حیدرآباد
ٹرینڈنگ

ہندوتوا کا چہرہ مادھوی لتا جو حیدرآباد میں اویسی سے مقابلہ کرنے کی جرأت رکھتی ہیں، آخر کون ہے؟

مادھوی لتا کو ہندو مذہبی مقرر کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ ابتدا سے آر ایس ایس سے وابستگی ہندو مقاصد کے لئے رہی ہے جس کے لئے انہوں نے خوب محنت کی ہے۔ ایک کٹر ہندو کے طور پر رسم و رواج کی پابندی کرتی ہیں اور اپنے بچوں کو خود ہی گھر پر رامائن اور بھگوت گیتا کی تعلیم دی ہے۔

حیدرآباد: حلقہ لوک سبھا حیدرآباد 1984 سے مجلس (آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین) کا گڑھ رہا ہے جبکہ اسد الدین اویسی کے والد سلطان صلاح الدین اویسی نے اس نشست پر پہلی مرتبہ کامیابی حاصل کی تھی۔

متعلقہ خبریں
اسد الدین اویسی نے گھر گھر پہنچ کر عوام سے ملاقات (ویڈیو)
مادھوی لتا کو وائی پلس زمرہ کی سیکوریٹی، بی جے پی میں ایک گرما گرم موضوع بحث
بی جے پی کا اردو زبان میں پوسٹر کی اجرائی
انتخابی کام کیلئے بینک ملازمین کی کم تعداد کا استعمال کیاجائے
کے سی آر کا خاندان پہلی بار انتخابات سے دور

2004 سے یہ سیٹ ان کے فرزندِ اکبر اسد الدین اویسی کے پاس ہے۔ 2019 کے لوک سبھا انتخابات میں اسد الدین اویسی اور ان کے قریبی حریف بی جے پی کے بھگوانت راؤ کے ووٹوں میں تقریباً 3 لاکھ کا فرق تھا۔ یعنی اسد الدین اویسی نے تین لاکھ ووٹوں کی اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی۔

اب 2024 میں بی جے پی ڈاکٹر مادھوی لتا کو میدان میں اتار کر شاید مجلس کو پریشان کرنا چاہتی ہے۔

بی جے پی کے 195 لوک سبھا امیدواروں کی پہلی فہرست میں مادھوی لتا کا نام شامل تھا جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بھگوا پارٹی کمزور حلقوں پر توجہ مرکوز کرنے میں سنجیدہ ہے۔

حلقہ لوک سبھا حیدرآباد سے اپنے نام کا اعلان ہونے کے بعد مادھوی نے کہا کہ دھرمو رکشتی رکشتہ (دھرم ان لوگوں کی حفاظت کرتا ہے جو اس کی حفاظت کرتے ہیں)۔

مادھوی لتا کون ہے؟

مادھوی لتا کا پورا نام کومپیلا مادھوی لتا ہے جو ٹرپل طلاق کے خلاف بی جے پی کی مہم کا چہرہ تھیں۔ وہ ایک ثقافتی جہدکار کے طور پر بھی جانی جاتی ہیں جبکہ پیشہ ور طور پر مادھوی لتا حیدرآباد کے ورینچی ہاسپٹل کی چیئرمین ہیں۔

مادھوی لتا ایک پیشہ ور بھرت ناٹیم رقاصہ ہے۔ وہ تین بچوں کی ماں ہے جن میں دو بیٹیاں اور ایک بیٹا شامل ہے۔

مادھوی لتا نے اپنے کسی بچے کو اسکول نہیں بھیجا بلکہ اپنے گھر پر ہی انہیں پڑھایا۔ اب ان کا بیٹا آئی آئی ٹی میں پڑھ رہا ہے۔

مادھوی لتا این سی سی کیڈٹ کا حصہ رہ چکی ہیں اور انہوں نے پولیٹکل سائنس میں ایم اے کیا ہے۔ مادھوی لتا کے شوہر وشواناتھ ورینچی ہاسپٹل کے بانی ہیں۔

مادھوی لتا کو ہندو مذہبی مقرر کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ ابتدا سے آر ایس ایس سے وابستگی ہندو مقاصد کے لئے رہی ہے جس کے لئے انہوں نے خوب محنت کی ہے۔ ایک کٹر ہندو کے طور پر رسم و رواج کی پابندی کرتی ہیں اور اپنے بچوں کو خود ہی گھر پر رامائن اور بھگوت گیتا کی تعلیم دی ہے۔

مادھوی لتا کئی خیراتی تنظیموں سے بھی وابستہ ہیں جن میں لوپامدرا چیریٹیبل ٹرسٹ اور لتاما فاؤنڈیشن وغیرہ شامل ہیں۔ 49 سالہ مادھوی لتا وہ پہلی خاتون امیدوار ہیں جنہیں بی جے پی نے حیدرآباد کے انتخابی میدان میں اتارا ہے۔

اگرچہ اسد اویسی کے حلقہ سے مادھوی لتا کا نام آنے پر لوگوں نے حیرت کا اظہار کیا تاہم مادھوی لتا کا کہنا ہے کہ وہ ایک سال سے حیدرآباد کے گلی کوچوں میں کام کر رہی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ وہ پچھلے سال ہر روز ان تمام علاقوں کا دورہ کرتی رہی ہیں جو بالخصوص حیدرآباد کے پرانے شہر سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ روزانہ 11-12 گھنٹے کام کرتی رہی ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ پرانے شہر میں کچھ نہیں ہے – کوئی صفائی نہیں، کوئی تعلیم نہیں۔ اسکولوں میں بچوں کو کھانا نہیں مل رہا۔ مسلمان بچے چائلڈ لیبر بن جاتے ہیں، ان کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔

مادھوی لتا کا یہ بھی کہنا ہے کہ پرانے شہر میں ہندو مندروں اور گھروں پر غیر قانونی قبضے کئے جارہے ہیں۔

انہوں نے سوال کیا کہ پرانا شہر اتنی قابل رحم حالت میں کیوں ہے؟ یہ پہاڑوں پر نہیں ہے، قبائلی علاقہ میں نہیں ہے — یہ حیدرآباد کے مرکز میں ہے، وہی حیدرآباد شہر جس کے لئے تلنگانہ اور آندھرا پردیش لڑے تھے۔ لیکن حیدرآباد کے دل (پرانے شہر) میں کیا ہے؟ وہاں صرف غربت ہے۔

انہوں نے پوچھا کہ اگر کوئی 40 سالوں سے جمہوری منتخب نمائندے کے طور پر کسی حلقے کا مالک ہے تو تصور کریں کہ اب تک اس حلقہ کی کیا حالت ہونی چاہئے تھی۔

انہوں نے کہا کہ انہیں (اسد اویسی کو) اب ریٹائرمنٹ لے لینی چاہیے۔ 21 لاکھ رائے دہندوں کے آنسو نئی دہلی نے دیکھ لئے ہیں اور انہوں نے حیدرآباد میں جنگ کا اعلان کر دیا۔ اب حیدرآباد کے لوگوں کو انصاف ملے گا۔

مادھوی نے مزید کہا کہ اویسی، بی جے پی کی بی ٹیم نہیں ہیں اور حلقہ لوک سبھا سے انہیں امیدوار بنایا جانا اس بات کا عین ثبوت ہے۔