جموں و کشمیر
ٹرینڈنگ

مسجد کی تعمیرکے لئے ایک خاتون کا عطیہ کیا گیا انڈا 2لاکھ 26 ہزار میں فروخت

کشمیر کے شہر سرینگر کے شمالی قصبہ سوپور کے ’مال ماپن پورہ‘ گاؤں میں ایک مسجد کئی ماہ سے زیرِتعمیر ہے۔ عید کے موقع پر مسجد کمیٹی نے گھر گھر جاکر نقد و جنس عطیات جمع کرنے کا فیصلہ کیا۔

کشمیر کے شہر سرینگر کے شمالی قصبہ سوپور کے ’مال ماپن پورہ‘ گاؤں میں ایک مسجد کئی ماہ سے زیرِتعمیر ہے۔ عید کے موقع پر مسجد کمیٹی نے گھر گھر جاکر نقد و جنس عطیات جمع کرنے کا فیصلہ کیا۔

متعلقہ خبریں
جموں و کشمیر میں اسمبلی الیکشن کب ہوگا، کانگریس کا سوال
کشمیر میں دہشت گرد ماڈیول بے نقاب
حزب المجاہدین کے خودساختہ کمانڈر بشیر احمد پیر کی جائیداد قرق
جیش محمد کا ماڈیول بے نقاب، 6 افراد گرفتار

لوگوں نے نقدی، برتن، مرغیاں، چاول وغیرہ عطیے میں دیے۔

مسجد کمیٹی کے ایک رکن نصیر احمد بتاتے ہیں ’ہم عطیات جمع کر رہے تھے کہ ایک چھوٹے سے گھر سے ایک خاتون سر جُھکائے چپکے سے میرے پاس آئی اور مجھے ایک انڈا پکڑا کر کہا کہ میری طرف سے یہ قبول کیجیے۔ نصیر کا کہنا ہے کہ یہ خاتون نہایت غریب بیوہ ہے اور ایک چھوٹے سے خستہ مکان میں اپنے اکلوتے بیٹے کے ساتھ رہتی ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ دوسری چیزیں تو بیچنے کے لیے دے دی گئیں ’لیکن میں پریشان تھا کہ اس انڈے کا کیا کریں؟‘

نصیر مزید کہتے ہیں کہ ’تھا تو وہ چھ روپے کا معمولی انڈا، لیکن اُس غریب خاتون نے جس جذبے کے ساتھ اسے خدا کی راہ میں دیا، اُس نے اس کو بہت قیمتی بنا دیا تھا۔‘

’لہذا میں نے کمیٹی کے دوسرے اراکین کو مشورہ دیا کہ انڈے کی بولی لگا دی جائے اور تین دن تک فروخت کے بعد انڈا واپس لیا جائے۔‘

نصیر نے مسجد میں خاتون کی شناخت خفیہ رکھتے ہوئے اعلان کیا کہ اس انڈے کو نیلام کیا جار ہا ہے اور انھوں نے اپنی جیب سے اس کے لیے دس روپے کی بولی لگا دی۔

نصیر کے مطابق پہلی آواز دس ہزارے روپے کی تھی اور اس طرح انڈے کی قیمت بڑھتی گئی۔

گاؤں کے سابق سرپنچ طارق احمد کہتے ہیں کہ صرف اڑھائی سو لوگوں پر مشتمل مال ماپن پورہ میں بڑی جامع مسجد نہیں تھی، اس لیے جامع مسجد کی تعمیر کا کام شروع کیا گیا، لیکن چھت تک پہنچ کر کام رُک گیا کیونکہ فنڈ نہیں تھے۔

وہ کہتے ہیں ’ہمیں معلوم نہیں تھا کہ محض ایک انڈے سے ہمیں سوا دو لاکھ روپے مل جائیں گے۔‘

مسجد کی انتظامیہ نے طے کیا تھا انڈے کی بولی صرف تین دن تک ہو گی۔ نصیر احمد کہتے ہیں دو دن تک لوگ انڈے پر 10، 20، 30 اور 50 ہزار تک بولی لگا چکے تھے، اور ہر بار انڈا واپس کر دیا جاتا۔

پھر اعلان کیا گیا کہ آخری دن شام سات بجے بولی بند ہو جائے گی، اور آخری بولی لگانے والے کو انڈا دیا جائے گا۔

اس بولی میں سوپور کے نوجوان تاجر دانش حمید بھی تھے۔

54 ہزار کی بولی پر جب دو بار اعلان ہوا، تو پچھلی صف میں بیٹھے دانش نے بلند آواز میں کہا ’70 ہزار‘۔

اس طرح یہ انڈا مجموعی طور پر دو لاکھ، چھبیس ہزار، تین سو پچاس روپے کے نقد عطیات جمع کر پایا۔

دانش نے بی بی سی کو بتایا ’حالانکہ ہمیں نہیں بتایا گیا کہ یہ انڈا کس کا تھا لیکن سب جانتے تھے کہ کسی غریب بیوہ نے یہ انڈا دے کر اپنے جذبات کا اظہار کیا ہے اور اُس بیوہ نے آسودہ لوگوں کو بڑھ چڑھ کر چندہ دینے پر آمادہ کیا۔‘