طنز و مزاحمضامین

کاش،نہ لگواتے کال بیل

محمد اسد اللہ

گزشتہ ہفتہ ہی کی بات ہے۔ ایک آدمی عین سٹرک کے درمیان بس سے کچل کرمرگیا۔ بیچارے کی بے بسی دیکھیے کہ سفر ِآخرت کے لیے بھی اسے بس ہی پکڑنی پڑی۔ اس خبرمیں ہمارے لیے عبرت کا سامان ہو تو ہو، دلچسپی کا سامان موجود نہیں۔
مزے کی بات یہ ہے کہ مرنے والے کی جیب سے نکلنے والے پرس میں کاغذ کے ایک پرزے پرایک ایسی تحریر دستیاب ہوئی جسے پڑھ کر یقین کرلیا گیا کہ وہ خودکشی کا واقعہ تھا، کا غذ پر لکھا تھا:
”کاش ہم نے اپنے دروازے پر کال بیل نہ لگوائی ہوتی۔“
اگر آپ کے گھر کے دروازے پر کال بیل لگی ہوئی ہے بشرطیکہ وہ بجتی بھی ہو تو آپ کو بھی یقین آ گیا ہو گا کہ وہ خودکشی کا واقعہ تھا۔
مگرصاحب مجھے بالکل یقین نہ آیا۔ میں نے اپنی تمام جیبیں ٹٹول ڈالیں اورایک، ٹھنڈی سانس لی، جیبیں ٹٹولنے کی وجہ توبعد میں بتاؤں گا، یقین نہ آنے کا سبب سن لیجیے۔
بات دراصل یہ ہے کہ مجھے اچھی طرح معلوم ہے دروازے پرکال بیل فِٹ کروانے کے بعد مصیبتوں کا جو سلسلہ شروع ہوتا ہے، اسے خودکشی کرکے بھی نہیں ٹالا جا سکتا۔ میرا ایمان ہے کہ مرنے کے بعد بھی دستکوں سے آدمی کو چھٹکارا نہیں مل سکتا۔
کال بیل تو دستک کا ماڈرن روپ ہے۔ اگر قدیم زمانے میں کال بیل کا رواج ہوتا تو قبروں پر کتبے کی جگہ کال بیل ضرور لگوانی جاتی، تاکہ منکر نکیر سوالات پوچھنے آئیں تو کال بیل کا بٹن دبا کر ہی اندر داخل ہوں۔
اب آئیے، میں اپنی جیبیں ٹٹولنے کا راز بتاؤں۔ ہوا یہ کہ ریڈیو والوں نے میرے ریڈیو ٹاک کے لیے ایک عنوان تجویز کیا تھا:
”کاش! ہم نے اپنے دروازے پر کال بیل نہ لگوائی ہوتی۔“
میری یاد داشت ماضی قریب میں کئی عملی لطیفے بنا چکی ہے، اس لیے احتیاطاً میں نے کاغذ کے ایک پُرزے پر یہ عنوان لکھا اور اسے اپنے پرس میں رکھ کر بس میں سوار ہو گیا۔ بس چل پڑی تو میں نے سوچ کی پتنگ خیالوں کے آسمان میں چھوڑ دی۔ سوال یہ ہے کہ میں نے وہ کاغذ کا پرزہ پرس میں کیوں رکھا؟
دراصل میں خیالوں کی بلندی تک پہنچناچاہتا تھا اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ آدمی اس وقت اونچا اڑتا ہے جب اس کی جیب یا پرس میں کچھ موجودہو—— میں سوچ میں ڈوبا ہوا تھا، اسی سوچ میں میرا بیٹرا غرق ہوا۔ اسی دوران جیب کترے نے میرے پرس پر ہاتھ صاف کر دیا۔ آگے کا حال تو آپ کومعلوم ہی ہے۔
بہت پہلے میں نے دروازے پر کال بیل لگوائی تھی، اس زمانہ میں اس کا فیشن چل پڑا تھا۔ کال بیل کی ضرورت تو ہمیں آج بھی نہیں ہے، لیکن اب وہ فیشن چونکہ ضروریاتِ زندگی میں شامل ہو چکا ہے۔اس لیے کال بیل کی گھنٹیوں کو اور ان گھنٹیوں کے پیچھے سے برآمد ہونے والے لوگوں کو اب ہم بھی بھگت رہے ہیں۔ ایک مدت تک جب میں نے اپنے آپ کو فیشن سے بچائے رکھا تو ایک دن فیشن ضرورت کا چولہ بدل کر میرے گھرمیں داخل ہو گیا۔
ہمارے گھر کا صدر دروازہ بیڈروم سے اتنی دوری پر واقع تھا جتنا کسی شیخی باز آدمی کی باتیں حقیقت سے دور ہواکرتی ہیں۔ اور پڑوسی ایک دوسرے کے اس قدر ہمدرد تھے کہ نہ صرف ایک دوسرے کا دکھ درد بانٹتے بلکہ اپنے ریڈیومیں بجنے والے فلمی گانوں کی آواز سے پڑوسیوں کو فیض پہنچانا بھی اپنا اوّلین فرض سمجھتے تھے۔
چنانچہ ایک دن دسمبر کی صبح ہوگی، ہم نے دروازہ کھولا تودیکھا، سامنے برف کا ایک مجسمہ پڑا ہے۔ ہم اسے اٹھا کر رسوئی گھر میں لے گئے اور اسٹو پر رکھا۔ اس مجسمے نے پر پرزے نکالنے شروع کیے تب پتہ چلا کہ وہ ہمارے مرزا صاحب تھے جو بیچارے رات بھر دروازہ پیٹتے رہے۔ کبھی ہمیں اور کبھی اپنی قسمت کو کوستے رہے مگر ہمیں خبر نہ ہوئی۔ان کے مشورے سے میں نے اگلے دن کال بیل فٹ کروالی۔
یوں تو یہ ایک معمولی سا واقعہ تھا دستک کی جگہ گھنٹی کی آواز نے لے لی تھی، لیکن مجھے محسوس ہوا گویا میں بیل گاڑی سے اتر کر ریل گاڑی میں سوار ہوگیا ہوں۔ کہاں وہ بیل گاڑی کی گھنٹیوں کا سہانا نغمہ جودستک میں پوشیدہ ہے اور کہاں کال بیل کی ریل گاڑی کی سی چنگھاڑ!
پہلے ہم دروازے پر دستک سن کراس رفتارسے دروازے تک پہنچتے تھے جس رفتار سے مرغی کے چوزے انڈوں سے برآمد ہوتے ہیں، گھر میں کال بیل لگی تویوں محسوس ہوا کہ شیطانوں کی عجلت پسندی اورمشینی آدمی کی میکانکیت ہماری زندگی میں داخل ہوگئی ہے۔
ہر آنے والے سے ہم جتنی جلد ملاقات کرتے اتنی ہی جلد اسے چلتا کرنے کی کوشش کرتے۔ معلوم تھاکہ پھر کوئی اور کال بیل کا بٹن دبا بیٹھے گا۔ اتفاق دیکھیے کہ کال بیل لگتے ہی گلی میں چھوٹے چھوٹے شیطانوں کا ظہور عمل میں آیا، جو ہر وقت اس کے بٹن سے لٹکے رہتے۔
یوں ہواکہ ان کے دس بار کال بیل کابٹن دبا کر غائب ہو جانے پر بیزار ہوگیا اور گیارہویں مرتبہ دروازہ نہ کھولا، کہ ان اچکوں کے سوا اور کون ہوسکتا ہے۔ تب اگلے دن پتہ چلا کہ وہ گیارھواں کھلاڑی در اصل پوسٹ مین تھا جو ایک منی آرڈرلایا تھا اب اس کی تلاش میں پوسٹ آفس تک اتنے رن بنانے پڑے کہ سنچری ہوگئی۔
کال بیل کی آواز کو میں برقی دستک کہا کرتا ہوں۔ گلی کے شریر لڑکوں کی ان جعلی دستکوں اور مہمانوں کی اصل دستکوں میں فرق کرنا بڑا مشکل کام ہے۔
ایک دن میں اپنے دوست کے گھر گیا جو اسی قسم کے جھوٹے شیطانوں سے پریشان تھے، چنانچہ میں نے کال بیل کی بٹن پش کی تو اندر سے ان کے صاجزادے کی ڈانٹ سنائی دی جو اپنے چھوٹے بھائی کو ڈانٹ رہا تھا۔
”ارے، دروازہ مت کھولنا، پوٹٹا بیل بجارہا ہے۔“
اس سے پہلے کہ وہ کوئی اورگستاخی کر بیٹھے ہمیں فوراً ا پنی آواز کا سہارا لے کر بتا نا پڑا کہ،”یہ ہم ہیں۔“
ایک شام کا ذکر ہے، ہم نے کال بیل کی آواز سن کر دروازہ کھولا تو سامنے ایک صاحب کھڑے تھے،کہنے لگے۔
”یہاں جو ڈاکٹر سمیع اللہ رہتے ہیں۔“
میں نے پوچھا۔ ”وہی جو کانوں کے اسپیشلسٹ ہیں؟“
کہنے لگے”ہاں وہی۔“ میں نے اشارے سے بتایا کہ بغل ہی میں ان کا مکان ہے اس پر شخص دودھ سے بھرا ہوا برتن میری طرف بڑھاتا ہوا بولا۔
”صاحب آدھے گھنٹے کے بعد یہ انھیں دے دیجیے گا۔“
میں نے اس سے پوچھا،
”یہ کارخیر تم خود کیوں نہیں کر لیتے۔“
اس پر وہ کہنے لگا،
”صاحب ان کے گھر کال بیل نہیں ہے اور ٹی وی پرکوئی فلم چل رہی ہے، دروازہ پیٹ پیٹ کر تھک گیا ہوں، فلم ختم ہوجائے تو آپ انھیں دودھ دے دیجیے گا۔“
اسی طرح ایک رات تقریباً ۱۲بجے ہوں گے، کال بیل بج اٹھی۔ دروازہ کھولا تو سامنے ایک آدمی، جو حلیے سے مزدور نظر آتا تھا، آگے آیا اور کہنے لگا ”میرے بچے کے پیٹ میں اچانک زور دار درداٹھا ہے، میں یہاں نیا آیا ہوں کسی نے آپ کا نام بتایا، میرے ساتھ ساتھ چلیے مہربانی ہوگی۔“
میں نے اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ، بھائی میں توادب کا ڈاکٹر ہوں،میرے رشحاتِ قلم نے تو اردو ادب کا ہاضمہ خراب کر رکھا ہے میں تیرے بچے کا کیا علاج کروں۔“ اس پروہ بولا،
”حضور! میں ادب کے ساتھ آپ کے ہاتھ جوڑتا ہوں آپ کچھ بھی کیجیے، میرے ساتھ چلیے۔“
آخر اپنی جان چھڑانے کے لیے میں نے اسے ایک ایم۔ بی۔ بی۔ایس ڈاکٹر کا پتہ بتایا تو وہ کہنے لگا ”صاحب،میں ان کے پاس گیا تھا، آنگن میں ایسا خطرناک کتّا ہے کہ کال بیل تک پہنچنا مشکل اور آواز دے دے کر میرا گلابیٹھ گیا ہے کیا کروں؟“
میں نے اسے سمجھایاکہ کتّا زنجیر سے بندھا ہو تو اسی سے چھیڑ چھاڑ کرو،صاحب لوگوں کو کتّا اور کال بیل دونوں عزیز ہوتے ہیں۔کتّا بھی ایک کال بیل ہی ہے صاحب ضرور جا گیں گے۔“ وہ تو چلاگیا مگرمیں سوچتا رہا، کاش میں نے بھی ایک کتّا پالا ہوتا یا کاش ہم نے اپنے گھر کے دروازے پر کال بیل نہ لگوائی ہوتی۔