سیاستمضامین

کسان تحریک:جدو جہد نہ جائے گی رائیگاں

سید سرفراز احمد (بھینسہ)

بھارت کے پانچویں وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے ’”جئے جوان جئے کسان” ‘ کا نعرہ لگاکر ان دو طبقات کی ہمت افزائی بڑھائی تھی جس میں سے ایک ملک کی سرحد پر اپنےشب وروز لگاکر ملک کی حفاظت کرتا ہے دوسرا طبقہ وہ جو تپتی دھوپ میں ‘برستی بارش میں کڑاکے کی سردیوں میں اپنے جسم کی چمڑی اس دھرتی کے حوالے کردیتا ہے جسکی مسلسل محنت خون پسینہ بہانے کے بعد وہ دھرتی اس ملک کی معیشت اور ترقی میں اضافہ کا سبب بنتی ہے اگرچیکہ اسکی یہ محنت آسمانی آفات کی زد میں آجاتی ہے تو اس کسان طبقہ کی صورتحال قیامت خیز ہوجاتی ہے اسی لیئے لال بہادر شاستری نے جئے جوان جئے کسان کا نعرہ لگایا تھا کہ جوان اور کسان کی ہر حال میں جیت ہو جو حکومت کے تعاون کے بغیر ممکن نہیں ہے آج کسان جئے کسان کا نعرہ پاکر بھی شکست سے مایوس کھڑا ہے اسکا مطلب صاف ہیکہ نہ حکومت کو اس کسان کی فکر ہے نہ ملک کی معیشت کی لیکن کسان طبقے نے ہمیشہ سے جرات اور ہمت سے کام لیا ہے وہ اپنے حق کی خاطر حکومت سے لڑتا رہا خون بہاتا رہا حتی کہ جان بھی گنواتا رہا لیکن بے حس حکومت ٹس سے مس ہوتی نہیں دیکھی گئی جس ملک کا کسان حکومت سے ناخوش ہو تو ہم آسانی سے اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اس ملک کی عام رعایا کا کیا عجب حال نہیں ہوا ہوگا منہ میں رام بغل میں چھری کے مترادف حکومت کا حال ہوچکا ہے کیونکہ ایک طرف حکومت کے سچے وفادار قائدین جو کبھی دیش کے غداروں کو گولی مارو۔۔۔۔کو کہنے والے جو کسانوں کو روندنے والے بھاجپا کی پوسٹر گرل کنگنا رناوت جو کسانوں کو خالصتانی دہشت گرد کہنے والی پھر کسانوں کے آگے جھک کر معافی مانگنے والی آج کسانوں کو ان داتا کا لقب دے رہے ہیں جسکے پس پردہ صرف اور صرف لوک سبھا انتخابات کی حکمت عملی ہی ہوسکتی ہے۔
مودی دور حکومت کے دس سال میں سب سے زیادہ مظلوم اگر کوئی ہے تو ایک مسلمان دوسرا کسان مسلمانوں کے متعلق صورتحال تو بہت ہی سنگین ہے جس کیلئے تذکرے تبصرے تجزیئے بھی تنگ دامنی کا شکوہ کررہے ہیں جب سال 2020 میں کسانوں نے اپنا پہلا احتجاج کیا تھا اس وقت ایک سال تک کسان سراپا احتجاج بنے رہے کہ کسان مخالف قانون کو واپس لیا جائے لیکن حکومت نے کسانوں کی ایک نہ سنی بلکہ مرنے والوں کو مرنے دیا پرامن احتجاجیوں پر لاٹھی چارج ربر کی گولیاں آنسو گیس وغیرہ کا استعمال کیا گیا تھا لیکن کہا جاتا ہیکہ اپنے حق کی لڑائی کیلئے سامنے کی آگ بھی پھول کی طرح لگتی ہے بالکل کسان اسی طرح پوری ثابت قدمی کے ساتھ ڈٹے رہے جمے رہے بالکل آخر یوپی اسمبلی انتخابات کا شیڈول جاری ہوتے ہی مودی سرکار کسان مخالف تینوں سیاہ قوانین کو واپس لے لیتی ہے لیکن شائد یہ کسان کے کان کو خوش کرنے کا نسخہ تھا تب ہی حکومت نے سال 2021 تا سال 2023 میں کسانوں کو زرعی قوانین واپس لینے کے باوجود بھی کسان کو ایک فیصد بھی فائدہ نہیں پہنچا حالانکہ مودی سرکار نے زرعی قوانین واپس لیتے ہوئے کسانوں کوتیقن دیا تھا کہ سوامی ناتھن کمیشن کی سفارشات کے مطابق کسانوں کے مصنوعات کی کم ترین امدادی قیمت طے کرنا تھالیکن مودی سرکار نے ابھی تک اس وعدے سے وفا نہیں کرپائی مودی سرکار کا ایک اور وعدہ یہ تھا کہ وہ سال 2022 تک کسانوں کی آمدنی دوگنی کریں گے لیکن یہ بھی وعدہ صرف زبانی جمع خرچ میں شامل ہوگیا کسانوں کے احتجاج کی پہلی تحریک سے ابھی تک کا طویل تین سال کا عرصہ گذر چکا ہے کسان اب یہ اندازہ لگا چکا ہیکہ آئندہ دو ماہ میں اس ملک کی قسمت اگر تیسری بار بھاجپا کے ہاتھ چلی جائے گی تو کسانوں کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے لہذا کسانوں نے اب یہ ٹھان لیا ہیکہ مودی سرکار کی بے وفائی کو عوام کے سامنے لائی جائے یا پھر مودی سرکار کسانوں سے کیئے گئے وعدوں سے وفا کرے۔
اپنے حق کی خاطر ملک کا معصوم کسان مورچہ سنبھالنا شروع کیا پنجاب ہریانہ سے کسان پر امن احتجاج کیلئے دہلی کی طرف روانہ ہونے کی کوشش کررہے ہیں لیکن پر امن احتجاجیوں پر آنسو گیس ربر کی گولیاں برسائی جارہی ہے پنجاب اور ہریانہ پولیس ان کسانوں کو روکنے کیلئے پوری طاقت استعمال کررہی ہے اسی دوران بدھ کے روز ایک کسان موت کو گھات اتاردیا جاتا ہے بلکہ کئی کسان زخمی بھی ہورہے ہیں کچھ ایسے ویڈیوس سوشیل میڈیا پر وائرل بھی ہورہے ہیں کہ کسان پولیس کے ظلم کا بڑی چالاکی سے جواب دے رہے ہیں ہریانہ پولیس کا دعوی ہیکہ کسان ٹریکٹر جے سی بی وغیرہ کے ساتھ دہلی کی طرف کوچ کرنا چاہتے ہیں جس پر دونوں ریاستوں کورٹ نے اعتراض جتایا ہے دوسری طرف حکومت کے نمائندے وزراء وہی پرانی منطق دہرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ بات چیت سے کسانوں کے مسائل حل کیئے جائیں گے لیکن شائد کسان اب ان چکنی چٹوری باتوں میں آنے والا نہیں ہے بلکہ وعدوں کے ساتھ ساتھ حکومت سے صداقت نامے بھی لینے کی ٹھان لی ہے۔
اس ملک کے کسان ملک کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ یہ ملک ہم سب کا ہے بلکہ ہم کواپنے حقوق کی لڑائی خود لڑنی پڑتی ہے کوئی اس تحریک میں شامل ہو یا نہ ہو لیکن چھین کر ہم اپنے حقوق حاصل کریں گے چاہے اس کیلئے جان کے لالے ہی کیوں نہ پڑ جائیں 15 فروری سے کسان اور انتظامیہ کے بیچ جاری کشمکش اس بات کی شہادت دے رہے ہیں کہ یہ جدوجہد تھمنے والی نہیں ہے کیونکہ ہم نے سال 2020 میں بھی دیکھا تھا کہ کسانوں کی راہ میں کیل بچھائے گئے سینکڑوں کی تعداد میں کسان مارے گئے لیکن ملک کے کسانوں نے اپنی استقامت کی مثال قائم کی اور مودی سرکار کو جھکنے پر مجبور کیا تھا یہ الگ بات ہیکہ مودی سرکار نے کسانوں سے کھلا فریب کیا جس کو اب اس ملک کا کسان سمجھ چکا ہے کہ آئندہ پارلیمانی انتخابات سے قبل ہمیں اپنے حقوق حاصل کرلینے ہونگے کسانوں کی جدوجہد سے بھی ایسا لگ رہا ہیکہ وہ رکنے اور تھمنے والے نہیں ہے بلکہ منزل پاکر ہی دم لیں گے اسکی مثال ہم نے سابق میں بھی دیکھی ہے کسان کی اس حکومت مخالف تحریک سے حکومت مودی اور شاہ کی جوڑی بھی یقیناً تذبذب کا شکار ہورہی ہوگی کیونکہ یہ تحریک ایک انقلاب بھی برپا کرسکتی ہے یا تو حکومت کی کمر توڑ دےگی یا حکومت کو گرادے گی ہم تو کہتے ہیں کہ جو بھی اس ملک میں ظلم کا شکار ہورہا ہو انھیں ان ان داتاؤں سے سبق سیکھنا چاہیئے ورنہ مظلوم کو اتنا کمزور کردیا جائے گا کہ طاقتور ہوتے ہوئے بھی زمین سے اٹھ نہیں سکتا کسانوں کی مستقل جدوجہد سے یہ امید کی جاسکتی ہے انکی یہ جدوجہد نہ جائے گی رائیگاں۔