانت باہر نکال کرسامعین کی جانب دیکھنے لگتے ہیں۔سامعین شاعر کی اس ادا پر ایسا لٹو ہوجاتے ہیں کہ اس کا کلام سماعت کرنے سے قبل ہی قہقہے لگا کر داد دینے لگتے ہیں۔ دانتوں کے بغیر غزل سناکر سامعین سے داد حاصل کرنا دانتوں تلے پسینہ لانے کے برابر ہے۔جن شعرائ¿ کے منہ میں دانت نہیں ہوتے وہ پوپلے منہ سے غزل کا ایک ایک شعر یوں ادا کرتے ہیں لگتا ہے حالت نزع میں بیوی بچوں اور قرض داروں سے کچھ کہنا چاہتے ہیں۔اُردو شاعری میں جہاں محبوبہ کے رُخساروں زلفوں،آنکھوں اور اداو¿ں کا ذکر ملتا ہے وہیں دانتوں کا ذکر دور دور تک نہیں ملتا حالانکہ خوبصورت خواتین کی خوبصورتی میں اضافہ کرنے میں جو اہم رول دانت ادا کرتے ہیں۔یہ کام میک اپ کا سامان بھی انجام نہیں دے سکتا۔چند لوگوں کو اپنی تیز و طرار اور کٹیلی باتوں سے اپنے مخاطب کے دانت کھٹے کرنے کا فن خوب آتا ہے۔ اکثر بیویاں دن میں دس بار اپنی کٹیلی اور کڑوی باتوں سے شوہروں کے دانت کھٹے کرتی رہتی ہیں۔شوہر حضرات کھٹے دانتوں کی کھٹاس کو کم کرنے کے لیے پان تمباکو اور گٹکھا استعمال کرتے ہیں۔رشوت کھانے اور سرکاری مال ہضم کرنے کے لیے دانتوں اور معدے کی ضرورت نہیں ہوتی، اس کے لیے دماغ کی ضرورت ہوتی ہے، جن ملازمین سرکار کے دانت چھوٹے اور دماغ بڑا ہوتا ہے وہ نہ صرف رشوت کھانے میں ماہر ہوتے ہیں،موقع ملا تو سرکاری خزانہ ہی خالی کردیتے ہیں۔ہم حضرت انسان شیر ببر کے دانت مگر مچھ اور بھیڑیے کے دانت شیطان اور چڑیل کے دانتوں کے علاوہ سانپ اور چوہے کے دانتوںسے بخوبی واقف ہیںلیکن دودھ کے دانت کادیدار آج تک نہیں کرسکے جب کہ اکثر لوگ بول چال کے دوران اس طر ح کے ڈائیلاگ ادا کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔” دودھ کے دانت بھی نہیں نکلے لگا لڑکیوں کو لائن مارنے“” دودھ کے دانت بھی نہیں نکلے ضد کررہا ہے شادی کی“، ”دودھ کے دانت بھی نہیں نکلے والدین کو آنکھیں دکھا رہا ہے“، ” دودھ کے دانت بھی نہیں نکلے نصیحت کررہا ہے بزرگوں کو“ ہم ڈیری فارم کے دودھ کو ہی دودھ سمجھتے ہیں۔ ڈیری فارم کے دودھ کے دانت نہیں ہوتے صرف پلاسٹک کے پاکٹ ہوتے ہیں۔ایک دن ہم نے ہمارے دانشور دوست علامہ کاروباری سے دریافت کیا،علامہ دودھ کے دانت کسے کہتے ہیں، ان کا دیدارکس طرح ہوسکتا ہے۔ہمارا سوال سن کر علامہ پہلے تو ہنس پڑے پھر طنز کا تھپڑ ہمارے تھوبڑے پر مارتے ہوئے بولے ۔”وقار ! تمہارے سر اور داڑھی کا ایک ایک بال سفید ہوچکا ہے۔اس عمر کو پہنچ کر بھی تمہیں اس بات کا پتہ نہیں دودھ کے دانت کسے کہتے ہیں۔ایسا لگتا ہے ابھی تک تمہارے دودھ کے دانت نکلے ہی نہیں ۔تم جیسے بیوقوف کو کچھ سمجھانا عبث ہے۔“اتنا کہہ کر علامہ نودو گیارہ ہوگئے۔علامہ چالاک ہی نہیں بڑے پہنچے ہوئے چالاک انسان ہیں۔بڑی چالاکی سے ہمارا سوال ٹال گئے اور ہم کھسیانی بلی کی طرح اپنے دانت دکھاتے رہ گئے۔
٭٭٭