مذہب

نماز میں ترجمہ پر توجہ

اگر کوئی شخص ترجمہ سے واقف ہو،اور کلمات ِ قرآنی کو پوری توجہ سے سنتے ہوئے اپنے ذہن کو اس کے معانی کی طرف توجہ رکھے تو کچھ حرج نہیں ،

سوال:- نماز میں سورۂ فاتحہ اور سورتوں کا ترجمہ سوچنااور اس پر غور و فکر کرنا کیسا ہے؟ اگر اس طرح کیاجائے تو دھیان ادھرادھر نہیں جاتا؟(محمد حمید اللہ ،گولکنڈہ)

متعلقہ خبریں
پسینہ کی بدبو کی وجہ سے اسپرے کا استعمال
استقبالِ رمضان میں، نبی کریمؐ کا ایک جامع وعظ
مسجد الحرام اور مسجد نبویؐ میں نمازیوں کو ماسک پہننے کا مشورہ
نماز تراویح کیلئے حفاظ کا نظم
فُضلات سے تیار شدہ گیس

جواب:- اگر کوئی شخص ترجمہ سے واقف ہو،اور کلمات ِ قرآنی کو پوری توجہ سے سنتے ہوئے اپنے ذہن کو اس کے معانی کی طرف توجہ رکھے تو کچھ حرج نہیں ،

کیونکہ قرآن کی بالخصوص جہری تلاوت کامقصد ظاہر ہے کہ صرف الفاظِ قرآنی سے کان کو محظوظ کر نا نہیں ،بلکہ اس کے معانی ومقاصد بھی مطلوب ہیں،

اگر قرآن کے معانی پر بھی توجہ ہو ،تو نماز میں خشوع اور انابت الیٰ اللہ کی کیفیت بڑھ جاتی ہے ،اس لئے اس میں کوئی مضائقہ نہیں ،

ہاں معانیٔ قرآن کے سواء دوسری باتوں کی طرف قصداًذہن کومتوجہ رکھنا مکروہ ہے،لیکن نماز اس سے بھی فاسد نہیں ہوتی ،

علامہ ابن نجیم مصریؒ لکھتے ہیں کہ اگر نماز میں غور وفکر کرے اور شعر اور خطبہ یادکر لے ،اور ان د ونوں کو دل ہی دل میں پڑھ لے ،زبان سے اس کا تکلم نہ کرے ،تو نماز فاسدنہیں ہوگی۔’’فقرأ ھما بقلبہ و لم یتکلم بلسانہ ، لاتفسد صلاتہ‘‘(البحر الرائق :۲/۱۵ )