حیدرآباد

اکثریتی طبقہ کی قدامت پسند تنظیموں پر پابندی کیوں نہیں؟ : اسداویسی

رکن پارلیمنٹ حیدرآباد اسد اویسی نے کہا کہ انہوں نے پی ایف آئی کے طریقہ کار کی کبھی تائید نہیں کی تھی ان کی تائید جمہوری طریقہ کار کے ساتھ ہے مگر پھر بھی پاپلر فرنٹ پر عائد کردہ پابندی کی تائید نہیں کی جاسکتی۔

حیدرآباد: صدر کل ہندمجلس اتحاد المسلمین ورکن پارلیمنٹ حیدرآباد اسد الدین اویسی نے پاپلر فرنٹ آف انڈیا پر مرکزی حکومت کی جانب سے عائد کردہ پابندی پر تنقید کرتے ہوئے سوال کیا کہ کیوں اکثریتی طبقہ کے قدامت پسند تنظیموں پر پابندی عائد کیوں نہیں کی گئی۔

 آج یہاں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے رکن پارلیمنٹ حیدرآباد نے کہا کہ انہوں نے پی ایف آئی کے طریقہ کار کی کبھی تائید نہیں کی تھی ان کی تائید جمہوری طریقہ کار کے ساتھ ہے مگر پھر بھی پاپلر فرنٹ پر عائد کردہ پابندی کی تائید نہیں کی جاسکتی۔

 انہوں نے کہا کہ اس طرح کی سخت پابندی خطرناک ہے۔ یہ پابندی کسی بھی مسلمان کے خلاف ہے جو اپنے نظریات ظاہر کررہا ہے۔ جس طرح ہندوستانی حکومت فسطائت کی طرف جارہی ہے، کسی بھی مسلم نوجوان ہندوستان کے سیاہ قانون یو اے پی اے کے تحت محض ایک پی ایف آئی کے پمفلٹ کے ذریعہ گرفتار کیا جاسکتا ہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ کیوں پی ایف آئی پرپابندی عائد کی گئی جبکہ  درگاہ خواجہ اجمیری میں بم دہماکوں کے مجرمین جن جماعتوں سے وابستہ ہیں اُن قدامت پسند اکثریتی طبقہ کی تنظیموں پر پابندی عائد نہیں کی گئی۔

اسد الدین اویسی نے کہا کہ چند افراد کے جرائم میں ملوث ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ادارے اور جماعت پر پابندی عائد کردی جائے اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے بھی تبصرہ کیا تھا۔ کہ محض کسی ادارے سے وابستگی کی بنیاد پر کسی کو سزانہیں دی جاسکتی۔

 انہوں نے کہا کہ عدالتوں کے فیصلہ صادر ہونے تک مسلمانوں نے کئی دہے قید میں گذارے میں نے UA PA کی مخالفت کی ہے اور ہمیشہ کرتا رہوں گا۔ یہ قانون آزادی کے اصول کے خلاف ہے۔ جو دستور کا بنیادی حصہ ہے۔

صدر مجلس نے کہا کہ کانگریس نے UAPA کو سخت بنانے ترمیم کی تھی اور بی جے پی نے مزید سخت ترین بنانے کیلئے ترمیم کی بی جے پی کی اس کوشش کی کانگریس کی تائید کی تھی۔ اس قانون کے خطرناک ہونے کا اس بات سے بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ کپن جیسے صحافی کو بغیر کوئی جرم کے گرفتار کیا جاتا ہیاور انہیں ضمانت حاصل کرنے کیلئے دوسال لگ جاتے ہیں۔