حیدرآباد

راجہ سنگھ کی فوری رہائی کے امکانات موہوم

جہاں تک پی ڈی ایکٹ کو لاگو کرتے ہوئے راجہ سنگھ کو جیل بھیجنے کا معاملہ ہے اُن کی رہائی فی الفور نہ ہوسکے گی اور وہ چند ہفتوں تک بلکہ چند مہینوں تک جیل میں رہ سکتے ہیں۔

حیدرآباد: بی جے پی کے معطل شدہ  رکن اسمبلی گوشہ محل معلون راجہ سنگھ کی رہائی  اور اس کے دوسرے دن ہی حیدرآباد پولیس کی جانب سے قانون احتیاطی حراست (پریونٹیو ڈیٹنشن ایکٹ) کے تحت گرفتاری اور جیل بھیج دئیے جانے پر بہت سے ذہنوں میں شبہات پائے جاتے ہیں۔

 مسلمانوں کے ایک طبقہ کا خیال ہے کہ یہ سب کچھ آنکھوں میں دھول جھونکنے کی ایک کوشش ہے چونکہ پولیس حکام کو یہ خدشہ تھا کہ راجہ سنگھ کے آزاد گھومتے رہنے سے شہر کے مسلمانوں کا غصہ ٹھنڈا نہیں ہوگا اس لئے جمعہ کو پرامن گزار دینے کے لئے یہ ہتھکنڈہ اختیار کیا گیا ہے۔

 ان لوگوں کا ماننا ہے کہ پولیس نے جان بوجھ کر قانونی خامیاں رکھی ہیں تاکہ ایک طرف مسلمان بھی خوش ہوجائیں اور دوسری طرف فرقہ پرست طاقتیں بھی مطمئن ہوجائیں مگر حقیقتاً ایسا نہیں ہوگا، یقینا پولیس نے جب راجہ سنگھ کو کل گرفتار کیا تھا اُنہیں عدالت میں پیش کرتے ہوئے  درکار قانونی کارروائی کو ملحوظ نہیں رکھا جس کا فائدہ راجہ سنگھ کے وکیل نے اُٹھاتے ہوئے  اُن کی رہائی کو یقینی بنایاتھا۔

جہاں تک پی ڈی ایکٹ کو لاگو کرتے ہوئے راجہ سنگھ کو جیل بھیجنے کا معاملہ ہے اُن کی رہائی فی الفور نہ ہوسکے گی اور وہ چند ہفتوں تک بلکہ چند مہینوں تک جیل میں رہ سکتے ہیں۔ پی ڈی ایکٹ کے مطابق جب کسی شخص کو جیل بھیج دیاجاتا ہے تو اُس تاریخ کے اندرون ایک ماہ ایک اڈوائزری کمیٹی حکومت کو تشکیل دینی ہوگی اور اُس کے روبرو اُس شخص کی احتیاطی گرفتاری کے ناگزیر ہونے کی وجوہات پیش کرنی ہوگی۔

اِس کمیٹی کے روبرو متاثرہ شخص اور اُس کے ارکان خاندان بھی اپنا مدعا پیش کرسکتے ہیں۔ اس قانون کے مطابق اڈوائزری کمیٹی کو معاملہ  اُس سے رجوع کرنے کی تاریخ سے اندرون 10 ہفتوں کے اندر اپنی رپورٹ حکومت پیش کرنا ہوگا۔

حکومت کو اختیار حاصل ہوگا کہ اِس رپورٹ کے مطابق حراست کو جاری رکھے یا پھر مقید شخص کو رہا کردے۔ اِس طرح کسی فرد کی اِس قانون کے تحت حراست کو عمومی طورپر کمیٹی کی رپورٹ کے ادخال کے بعد ہی چیلنج کیاجاسکتا ہے۔

 اِس لحاظ سے راجہ سنگھ کی کم ازکم تین ماہ بعد ہی رہائی عمل میں آئے گی۔ البتہ اِس بات کا امکان بھی ہے کہ ہائیکورٹ راجہ سنگھ کی درخواست پر غور کرتے ہوئے اُس کا جائزہ لے اور اُن کی رہائی کے احکام جاری کرے۔

 ایسا ہوتا بھی ہے تو کم ازکم وہ 4 تا 5 دنوں تک جیل میں ہی محروس رہیں گے کیونکہ  اگر کل راجہ سنگھ کی طرف سے ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی جاتی ہے تو اُس صورت میں بھی اُس پر سماعت کیلئے ممکن ہے کہ ہائیکورٹ مدعی علیہان کو نوٹس جاری کرے اور سماعت کی آئندہ تاریخ29 اگست مقرر کرے۔

جہاں تک کل XIV ویں ایڈیشنل چیف میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ کی جانب سے راجہ سنگھ کو رہا کردینے کا سوال ہے اُس پر ماہرین قانون نے سوال اُٹھایا ہے کہ نہ صرف پولیس عہدیدار وں اور اسسٹنٹ پبلک پراسیکیوٹر نے عدالتی کاروائی کا خیال نہیں رکھا وہیں مجسٹریٹ نے بھی غلطی کی ہے۔

 اُن کا کہنا ہے کہ جب پولیس کی درخواست تحویل کو ہی واپس لوٹادیا گیا تو پھر مجسٹریٹ نے اُنہیں 20 ہزارروپئے کے شخصی مچلکہ پر کس بنیاد پر ضمانت منظور کی ہے۔ شہر کے وکلاء نے یہ بھی بتایاکہ راجہ سنگھ کی ضمانت کیخلاف پولیس کا ہائیکورٹ سے رجوع ہونا بھی بڑا ہی معنی خیز ہوجائے گا۔

 ایک اور اہم بات یہ بھی ہے کہ پولیس کی اِس اپیل پر مقدمہ کل کی فہرست سماعت میں شامل نہیں ہے۔ ممکن ہے کل راجہ سنگھ کی طرف سے ہائیکورٹ میں درخواست داخل کی جائے۔ اِس لئے راجہ سنگھ کی فوری رہائی کے امکانات موہوم نظر آتے ہیں۔