حیدرآباد

عدالتی احکام کی بنیا دپر نکاح ناموں اور میاریج سرٹیفکیٹ کے نظام کو تباہ کرنے کی سازش

مسلم شادیوں کے رجسٹریشن کا نظام بانی جامعہ نظامیہ‘ استاذ سلاطین آصفیہ‘ فضیلت جنگ حضرت انوار اللہ فاروقی چشتی ؒکا قائم کردہ ہے‘ جو انتہائی شفاف اور بہترین انداز میں گذشتہ دیڑھ صدی سے زائد عرصہ سے جاری ہے۔

حیدرآباد: مولانا ابوالفتح سید بندگی بادشاہ قادری ریاض پاشاہ سجادہ نشین درگاہ شریف بالکنڈہ نظام آباد و رکن تلنگانہ اسٹیٹ وقف بورڈ نے کہا کہ دکن میں مسلم شادیوں کے رجسٹریشن کا نظام بانی جامعہ نظامیہ‘ استاذ سلاطین آصفیہ‘ فضیلت جنگ حضرت انوار اللہ فاروقی چشتی ؒکا قائم کردہ ہے‘ جو انتہائی شفاف اور بہترین انداز میں گذشتہ دیڑھ صدی سے زائد عرصہ سے جاری ہے۔

اس نظام کے تحت گذشتہ دیڑھ صدی کے مسلم شادیوں کے ریکارڈس نہ صرف محفوظ ہیں بلکہ اس نظام کو ملک کے دیگر علاقوں کے لوگ تحسین کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔ نکاح کے دستاویز نہ صرف متعلقہ قاضی بلکہ وقف بورڈ اور اسٹیٹ آرکائیوز میں تینوں جگہ محفوظ رہتے ہیں۔ اس نظام کو ریاستی و مرکزی سرکاری محکمہ جات‘ عدالتیں اور تمام بیرونی ممالک کے سفارت خانے تسلیم کرتے ہیں۔

وقف بورڈ سے مربوط اس نظام کو اگر عدالتی فیصلوں کی بنیاد پر اگر کمزور کیا جائے اور اس کی ہیئت تبدیل کرکے‘ سرکاری سطح پر میاریج سرٹفکیٹ کی اجرائی کے بجائے اگر خانگی طور پر قاضی حضرات عدالتی فیصلوں کو استعمال کرکے اپنے طور پر جاری کرنے کی کوشش کریں گے تو اس قوم ملت کو اجتماعی نقصان ہوگا۔ سرکاری طور پر وقف بورڈ کے ذریعہ سیاہہ ناموں کی اور میاریج سرٹفکیٹ کی اجرائی ایک امتیاز اور مسلمہ حیثیت رکھتی ہے۔

موجودہ پرآشوب دور میں نئے قوانین کے تحت جہاں شہریوں کو پریشان کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ایسے میں آدھار کارڈ‘ پاسپورٹس‘ فوٹو شناختی کارڈس‘ فیملی ویزا اور ایمگریشن کے امور سبھی چیزیں نکاح نامو ں اور میارج سرٹیفکیٹ سے مربوط ہیں۔ ایسے میں اگر اس نظام کو متاثر کیا جائے اور عدالت کے فیصلہ کی بنیاد پر اسے سرکاری طور پر وقف بورڈکے بجائے خانگی طور پر جاری ہونے لگے تو کوئی اسے تسلیم نہیں کرے گا۔

اس سے قوم کے ساتھ بددیانتی ہوگی اور یہ باتیں اجتماعی نقصان کا باعث ہوں گی۔ اس کے بعد مسلم شادیوں پر بھی دیگر ریاستوں کی طرح مسلمانوں کو سب رجسٹرار کے دفاتر کے چکر لگاکر میاریج کی رجسٹری کروانی پڑ گی۔ چونکہ حکومت کے محکمہ اقلیتی بہبود کی جانب سے قاضی حضرات کا تقرر کیا جاتا ہے۔ پرنسپال سکریٹری اقلیتی بہبود تلنگانہ کی جانب سے متعلقہ ضلع کلکٹر اور پولیس سے تحقیقات کے بعد کسی قاضی کا تقرر ہوتا ہے۔

موجودہ حالات میں عدالتی احکام کو پیش نظر رکھتے ہوئے تقرر کرنے والے مجاز عہدیدار کو ہی محکمہ اقلیتی بہبود کی جانب سے نکاح ناموں کی اجرائی اور میاریج سرٹیفکیٹ کی اجرائی کی ذمہ داری حاصل کرنی چاہیے۔ کمشنریٹ و ڈائرکٹریٹ اقلیتی بہبود کے پاس عملہ نہیں ہے۔

ریاستی وقف بورڈ کا عملہ چونکہ اس کام میں مہارت اور تجربہ رکھتا ہے۔ محکمہ اقلیتی بہبود اس کام کو آوٹ سورسنگ کے تحت وقف بورڈ کو دے کر کام لے سکتا ہے‘ وقف بورڈ کو اس کام کے سرویس چارجس دئیے جاسکتے ہیں۔ یہی اس مسئلہ کا آسان حل ہوسکتا ہے۔ مسلم قیادت اور ریاستی حکومت نظام قصات کے ضمن میں قانون سازی کرے تبھی اس مسئلہ کا حل ہوگا۔