سیاستمضامین

(لینڈ اکویزیزیشن ایکٹ2013) نوٹیفکیشن کی تاریخ اور (اوارڈ) کی تاریخ میں اگر ایک سال سے زائد فرق ہو تو نوٹیفکیشن کالعدم ہوجائے گی۔ اوارڈ کی رقم وصول نہ کرنے کی رائےایکٹ(30) کے دفعہ(25) کے مطابق ساری کارروائی کالعدم ہوجائے گی

محمد ضیاء الحق ۔ ایڈوکیٹ ہائیکورٹ آف حیدرآباد۔

٭ حکومت دوبارہ نوٹیفکیشن جاری کرنے پر مجبور ہوجائے گی۔
٭ کسی بھی صورت میں معاوضہ کی رقم وصول نہ کرنے کی رائے۔
٭ وقت کے گزرنے کے ساتھ قیمتیں بڑھیں گی اور معاوضہ زیادہ ملے گا۔
٭ جائیداد بھی قبضہ میں رہے گی اور کرایہ آتا رہے گا۔
٭ رائے پر سختی سے عمل کرنے کی رائے۔
قانونِ حصول اراضی سارے ملک پر محیط ہے لیکن ہم آج صرف ریاستِ تلنگانہ اور خصوصاً شہر حیدرآباد ہی کی بات کریں گے کیوں کہ اس قانون سے متعلق یہاں کے لوگ بالکل ناواقف نظر آتے ہیں۔ مزید اس قانونی حقیقیت کی آگاہی فراہم کی جارہی ہے کہ سڑکوں کی توسیع اور حصولِ اراضی کے صرف قانونی طریقے ہیں۔ ایک تو دفعہ (146) میونسپل کارپوریشن ایکٹ جس کے تحت آپسی معاہدہ اور معاہدہ کی روشنی میں دی جانے والی معاوضہ کی رقم کی وصولی اور محصولہ اراضی کی حوالگی۔ دوسرے یہ کہ جب معاہدہ نہ ہوسکے تو میونسپل کارپوریشن کو اپنے مقصد کے حصول کے لئے ایک ہی راہ باقی رہ جاتی ہے اور وہ ہے قانونِ حصولِ اراضی کے تحت جائیداد کا حصول۔
اس مقصد کی تکمیل کے لئے میونسپل کارپوریشن کے اسپیشل لینڈ اکویزیشن کو بحیثیت کلکٹر لینڈ اکویزیشن ایکٹ کے تحت حصولِ جائیداد کا نوٹیفکیشن جاری کرنا پڑتا ہے اور اعتراض طلب کئے جاتے ہیں۔ اعتراضات کی وصولی کے بعد مالکینِ جائیداد کو جواب دیا جاتا ہے کہ ان کے اعتراضات ناقابل قبول ہیں لہٰذا مسترد کردیئے گئے ہیں۔ اس کے بعد آخری مرحلہ آتا ہے جس میں اوارڈ پاس کیا جاتا ہے جو 2013ء کے تحت کارروائی کے بعد ہوتا ہے ۔ مالکِ جائیداد کو یہ معاوضہ کی رقم وصول کرنا پڑتا ہے اور اگر معاوضہ کی رقم کا چیک وصول کرتے وقت یہ اعتراض کیا جائے کہ یہ رقم احتجاج کے بعد وصول کی گئی ہے لہٰذا میرا متعلقہ اپیلیٹ اتھاریٹی کے روبرو اپیل کا حق برقرار ہے اور آپ میری فائل کو اپیلیٹ اتھاریٹی کے روبرو پیش کردیں۔
کچھ عرصہ بعد آپ کی فائل اپیلیٹ اتھاریٹی کے پاس ترسیل کی جائے گی ‘ جہاں سے آپ کو نوٹس آئے گی کہ آپ اپنا مطالبہ پیش کریں۔ تکمیل کارروائی کے بعد اپیلیٹ اتھاریٹی آپ کو دیئے جانے والے معاہدہ میں صد فیصد کی حد تک اضافہ کرسکتی ہے تاہم اس کے خلاف بھی آپ ہائیکورٹ سے رجوع ہوسکتے ہیں جہاں کچھ اور اضافہ کی امید کی جاسکتی ہے۔
ایسی صورت اس وقت پیدا ہوگی جب ساری کارروائی قانون کے مطابق ہوئی ہو۔ لیکن اب آپ کو جو بات بتائی جارہی ہے وہ بہت ہی اہم ہے جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے لہٰذا اس قانونی موقف کو سمجھنے کی کوشش کیجئے لیکن جو بات سمجھنے کی ہے اسے نہ تو مالکینِ جائیداد ہی سمجھتے ہیں اور نہ متعلقہ عہدیداران۔ دفعہ(25) ایکٹ(30) آف 2013 کے مطابق نوٹیفکیشن کی تاریخ کی اشاعت کے ایک سالہ مدت یعنی(12) ماہ کے اندر ہی اوارڈ پاس ہوجانا چاہیے اور اگر ایسا نہ ہوسکے تو ساری کارروائی کالعدم ہوجائے گی۔ اگر جائیداد کا حصول ضروری ہو تو دوبارہ نوٹیفکیشن جاری کیجئے اور اس کی تاریخ کے 12 ماہ کے اندر اوارڈ پاس کیجئے۔
لیکن درحقیقت ہوکیا رہاہے؟
اس قانون کے متعلقہ دفعہ(25) کو بالکل فراموش کردیا گیا ہے۔ چار چار سال پہلے نوٹیفکیشن جاری ہوا اور اب اوارڈ پاس کیا جارہا ہے۔ یہ ایک غیر قانونی اقدام ہے۔ وہ مالکینِ جائیداد بھی اس موقف سے ناواقف ہیں جن کی جائیدادوں کے حصول کا نوٹیفکیشن تین چار سال پہلے جاری ہوا تھا اور اس مدت کے بعد بھی مالکینِ اراضی معاوضہ کا چیک حاصل کررہے ہیں۔
لہٰذا ایسے مالکینِ جائیداد جن کی جائیدادوں کے حصول کا نوٹیفکیشن دو تین سال قبل جاری کیا گیا تھا اور اب انہیں معاوضہ کا چیک حاصل کرنے کو طلب کیا جارہا ہے وہ ہرگز اوارڈ کے چیک حاصل نہ کریں اور ہائیکورٹ سے رجوع ہوکر احکامات حاصل کریں کہ سابقہ کارروائی کو کالعدم قراردیا جائے اور ازسرِ نو نوٹیفکیشن جاری کیا جائے۔
پرانی حویلی چوراہے پر چار دوکانیں منشی نان‘ ڈاکٹر محمد علی مرحوم کا دواخانہ‘ دودھ کی دوکان اور موذن صاحب مرحوم کی دوکان اسی قانونی بنیاد پر ابھی تک سلامت ہیں کیوں کہ ان کی جائیدادوں کے حصول کا نوٹیفکیشن پانچ سال قبل جاری کیا گیا تھا اور اوارڈ 2022ء میں پاس کیا گیا تھا جسے ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا اور ہائیکورٹ نے اپنے احکامات کے ذریعہ نوٹیفکیشن کو منسوخ کرتے ہوئے حکم جاری کیا کہ دوبارہ نوٹیفکیشن جاری کیا جائے اور معینہ وقت کے اندر ہی اوارڈ پاس کرکے جائیدادیں حاصل کی جائیں۔
لیکن آج تک ایسا کوئی نوٹیفکیشن جاری نہ ہوسکا اور ٹریفک کا مسئلہ جوں کا توں باقی ہے۔
لہٰذا ایسے حضرات جن کی جائیدادوں کے حصول کا نوٹیفکیشن دوچار سال پہلے جاری کیا گیا تھا اور اب انہیں معاوضہ کا چیک وصول کرنے طلب کیا جارہا ہے وہ فوری طور پر ہائیکورٹ سے رجوع ہوکر اس مسئلہ کو مزید طوالت میں ڈال سکتے ہیں۔
اگر GHMC سرکل سے نوٹس ا ٓئے تو کوئی معاہدہ نہ کریں۔ ہائیکورٹ سے رجوع ہوکر معاملہ کو معرض التواء میں ڈال دیں
GHMC کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ جس سڑک کی توسیع مطلوب ہوتی ہے‘ اس سڑک کے دونوں جانب رات کے اوقات میںآکر نشانات لگادیئے جاتے ہیں بعض صورتیں ایسی ہوتی ہیں کہ مکان کا تمام رقبہ توسیع کی زد میں آجاتا ہے۔ کبھی کبھی تین چار منزلہ مکان پر بھی نشانات لگادیئے جاتے ہیں۔ بے چارہ مالکِ مکان صبح جب نیند سے بیدار ہوتا ہ تو اسے پتہ چلتا ہے کہ اس کی تین چار منزلہ جس میں دوکانیں ہیں جن کے کرایہ پر اس کی زندگی کا دارومدار ہوتا ہے ‘ سڑک کی توسیع میں 50تا 60 فیصد متاثر ہورہی ہیں۔ یہ خطرناک نشانات اکثر قلب پر حملے کا بھی باعث بنے ہیں۔ بے چارہ اپنے منتخب نمائندوں سے ملتا ہے او راپنی بپتا سناتا ہے اور اسے جواب ملتا ہے کہ اگر شہر کی ترقی چاہتے ہو اور ٹریفک میں آسانیاں چاہتے ہو تو تمہیں اپنی جائیداد کی قربانی دینی ہوگی۔ مالکِ مکان مایوس ہوجاتا ہے ۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوا ہے اور ایسی شکایتیں بھی آئی ہیں کہ ان نشانات کی وجہ سے رشتوں میں مشکلات پیدا ہورہی ہیں۔ کیوں کہ لڑکے والوں نے کہہ دیا ہے کہ جب سارے کا سارا گھر سڑک کی توسیع میں متاثر ہورا ہے تو ہماری لڑکی کہاں رہے گی۔
اب جبکہ کرایوں کی آمدنی ہی ذریعہ روزگار رہ گیا ہے اور جب یہ ذریعہ بھی ختم ہوجائے تو کیا ہوگا۔ ایک اضطرابی کیفیت میں سارے حیدرآباد کے لوگ زندگی گزاررہے ہیں۔
ایسی صورت میں سرکل آفس سے ایک نوٹس آتی ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ آپ کے گھر کے سامنے کی سڑک بہت تنگ ہے جس کی وجہ سے ٹریفک کے بہاؤ میں بہت مشکل ہورہی ہے لہٰذا آپ اپنی جائیداد میں سے … مربع گز اراضی میونسپل کارپوریشن کے حوالے کردیجئے۔ جس کے بدلے میں آپ کو یہ مراعات دی جائیں گی۔
-1 آپ کو (TDR) دیا جائے گا یعنی آپ کے پاس کہیں دوسرے مقام پر اراضی ہو تو آپ اس پر دو تین منزلہ بلڈنگ تعمیر کرسکتے ہیں یا آپ اس TDR کو کسی تیسرے فریق کو فروخت کرسکتے ہیں گویا یہ TDR یعنی Transferable Developement Right ایک چیک ہے جسے آپ کیش کرسکتے ہیں۔
نقد معاوضہ کی کوئی بات نہیں ہوگی۔
یہ حیران کن اور پریشان کن نوٹس مالکِ جائیداد کو جھنجھوڑنے کے لئے بہت کافی ہوگی ۔ کئی مثالیں ہمارے سامنے آئیں جن میں مالکِ جائیداد شدید طورپر علیل ہوگئے اور ایک بحرانی کیفیت میں مبتلا ہوگئے۔ لیکن مالکینِ جائیداد کو مزید ہراساں کیا جاتا ہے۔ انہیں ایک میٹنگ میں طلب کیا جاتا ہے جس میں زیادہ تر سیاسی گماشتے رہتے ہیں جو مالکینِ جائیداد کو مایوس کردیتے ہیں جس کا ان کی نفسیات پر بڑا گہرا اثر پڑتا ہے ۔ کارپوریٹرس اور ایم۔ایل۔اے صاحبان بھی کوئی مدد نہیں کرتے۔
قانون کی مزید وضاحت کی ضرورت نہیں کہ اگر مالکینِ جائیداد اپنی رضامندی ظاہر نہ کریں یا اظہار رضامندی سے انکار کردیں تو صرف ایک صورت باقی رہ جاتی ہے کہ حکومت یا میونسپل کارپوریشن قانونِ حصول اراضی کے تحت ہی کسی عوامی مقصد کے کام میں اراضی حاصل کرسکتے ہیں ‘ جس عمل میں بھاری معاوضہ ادا کرنا پڑسکتا ہے۔ لہٰذا معاوضہ کو ادا نہ کرنے کا یہ آسان طریقہ ہے کہ ڈر اور خوف کے ماحول میں رضامندی حاصل کرلی جائے ۔ نوٹس کے ساتھ ہی اظہارِ رضامندی کا فارم منسلک رہتا ہے۔
اگر کوئی ایسی صورت پیدا ہو تو حیران و پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ایسی نوٹس کو بہ آسانی ہائیکورٹ میں چیالنج کیا جاسکتا ہے اور بڑی آسانی کے ساتھ احکامات حاصل ہوسکتے ہیں۔ اگر میونسپل کارپوریشن کی قسمت خراب ہو تو ہائیکورٹ عبوری احکامات جاری کرکے رٹ درخواست کو فائنل سماعت کے زمرے میں ڈالنے کی ہدایت کرے تو دوبارہ سماعت کے لئے مزید پانچ تا دس سال لگ جائیں گے اور جب تک سڑکوں کی توسیع معرضِ التواء میں رہے گی۔ اگر اولین مرحلہ سماعت پر ہی ایسے آرڈر حاصل ہوں جس میں کہا جائے کہ اگر درخواست گزار اپنی مرضی کا اظہار نہیں کررہا ہے تو میونسپل کارپوریشن قانونِ حصولِ اراضی کو روبعمل لاکر ہی مزید کارروائی کرسکتا ہے۔ دونوں صورتیں میونسپل کارپوریشن کے لئے مشکلات کا باعث بنیں گی اور مالکِ جائیداد کو بڑی راحت بہم پہنچائی جائے گی۔
لہٰذا ا گر اس قسم کی کوئی نوٹس آئے تو بغیر کسی سے مشورہ کئے انفرادی طور پر قانونی کارروائی کریں۔ اگر سب مل کر یہ عمل کریں تو بات مناسب ہوگی کیوں کہ مختلف لوگوں کی مختلف آراء ہوتی ہے۔ بعض حکومت سے مرعوب ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ حکومت سے ٹکر لینا نقصاندہ ثابت ہوسکتا ہے حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ۔
لہٰذا انفرادی طور پر ایسا عمل کیجئے۔ جتنے لوگ ہوں گے اتنے ہی دماغ ہوں گے اور اتنے ہی خیالات ۔ بلا وجہ معقول آپ کی قیمتیں جائیداد ضائع ہوجائے گی لہٰذا انفرادی طور پر رٹ درخواست پیش کیجئے اور اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کیجئے۔
ہیلپ لائن نمبرات 040-23535273 – 9908850090