دہلی

دہلی فسادات کیس، عمر خالد اور خالد سیفی الزامات سے بری

دہلی کی ایک عدالت نے آج جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے سابق طالب علم عمر خالد اور یونائیٹیڈ اگینسٹ ہیٹ کے بانی خالد سیفی کو 2020 کے شمال مشرقی دہلی فسادات سے متعلق ایک کیس میں بری کردیا۔

نئی دہلی: دہلی کی ایک عدالت نے آج جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے سابق طالب علم عمر خالد اور یونائیٹیڈ اگینسٹ ہیٹ کے بانی خالد سیفی کو 2020 کے شمال مشرقی دہلی فسادات سے متعلق ایک کیس میں بری کردیا۔

ایڈیشنل سیشن جج پولاستیا پرمچالا نے یہ حکم صادر کرتے ہوئے ہدایت دی کہ عام آدمی پارٹی (اے اے پی) کے لیڈر اور دیگر 10 کے خلاف فروری 2020 میں پارکنگ لاٹ میں مبینہ فساد، توڑ پھوڑ اور آتشزنی کے معاملہ میں الزامات عائد کئے جائیں۔ جج نے پولیس اسٹیشن کھجوری خاص میں درج کی گئی ایف آئی آر نمبر 101/2020 کے سلسلہ میں یہ حکم صادر کیا۔ آرڈر کی نقل کا انتظار ہے۔

عدالت نے عمر خالد اور خالد سیفی کے علاوہ طارق معین رضوی، جگر خان اور محمدالیاس کو بھی بری کردیا۔ عدالت نے اپنے حکم میں کہا کہ ملزم طارق معین رضوی، جگر خان، محمد الیاس، خالد سیفی اور عمر خالد کو ہدایت دی جاتی ہے کہ وہ ضابطہ فوجداری کی دفعہ 437-A کے تحت 10 ہزار روپے کی رقم کا مچلکہ اور اس کے ساتھ مماثل رقم کی ایک ضمانت پیش کریں۔ حکم نامہ کی نقل متعلقہ جیل سپرنٹنڈنٹ کو بھیجی جائے تاکہ متعلقہ ملزمین کو آگاہ کیا جاسکے۔

تاہم جج نے طاہر حسین، لیاقت علی، ریاست علی، شاہ عالم اور محمد شاداب، محمد عابد، راشد سیفی، گلفام، ارشد قیوم، ارشاد احمد اور محمد ریحان کے خلاف الزامات بھی وضع کئے۔ ان کے خلاف تعزیرات ہند کی دفعہ 120B، 147،148،188، 153A، 323،395، 435،436 اور 454 کے تحت الزامات وضع کئے گئے ہیں۔ اس ایف آئی آر میں خالد اور سیفی دونوں ہی ضمانت پر ہیں۔

بہرحال وہ یو اے پی اے کے تحت درج کئے گئے کیس میں جس میں فسادات کے پس پردہ وسیع تر سازش کا الزام عائد کیا گیا ہے، عدالتی تحویل میں ہی رہیں گے۔ یہ مقدمہ ایک کانسٹیبل کے بیان کی بنیاد پر درج کیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ 24 فروری 2020 کو چاند باغ پلیا کے قریب ایک بڑی بھیڑ جمع ہوئی تھی اور سنگباری شروع کردی تھی۔

یہ الزام عائد کیا گیا تھا کہ جب پولیس عہدیدار خود کو بچانے کیلئے قریبی پارکنگ میں داخل ہوگیا تو ہجوم نے پارکنگ لاٹ کا شٹر توڑ دیا اور اندر موجود لوگوں کو مارپیٹ کی۔ انہوں نے گاڑیوں کو بھی آگ لگادی تھی۔ اس کے بعد کیس کو 28 فروری 2020 کو کرائم برانچ کو منتقل کردیا گیا تھا۔

استغاثہ کے مطابق عام آدمی پارٹی کے سابق کونسلر طاہر حسین کی عمارت کو فسادیوں نے مبینہ طور پر سنگباری کرنے، پٹرول بم اور تیزاب پھینکے کیلئے استعمال کیا تھا۔ یہ بھی الزام لگایا گیا تھا کہ مذکورہ مواد عمارت کی تیسری منزل اور چھت پر پڑا ہوا ملا۔ اگرچہ کے عمر خالد اس ہجوم کا حصہ نہیں تھے لیکن ان پر اور خالد پر اس کیس میں مجرمانہ سازش کا الزام عائد کیا گیا تھا۔