حیدرآباد

ٹی آر ایس اور کانگریس قائدین مرکزی ایجنسیز کے راڈر پر

ملک کی تقریباً تحقیقاتی ایجنسیز تلنگانہ پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے گویا تمام مرکزی تحقیقاتی ایجنسیز اپنے ہیڈ کواٹرس دہلی سے حیدرآباد منتقل کردئیے ہیں۔ ان تحقیقاتی اداروں کا نشانہ کانگریس اور ٹی آر ایس قائدین ہی ہیں۔

حیدرآباد: ریاست کی تمام سیاسی جماعتیں اسمبلی حلقہ منگوڈ کے ضمنی الیکشن کو وقار کا مسئلہ بنا کر سمی فائنل کی طرح دیکھ رہی ہیں۔ ایسے میں مرکز کی بی جے پی حکومت، ریاست میں کانگریس اور ٹی آر ایس قائدین پر توجہ مرکوز کئے ہوئے ہے۔

 ملک کی تقریباً تحقیقاتی ایجنسیز تلنگانہ پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے گویا تمام مرکزی تحقیقاتی ایجنسیز اپنے ہیڈ کواٹرس دہلی سے حیدرآباد منتقل کردئیے ہیں۔ ان تحقیقاتی اداروں کا نشانہ کانگریس اور ٹی آر ایس قائدین ہی ہیں۔ ان اداروں کا احساس ہے کہ ملک میں تمام اسکامس کی جڑیں حیدرآباد میں ہے۔

شراب اسکام دہلی میں رونما ہوا۔ مگر تحقیقات حیدرآباد اور تلنگانہ میں کی جارہی ہیں۔ اس اسکام میں مرکزی حکومت، ٹی آر ایس قائدین بالخصوص کے سی آر کے قریبی رفقاء میں شامل افراد کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ اسی طرح مرکزی حکومت، نیشنل ہیرالڈ کیسمیں تلنگانہ کانگریس قائدین کو نشانہ بنا رہی ہے۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کا ماننا ہے کہ بی جے پی کا منصوبہ ٹی آر ایس اور کانگریس قائدین کو بی جے پی میں شمولیت اختیار کرنے کیلئے مجبور کرنا ہے تاکہ منگوڈ ضمنی الیکشن سے قبل پارٹی کو مزید مضبوط کیا جاسکے۔

بی جے پی قیادت منگوڈ کے ضمنی الیکشن میں بہر صورت کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے تاکہ آئندہ سال منعقد شدنی اسمبلی انتخابات کاپراعتماد انداز میں سامنا کرسکے۔ دوسری طرف حلقہ اسمبلی منگوڈ کے ضمنی انتخاب ٹی آر ایس اور کانگریس کیلئے بھی کافی اہمیت کے حامل ہے۔

 ضمنی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والی جماعت کو اسمبلی انتخابات میں اپنے حریفوں پر سبقت حاصل رہے گی۔ جہاں ٹی آر ایس پر اعتماد ہے کہ وہ اسمبلی انتخابات میں کامیابی کی ہیٹرک مکمل کرلے گی۔ وہیں کانگریس اور بی جے پی کاماننا ہے کہ اس بار، ٹی آر ایس کو شکست سے دوچار کرتے ہوئے وہ حکومت بنائیں گے۔

 بی جے پی عوامی اعتماد کے ذریعہ اقتدار حاصل کرنے کے بجائے منفی طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے تحقیقاتی ایجنسیوں پر انحصار کئے ہوئے ہے۔ ان کی یہ کوشش کہاں تک کارگرثابت ہوگی۔

 منگوڈ ضمنی انتخابات کے نتائج بتادیں گے۔ مگر ابھی تک بی جے پی قیادت کی ان کوششوں کا ٹی آر ایس اور کانگریس قائدین پر کوئی خاص اثر نہیں دیکھا گیا۔