حیدرآباد

اسلام کیخلاف سازشیں قدیم طریقہ کار‘ ناامید نہ ہونے مولانا خالد سیف اللہ رحمانی کا مشورہ

مسلم حکمرانوں کے دور کو مسخ کرتے ہوئے بتایا جا رہا ہے۔دوسرے الفاظ میں تاریخ کو بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔رسول اکرم ؐکی ذات مبارک کو نشانہ بنانے کی کوششوں میں اضافہ ہوا ہے۔

 حیدرآباد: صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ مولانا خالد سیف للہ رحمانی نے کہا کہ موجودہ دور میں دین حنیف اسلام کے خلاف غلط فہمیاں پھیلانے کی کوششیں بہت بڑھ چکی ہیں۔اسلام سے نفرت پھیلانے میں میڈیا سب سے آگے ہے۔

متعلقہ خبریں
زیمرس ادبی فورم کے زیر اہتمام ”بیٹی اور والدین کے رشتہ کی اہمیت“ کے موضوع پر سمینار
مولانا مفتی حافظ سید ضیاء الدین نقشبندی کو ڈاکٹریٹ کی ڈگری
مسلمان فلسطین اور ملک کے پارلیمانی الیکشن کے لئے دعا کا اہتمام کریں : صدر مسلم پرسنل لاء بورڈ
عورت کا حق میراث اور اسلام
مہر کی کم سے کم مقدار

المعہد العالی الاسلامی حیدرآباد میں منعقدہ مذاکرہ بہ عنوان اسلا موفوبیا اور مسلم صحافیوں کا مطلوبہ کردار سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اسلام سے خوف کوئی نئی بات نہیں ہے۔ انبیا ء ؐکے دور سے ہی دین اسلام کے خلاف خوف زدہ سازشیں جاری ہیں۔

حضرت محمد ؐکے زمانے میں بھی مسلمانوں کے خلاف سماج کو خوف میں مبتلا کرنے اور اسلام کے خلاف غلط فہمیاں بڑھانے کی کوشش کی جاتی رہی۔ مسلمانوں کو ڈرایا دھمکایا جاتا رہا۔

سب سے پہلے حضرت سمیّہ کو ہجومی تشدّد کو نشانہ بنایا گیا۔مولانا نے کہا کہ کئے صحابہ نے اعتراف کیا تھا کہ وہ خوف میں تھے مگر حضرت محمد ؐسے ملاقات اور ان کے ساتھ رہنے کے بعد ان کا خوف غلط ثابت ہوا۔

انھوں نے کہا کہ جب فرضی باتوں کو فروغ دیا جاتا ہے اور ان کو ثابت کرنے کے لئے دلائل نہیں رہتے تو حق کو بدنام کرنے غلط فہمیاں پیدا کی جاتی ہیں۔ایسا پہلے بھی ہوتا تھا اور آج بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔

حضور اکرمؐ کے دور میں شروع  شروع مسلمانوں کے خلاف تشدد کا سہارا لیا گیا مگر جب یہ حربہ ناکام ہو گیا تو ہجومی تشدد کا آغاز ہوا سماجی بائیکاٹ بھی کیا گیا۔

عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی آج جو کچھ بھی ہم دیکھ رہے ہیں ظہور اسلام کے وقت بھی تھا۔مولانا نے کہا کہ آج اس مذموم کردار کو میڈیا ادا کر رہی ہے جبکہ سابق میں یہ کام شاعر انجام دیتے تھے۔

مولانا نے کہا کہ دین اسلام کی فکر دلیل پر ہے۔ اس لئے مخالفین نیچا نہیں دکھا پا رہے ہیں اسی لئے اسلام سے خوفزدہ کرنے کی مذموم کوشش جاری ہیں۔ایسے حالات میں ہم کو نا امید نہیں ہونا ہے‘ بلکہ دلائل کے ذریعہ حالات کا مقابلہ کرنا ہے اور برادران وطن میں دین مبین کے خلاف پائی جانے والی غلط فہمیوں کو دور کرنا ہے۔

ان حالات میں ارتداد کا خطرہ بڑھ جاتا ہے مگر ہم  ان خطرات سے ابھر کر ایمان کی حفاظت کرنے میں کامیاب رہے۔مگر 1992 میں بابری مسجد کی شہادت کے بعد ہم کمزور ہو گئے اور احساس کمتری میں مبتلاء ہو گئے  اور مخالف مسلم سرگرمیوں میں بہت زیادہ تیزی آئی ہے۔

 اس تلخ حقیقت کے باوجود اسلام کی کشش اور مسلمانوں کی دین سے اٹوٹ وابستگی نے ہم کو دین پر ثابت قدم رکھا۔مولانا نے کہا کہ 2014 میں ملک میں اقتدار ایک جماعت سے دوسری جماعت کو منتقل ہوا مگر سیاست کے پردے میں نظریات اور فکری جنگ کا آغاز ہوا۔

برہمننیت نے تمام طبقات کو اپنے زیر اثر لانے کی کوشش کی مگر ان کوششوں کے آگے مسلمان لوہے کے چنے ثابت ہوئے۔اپنی ناکامی کو دیکھ کر ان قوتوں نے اپنی کوششوں میں شدّت پیدا کی ہے۔قران کے پیغام اور تعلیمات میں الٹ پھیر کرتے ہوئے بتانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔شریعت مطہرہ کو غلط انداز میں پیش کیا جا رہا ہے۔

مسلم حکمرانوں کے دور کو مسخ کرتے ہوئے بتایا جا رہا ہے۔دوسرے الفاظ میں تاریخ کو بدلنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔رسول اکرم ؐکی ذات مبارک کو نشانہ بنانے کی کوششوں میں اضافہ ہوا ہے۔ آر ایس ایس ملک پر اپنی فکر کو تھوپنا چاہتی ہے۔

مولانا نے کہا کہ صلیبی جنگوں کے خاتمہ کے بعد مغرب نے مشرقی علوم کے تحقیق کے نام پر اسلام کو نشانہ بنانا شروع کیا تھا۔ آج یہودیوں کی جانب سے اسلام کے خلاف جمع کردہ جھوٹا مواد کو سنگھ پریواراستعمال کرتے ہوئے نفرت پھیلانے میں مصروف ہے۔

انہوں نے کہا اس نفرت انگیز ماحول میں مسلم صحافیوں پر بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔صحافیوں کو اسلام اورمسلمانوں کے خلاف بدگمانیوں کو دور کرنے کردار ادا کرنا ہے۔ خاص طور پر سوشل میڈیا کا بہتر انداز میں استعمال کرتے ہوئے برادران وطن تک اسلام کی صحیح صورت اور عمدہ تعلیمات کو پیش کیا جا سکتا ہے۔

میڈیا میں اسلام کے خلاف جن سوالات کو اٹھائے جارہے ہیں ان کا سہل مگر مدلل جواب بر وقت فراہم کرنا چاہیے۔سماج میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف موجود غلط فہمیوں اور گمرہ پروپگنڈے کا قرآن اور حدیث کی روشنی میں جواب دیں  تاکہ مخالفین اسلام اور برادران وطن کے ذہنوں کو صاف کیا جا سکے۔

 اگر ایسا نہیں کیا گیا تو ارتداد کا خطرہ بڑھ جائے گا۔اس اجلاس کے دوران چنندہ صحافیوں سے تجاویز بھی طلب کی گئیں۔اجلاس میں مفتی عمر عابدین‘ایگزکیٹیو ایڈیٹر روزنامہ منصف اطہر معین  بیورو چیف روزنامہ منصف محمد عبدالرحمان خان‘ نمائندہ سیاست مبشرالدین خرّم‘ ریاض احمد‘ نمائندہ اعتماد شجاع الدین افتخاری، نصیر غیاث،میر ایوب علی خان، ابو ایمل، محمد فاروق،سوشل میڈیا انفلونسرعبدالرزاق شہباز خان ودیگر صحافی نے شرکت کی۔