مشرق وسطیٰ

15سالہ نوجوان نے فلسطینیوں کے گھروں کی دوبارہ تعمیر کے لیے اپنی ساری جمع پونجی دیدی

فلسطینیوں کے مشکل معاشی حالات کے باوجود صرف چند دنوں کے اندر نصف ملین شیکل (تقریباً 140,000 ڈالر) جمع کئے گئے اور اس رقسم سے دو نئے مکانات کی خریداری کے لیے مالی اعانت فراہم کردی گئی۔

یروشلم: فلسطین میں تقریباً ایک سال قبل 15 سالہ مصعب عبدالحق نے ایک نئی الیکٹرک بائیک خریدنے کے لیے اپنا یومیہ الاؤنس بچا لیا تھا تاکہ نیا تعلیمی سال شروع ہو تو اسے آنے جانے میں مدد مل سکے۔

متعلقہ خبریں
نتن یاہو کے استعفیٰ تک پارلیمنٹ کے سامنے احتجاج جاری رہے گا: اسرائیلی مظاہرین
غزہ میں پہلا روزہ، اسرائیل نے فلسطینیوں کو مسجد اقصیٰ میں داخل ہونے سے روک دیا
وزیر خارجہ ملایشیا، فلسطین کو اقوام متحدہ کی رکنیت کی وکالت کریں گے
اسرائیلی فائرنگ میں پانچ افراد فوت
اسرائیلی آبادکاروں کا مسجد اقصیٰ کے صحنوں میں دھاوا

تاہم اسرائیل مخالف کارروائیاں کرنے والے فلسطینیوں کے گھروں کی دوبارہ تعمیر نو کے حوالے سے چندے کی آواز اٹھی تو اس نے اپنی ساری جمع پونچی اس فنڈ میں جمع کرا دی۔

فلسطینیوں کے مشکل معاشی حالات کے باوجود صرف چند دنوں کے اندر نصف ملین شیکل (تقریباً 140,000 ڈالر) جمع کئے گئے اور اس رقسم سے دو نئے مکانات کی خریداری کے لیے مالی اعانت فراہم کردی گئی۔

فلسطینیوں کے درمیان شروع ہونے والی اس نئی مہم سے متاثرہ خاندانوں کو یقین دہانی کے پیغامات بھیجے گئے اور ان کی ضرورت کی ہر چیز فراہم کرنے میں مدد کرنے کے عزم کا اظہار کیا گیا ہے۔

مغربی کنارے کے سب سے بڑے فلسطینی شہر نابلس سے شروع کی گئی اس مہم کا مقصد دو اسیران کمال جوری اور اسامہ التاویل کے خاندانوں کی کفالت کے لیے مالی عطیات کی سب سے بڑی رقم جمع کرنا ہے۔ ان پر اسرائیل نے الزام لگایا ہے کہ یہ دونوں شہر کے مغرب میں واقع "شیوی شمرون” کی بستی کے قریب گزشتہ سال ایک فوجی کو ہلاک کرنے کا واقعہ میں ملوث تھے۔

نابلس کی طرح دیگر شہروں نے بھی مسمار کیے گئے مکانات کے مالکان کی حمایت کے لیے اسی طرح کی مہم شروع کردی اور مہم کو بڑے پیمنے پر عوامی حمایت حاصل ہوئی ہے۔

اسرائیلی حکومت نے 2005 اور 2014 کے درمیان رکے رہنے کے بعد 2015 میں تعزیری مقاصد کے لیے فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرنے کی پالیسی دوبارہ شروع کردی تھی۔ انسانی حقوق کی اسرائیلی مرکز ’’ بیتسیلم‘‘ کے مطابق جون 2014 میں ان فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کیا گیا تھا جنہوں نے الخلیل شہر میں تین یہودی آباد کاروں کو اغوا کیا تھا۔

مرکز کے مطابق مکانات کو مسمار کرنا ایک انتظامی طریقہ کار ہے جو 1945 میں برطانوی مینڈیٹ کی طرف سے جاری کردہ "ایمرجنسی ڈیفنس ریگولیشنز آف 1945” کے آرٹیکل 119 کی بنیاد پرلاگو کیا جاتا ہے۔ بغیر کسی مقدمہ اور ثبوت کے گھروں کو مسمار کردیا جاتا ہے۔

اسرائیلی ویب سائٹ "واللا” کے مطابق فوج کے حکام مغربی کنارے میں اسرائیل مخالف کارروائیوں میں ملوث فلسطینیوں کے گھروں کی تعمیر نو کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کی مہموں سے خوفزدہ ہیں کیونکہ اس کی وجہ سے فوج کی گھروں کو گرانے کی پالیسی ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔

اس مہم کے سرکردہ افراد میں سے ایک مازن دونبک کا خیال ہے کہ فلسطینیوں کے عطیات سے مسمار کیے گئے مکانات کی تعمیر نو اسرائیلی اقدامات کے خلاف فلسطینی عوام کی ہم آہنگی کی عکاسی کر رہی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ سب سے کم بات ہے ہے کہ ہم قومی قربانیاں دینے والے شہداء اور قیدیوں کے خاندانوں کے حوالے سے ثابت قدم ہوکر سامنا کریں اور اپنے ساتھیوں کو یہ باور کرائیں کہ اسرائیل کا مقابلہ کرنے میں وہ اکیلے نہیں ہیں بلکہ پوری فلسطینی قوم ان کے ساتھ ہے۔

"شیرین” الیکٹرانک آبزرویٹری کے مطابق اس سال کے آغاز سے اسرائیل نے فلسطینیوں کی کارروائیوں کی وجہ سے تعزیری اقدام کے طور پر 15 مکانات مسمار کیے ہیں۔ اس مہم میں کل 512 فلسطینی تنصیبات کو مسمار کیا جا چکا ہے جن میں 168 مکانات بھی شامل ہیں۔

اسرائیلی مسماریوں کی وجہ سے فلسطینیوں کو بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ کم از کم 627 فلسطینیوں کی نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا۔ بے گھر ہونے والے ان افراد میں نصف خواتین اور بچے بھی تھے۔

عبداللہ الحوریانی سینٹر فار سٹڈیز اینڈ ڈاکومینٹیشن (آزاد) نے رپورٹ کیا ہے کہ اسرائیلی حکام نے 1967 سے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں ایک لاکھ سے زیادہ مکانات جزوی اور 50 ہزار مکانات مکمل طور پر مسمار کردئیے ہیں۔

انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم "ہیومن رائٹس واچ” کا خیال ہے کہ اسرائیلی حکومت کی جانب سے ان فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرنے کا عمل جن پر کارروائیوں کا الزام ہے جنگی جرم اور اجتماعی سزا ہے جس سے معصوم لوگوں کو نقصان پہنچتا ہے۔

مبصرین کا خیال ہے کہ اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کے مکانات کی مسماری 1949 کے چوتھے جنیوا کنونشن کے آرٹیکل 33 کی خلاف ورزی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی محفوظ شخص کو اس خلاف ورزی کی سزا نہیں دی جا سکتی جس کا اس نے ذاتی طور پر ارتکاب نہیں کیا۔

یاد رہے اسرائیلی میڈیا کے مطابق سال کے آغاز سے اب تک ہونے والی فلسطینی کارروائیوں کے نتیجے میں ہلاک ہونے والے اسرائیلیوں کی تعداد 28 تک پہنچ گئی ہے اور یدیعوت احرونوت اخبار نے گزشتہ ماہ بتایا تھا کہ ان کی تعداد میں 2022 کے مقابلہ میں 28 فیصد اضافہ ہوا ہے۔