کرناٹک

ساورکر کے مضمون میں بلبل کا استعمال ایک ”استعارہ“، علیل مصنف کی اہلیہ کا بیان

تنازعہ کے درمیان گٹی کی اہلیہ یشودھا امیمبالا نے ایک بیان جاری کرکے کہا کہ ”علیل“ ہونے کی وجہ سے ان کے شوہر وضاحت کرنے کے موقف میں نہیں ہیں اور وہ ان کی طرف سے تو بات نہیں کرسکتیں لیکن کچھ متعلقہ تفصیلات ضرور فراہم کرسکتی ہیں۔

بنگلورو: ہندوتوا نظریہ ساز ونائیک دامودر ساورکر پر آٹھویں جماعت کی کنڑ زبان کی نصابی کتاب کے ایک پیراگراف پر پیدا ہوئے تنازعہ کے درمیان مصنف کی اہلیہ نے کہا کہ اس میں بلبل کا استعمال ایک ”استعارہ“ کے طور پر کیا گیا ہے۔

 دراصل کتاب میں مصنف کے ٹی گٹی کی جانب سے تحریر کردہ سفرنامہ ”کلاوننو گیداورو“ ہے جس میں انہوں نے انڈمان سیلولر جیل کے دورہ کے بارے میں اپنا تجربہ بیان کیا ہے جہاں ہندوتوا لیڈر کو قید کیا گیا تھا۔

ساورکر کو جیل کی جس کوٹھری میں بند یا گیا تھا اس کا خاکہ پیش کرتے ہوئے مصنف نے کہا کہ ”ساورکر کی کوٹھری میں سوراخ تک نہیں ہے پھر بھی کسی طرح بلبل اس کے اندر اڑتے ہوئے آتی تھی اور اس کے پروں پر بیٹھ کر ساورکر روز اپنے مادر وطن کی سیر کرکے جیل واپس جاتے تھے۔

“ نصابی کتاب کا یہ پیراگراف سوشل میڈیا پر وائرل ہوگیا جس میں مجاہد آزادی کی تعریف میں مبالغہ آرائی کی گئی۔ باب کے اس پیراگراف پر کچھ سوشل میڈیا صارفین نے تنقید کی۔انہوں نے سفرنامہ کے مصنف اور کرناٹک حکومت کا مذاق اڑایا۔

تنازعہ کے درمیان گٹی کی اہلیہ یشودھا امیمبالا نے ایک بیان جاری کرکے کہا کہ ”علیل“ ہونے کی وجہ سے ان کے شوہر وضاحت کرنے کے موقف میں نہیں ہیں اور وہ ان کی طرف سے تو بات نہیں کرسکتیں لیکن کچھ متعلقہ تفصیلات ضرور فراہم کرسکتی ہیں۔

 انہوں نے کہا کہ بلبل کے تصور پر تنازعہ کو دیکھتے ہوئے یہ بذات خود ثبوت ہے کہ ایک استعارہ سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ لگتا ہے کہ اتنا سارا بھرم پیراگراف میں سیاق و سباق /حوالہ نہ ہونے سے پیدا ہوا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ مصنف کی غلطی سے ہوا ہو یا ادارتی غلطی بھی ہوسکتی ہے۔

“ مصنف کی اہلیہ نے کہا کہ معلوم ذرائع کے مطابق علاقہ میں بلبلیں بہت تھیں اور انڈمان جیل میں زندگی کا اہم حصہ تھیں۔ انہوں نے ساتھ ہی کہا کہ مقامی کہانیوں میں اس بات کا ذکر ہے کہ ساورکر کو بلبل پسندتھی اور ساورکر کی خودنوشت میں بھی اس حقیقت کا ذکر ہے ساتھ ہی کچھ دیگر ذرائع بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں۔

 انہو ں نے کہا کہ ہمیں نہیں معلوم کہ ساورکر کا بلبل کے پر پر بیٹھنے کا استعارہ مصنف نے خود لکھا ہے یا کوئی اور کہانی ہے جو انہوں نے کسی کتاب یا مقامی ذرائع سے لی ہے لیکن ہم اتنا تو یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ مصنف کا تصور نہیں ہے۔

“ کچھ ٹوئٹر صارفین نے پیراگراف میں کہی گئی باتوں کا مذاق اڑاتے ہوئے پرندے پر بیٹھے ساورکر کی طنزیہ تصاویر بھی ٹوئٹ کی ہیں جبکہ ایک طبقہ نے اسے سیاسی تشہیر کی سب سے خراب شکل“ اور تعلیمی نظام کو ”برباد کرنا“ بتایا ہے۔ مصنف کی اہلیہ نے کہا کہ یاد رکھیے کہ یہ زبان سے جڑا نصاب ہے تاریخ کا نہیں اور سفرنامہ ہونے کے ناطے اسے تاریخی حقائق کا ذریعہ نہیں مانا جانا چاہیے۔“