مذہب

شب برات: کر لیجیے توبہ اپنے گناہوں سے دوستو!

رسول کریم ﷺ کے معمولات: اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں: میں نے رسول کریم ﷺ کو شعبانُ الْمعظّم سے زیادہ کسی مہینے میں روزہ رکھتے نہ دیکھا۔(سنن الترمذی، ج۔ ۲،ص: ۱۸۲۔حدیث: ۷۳۶)

مولانا حافظ محمد آصف عرفان قادری
(ایڈیٹر ماہنامہ عرفان انوار)

متعلقہ خبریں
شبِ براءت مقبولیت ِدعاء و استغفار کی رات
شب برأت مغفرت کی رات

شعبان المعظم قمری سال کا آٹھواں مہینہ ہے۔ اس ماہِ مقدس کے فضائل رسول کریم ﷺ نے بڑے دلنشیں انداز میں بیان فرمائے ہیں چنانچہ ایک مقام پر ارشاد فرمایا: الشّعبانُ شهرِی0 ’’شعبان میرا مہینہ ہے‘‘۔ مذکورہ حدیث مبارکہ سے ماہ شعبان کی فضیلت کا اندازہ بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ رسول کریم ﷺ نے اس مہینے کو اپنا مہینہ قرار دیا ہے۔ جس مہینے کو حضور علیہ السلام اپنا مہینہ فرمادیں، اس کی عظمت اور شان کا کیا ٹھکانہ ہوگا۔ اسی طرح ایک اور مقام پر فرمایا: شعبان میرا مہینہ ہے اور رمضان اللہ تعالٰی کا مہینہ ہے۔ (الجامع الصغير، رقم الحديث: ۴۸۸۹) قرآن و حدیث کی تصریحات اور آئمہ کرام کی توضیحات سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام مقامات (زمین، مکان، جگہ) اور اوقات (زمانہ، وقت، دن، رات) اگرچہ اپنی اصل کے اعتبار سے برابر ہیں اور اپنی ذات کی حد تک ایک جگہ کو دوسری جگہ پر اور ایک وقت کو دوسرے وقت پر کوئی فضیلت حاصل نہیں۔

تاہم کسی مخصوص مقام یا جگہ پر کوئی اہم یادگار اور تاریخی واقعہ رونما ہونے، اس جگہ پر کوئی خاص عمل سر زَد ہونے یا اس جگہ کے کسی عظیم شخصیت (محبین رب العالمین) کی طرف منسوب اور اس سے قریبی تعلق ہونے کی بنا پر اس مقام و جگہ کو دیگر مقامات کے مقابلے میں ایک خاص عظمت اور تقدس حاصل ہوجاتا ہے۔ چنانچہ ایک ہی علاقے اور آبادی میں بازار اور رہائشی مکانات کے مقابلے میں مساجد اور عبادت گاہوں کے لئے مختص جگہوں، اسی طرح مسجدِ حرام، مسجدِ نبوی، بیت المقدس، حرمین شریفین، بیت اللہ، حجرِ اسود، مقامِ ابراہیم، صفا و مروہ، منیٰ، مزدلفہ، عرفات، غارِ حرا، غارِ ثور، مقامِ بدر، مقامِ احد، جنت البقیع، ریاض الجنۃ اور روضۃ الرسول ﷺ کو شرعی اعتبار سے جو خاص عظمت اور تقدس حاصل ہے تو وہ درج بالا اصول (نسبت) کی بنیاد پر ہی ہے۔ اسی اصول کے مدِ نظر آئمہ کرام نے مزارِ نبوی ﷺ میں زمین کے اس ٹکڑے یا حلقے کو تمام زمین و آسمان ہی نہیں، عرش سے بھی افضل قرار دیا ہے جو جسد نبوی ﷺ کو مَس کررہا ہے۔ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، ملا علی قاری، باب المساجد و مواضع الصلوۃ۔ ۲/۱۹۰)

ادب گاہ ہیست زیرِ آسمان از عرش نازک تر
نفس گُم کردہ می آید جُنید و بایزید ایں جا

یہی معاملہ اوقات زمانہ کا ہے۔ عام دنوں کے مقابلہ میں یومِ جمعہ، یوم النحر، یوم العیدین، ایام الحج، عشرہ ذی الحجہ، ماہ رمضان، لیلۃ الاسراء، لیلۃ البراۃ اور لیلۃ القدر وغیرہ کو اس لئے عظمت حاصل ہے کہ یہ ایام اور راتیں خاص عبادات، نزولِ قرآن اور مخصوص اعمال کے لئے مختص ہیں۔ شبِ برأت کی عظمت: انہی مخصوص، عظیم، بابرکت اور رحمتِ الہٰی کے لئے خاص راتوں میں ایک رات شعبان المعظم کی پندرھویں شب بھی ہے۔ جسے عربی میں ’’لیلۃ البراءۃ‘‘ اور فارسی میں ’’شبِ برأۃ‘‘ کا نام دیا جاتا ہے۔ یعنی وہ بابرکت رات جس میں اللہ تعالٰی بطورِ خاص اپنے گناہگار بندوں کی مغفرت فرماتا اور انہیں جہنم کی آگ سے بری فرماتا ہے۔

علامہ ابن الحاج مالکیؒ (م۔ ۷۳۷ھ) شب برأت کی عظمت، خصوصیت اور فضیلت و بزرگی کے بارے سلفِ صالحین کی عمومی سوچ اور طرز عمل کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ولا شک انها لیلة مبارکة عظیمة القدر عنداللّٰه تعالٰی۔ وکان السلف رضی اللّٰه عنهم یعظمونھا ویشمرون لها قبل اتیا نها فما تأتیهم الاوهم متاھبون للقائها والقیام بحرمتھا0 (ابن الحاج، المدخل۔ ۱/۲۹۲) ’’اور اس امر میں کوئی شک نہیں کہ یہ رات (شب برأت) برکت والی اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک بڑی قدر و منزلت والی ہے اور ہمارے اسلاف اس رات کی بڑی تعظیم کرتے تھے، اس کی آمد سے قبل ہی اس کے لئے (ذہنی و عملی) تیاری کرتے تھے، چنانچہ جب یہ مبارک رات آتی تو اس کی حرمت بجا لانے کے لئے مستعد ہوتے تھے۔

حضرت امام غزالیؒ نے اپنی شہرہ آفاق کتاب مکاشفۃ القلوب میں اس شب کے اور نام بھی درج فرمائے ہیں۔ لیلۃ التکفیر (گناہوں کی معافی کی رات)، شب حیات، شب مغفرت، شب آزادی، لیلۃ الشفاعۃ (شب شفاعت)، لیلۃ القسمہ والتقدیر (تقسیم اور تقدیر کی رات) اسی طرح صاحب کشّاف فرماتے ہیں: اس رات کے چار نام ہیں۔ لیلۃ المبارکہ (برکت والی رات)، لیلۃ البراۃ (نجات پانے کی رات)، لیلۃ الصک (پروانہ لکھے جانے والی رات)، لیلۃ الرحمہ (رحمت والی رات)۔ شب برات کی خصوصیات: مفسرین کرام نے "انا انزلناه فی ليلة مبارکة” (سورۃ الدخان، آیت: ۲) کی تفسیر میں نصف شعبان کی رات کی درج ذیل خصوصیات بیان کی ہیں: اس رات میں ہر کام کا فیصلہ ہوتا ہے، اس رات میں عبادت کرنے کی فضیلت ہے، اس رات میں رحمت کا نزول ہوتا ہے، اس رات میں شفاعت کا اہتمام ہوتا ہے، اس رات بندوں کے لئے بخشش کا پروانہ لکھ دیا جاتا ہے۔ (زمخشری، الکشاف، ۴/۲۷۲،۲۷۳)

رسول کریم ﷺ کے معمولات: اُمّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں: میں نے رسول کریم ﷺ کو شعبانُ الْمعظّم سے زیادہ کسی مہینے میں روزہ رکھتے نہ دیکھا۔(سنن الترمذی، ج۔ ۲،ص: ۱۸۲۔حدیث: ۷۳۶) حضرت عائشہؓ مزید فرماتی ہیں: ایک رات میں نے رسول کریم ﷺ کو نہ پایا۔ میں آپ ﷺ کی تلاش میں نکلی تو آپ ﷺ مجھے جنّتُ البقیع میں مل گئے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرھویں (۱۵ ویں) رات آسمانِ دنیا پر تجلّی فرماتا ہے، پس قبیلۂ بنی کَلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کو بخش دیتا ہے۔ (سنن الترمذی، ج۔ ۲، ص، ۱۸۳۔ حدیث: ۷۳۹) پس معلوم ہوا کہ شبِ براءت میں عبادات کرنا، قبرستان جانا سنّت ہے۔ (مراٰۃ المناجیح، ج۔ ۲، ص: ۲۹۰)

شبِ برأت کے پانچ خصائص: شبِ برأت کو ﷲ تعالیٰ نے درج ذیل پانچ خاص صفات عطا فرمائیں۔ جنہیں کثیر آئمہ نے بیان کیا: اس شب میں ہر حکمت والے کام کا فیصلہ کردیا جاتا ہے، فیھا یفرق کل امرِ حکیم0 (سورۃ الدخان، آیت: ۴) اس رات میں عبادت کی بہت زیادہ فضیلت ہے۔ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: "اس رات میں جو شخص سو رکعات نماز ادا کرتا ہے، ﷲ تعالیٰ اس کی طرف سو (۱۰۰) فرشتے بھیجتا ہے۔ (جن میں سے) تیس فرشتے اسے جنت کی خوش خبری دیتے ہیں۔ تیس فرشتے اسے آگ کے عذاب سے محفوظ رکھتے ہیں۔ تیس فرشتے آفاتِ دنیاوی سے اس کا دفاع کرتے ہیں۔ اور دس فرشتے اسے شیطانی چالوں سے بچاتے ہیں”۔ رحمتِ الٰہی کا نزول ہوتا ہے۔ رسول کریم ﷺ نے فرمایا: "یقینا ﷲ تعالیٰ اس رات بنُو کلب کی بکریوں کے بالوں کی تعداد کے برابر میری اُمت پر رحم فرماتا ہے” گناہوں کی بخشش اور معافی کے حصول کی رات ہے۔

رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا: "بے شک اس رات ﷲ تعالیٰ تمام مسلمانوں کی مغفرت فرما دیتا ہے، سوائے جادو ٹونہ کرنے والے، بغض و کینہ رکھنے والے، شرابی، والدین کے نافرمان اور بدکاری (زنا) پر اصرار کرنے والے کے”۔ اس رات ﷲ تعالیٰ نے اپنے رسولِ کریم ﷺ کو مکمل شفاعت عطا فرمائی اور وہ اس طرح کہ رسول کریم ﷺ نے شعبان کی تیرھویں رات اپنی امت کے لئے شفاعت کا سوال کیا تو آپ ﷺ کو تیسرا حصہ عطا فرمایا گیا۔ پھر آپ ﷺ نے شعبان کی چودھویں رات یہی سوال کیا تو آپ ﷺ کو دو تہائی حصہ عطا کیا گیا۔ پھر آپ ﷺ نے شعبان کی پندرہویں رات سوال کیا تو آپ ﷺ کو تمام شفاعت عطا فرما دی گئی سوائے اس شخض کے جو مالک سے بِدکے ہوئے اونٹ کی طرح (اپنے مالک حقیقی) ﷲ تعالیٰ سے دور ہوجاتا ہے (یعنی جو مسلسل نافرمانی پر مصر ہو)۔ (زمخشری، الکشاف، ۴/ ۲۷۲،۲۷۳)

شبِ برأت میں رسول کریم ﷺ کا عملِ مبارک: امام بیہقیؒ نے شعب الایمان میں حضرت عائشہ صدیقہؓ سے طویل حدیث مبارکہ بیان کی: ’’رسول کریم ﷺ رات کے کسی حصے میں اچانک ان کے پاس سے اُٹھ کر کہیں تشریف لے گئے، حضرت سیدہ عائشہؓ بیان کرتی ہیں: میں رسول کریم ﷺ کے پیچھے گئی تو میں نے آپ ﷺ کو جنت البقیع میں مسلمان مردوں، عورتوں اور شہداء کے لئے استغفار کرتے پایا، پس میں واپس آگئی۔ جب رسول کریم ﷺ واپس تشریف لائے تو حضرت عائشہؓ نے تمام صورتحال بیان کی تو آپ ﷺ نے فرمایا: ابھی جبریل میرے پاس آئے اور کہا: آج شعبان کی پندرہویں رات ہے اور اس رات اللہ تعالیٰ قبیلہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ تعداد میں لوگوں کی مغفرت فرماتا ہے مگر مشرکین، دل میں بغض رکھنے والوں، رشتہ داریاں ختم کرنے والوں، تکبر سے پائنچے لٹکانے والوں، والدین کے نافرمان اور عادی شرابی کی طرف اللہ تعالیٰ اس رات بھی توجہ نہیں فرماتا (جب تک کہ وہ خلوص دل سے توبہ نہ کرلیں)۔ اس کے بعد رسول کریم ﷺ نماز میں کھڑے ہوگئے۔ قیام کے بعد رسول کریم ﷺ نے ایک طویل سجدہ کیا۔

حضرت سیدہ عائشہؓ فرماتی ہیں: مجھے گمان ہوا کہ کہیں حالتِ سجدہ میں آپ ﷺ کا وصال ہوگیا ہے۔ میں پریشان ہوگئی اور میں نے آپ ﷺ کے تلوؤں کو چھوا اور ان پر ہاتھ رکھا تو کچھ حرکت معلوم ہوئی۔ اس پر مُجھے خوشی ہوئی۔ اس وقت حالتِ سجدہ میں رسول کریم ﷺ یہ دعا پڑھ رہے تھے: أَعُوْذُ بِعَفْوِکَ مِنْ عِقَابِکَ وَأَعُوْذُ بِرِضَاکَ مِنْ سَخْطِکَ وَأَعُوْذُ بِکَ مِنْکَ جَلَّ وَجْهُکَ لَا أُحْصِي ثَنَآئً عَلَيْکَ أَنْتَ کَمَا أَثْنَيْتَ عَلٰی نَفْسِکَ0 ’’اے اللہ میں تیرے عفو کے ساتھ تیرے عذاب سے پناہ چاہتا ہوں، تیری رضا کے ساتھ تیرے غضب سے پناہ چاہتا ہوں اور تیرے کرم کے ساتھ تیری ناراضگی سے پناہ چاہتا ہوں۔ میں کماحقہ تیری تعریف نہیں بیان کرسکتا۔ تو ایسا ہی ہے جیسے تو نے خود اپنی تعریف بیان کی ہے‘‘۔ (بیہقی، شعب الايمان۔ ۳/ ۳۸۳، ۳۸۵)

صبح جب حضرت عائشہؓ نے رسول کریم ﷺ سے ان دعاؤں کا تذکرہ کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: اے عائشہؓ! یہ دعائیں خود بھی یاد کرلو اور دوسروں کو بھی سکھاؤ۔ مجھے جبریلؑ نے (اپنے ربّ کی طرف سے) یہ کلمات سکھائے ہیں اور انہیں حالتِ سجدہ میں بار بار پڑھنے کو کہا ہے۔‘‘ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: میرے پاس پندرہویں شب جبرئیل امین نے حاضر ہوکر عرض کیا ’’یا رسول اللہ ﷺ ! اپنا سر مبارک آسمان کی طرف اٹھائیے” میں نے کہا ’’یہ کونسی رات ہے” جبرئیل علیہ السلام نے عرض کیا ’’یہ ایسی رات ہے جس میں اللہ تعالی اپنی رحمت کے تین سو دروازے کھول دیتا ہے اور میں نے دیکھا ہر دروازے پر ایک فرشتہ تھا اور ہر فرشتہ ندا دے رہا تھا کہ مبارک ہو جس نے آج کی رات رکوع کیا، مبارک ہو جو آج سجدہ ریز ہو گیا، مبارک ہو جس نے آج کی رات اللہ کا ذکر کیا، مبارک ہو جس نے آج سوال کیا اسے عطا ہوگیا، مبارک ہو جس نے آج استغفار کیا اس کی توبہ قبول ہو گئی، طلوع فجر تک اللہ کی طرف سے آسمانِ دنیا سے ندائیں ہوتی رہتی ہیں اور ملائکہ تین سو ابواب رحمت پر بیٹھ کر طلوع فجر تک ندائیں دیتے رہتے ہیں۔ (ابن ماجہ و بیہقی)

قارئین کرام! یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ اُمتِ مسلمہ کے جمیع مکاتبِ فکر کے فقہاء و علماء کا اس بات پر اجماع ہے کہ جو مسئلہ بھی قرآن و سنت کی روشنی میں ثابت ہوجائے تو اس پر عمل واجب ہوتا ہے یا وہ سنت اور مستحب کے درجے میں ہوتا ہے۔ وہ احادیثِ مبارکہ جو شبِ برأت کی فضیلت کو اجاگر کرتی ہیں بہت سے صحابہ کرامؓ سے مروی ہیں ان حضرات میں سیدنا ابوبکر صدیق، سیدنا علی المرتضیٰ، اُم المؤمنین عائشہ صدیقہ، سیدنا عبد اللہ بن عمرو بن العاص، سیدنا معاذ بن جبل، سیدنا ابوہریرہ، سیدنا ابو ثعلبہ الخشنی، سیدنا عوف بن مالک، سیدنا ابو موسیٰ اشعری، سیدنا ابو امامہ الباہلی اور سیدنا عثمان بن ابی العاص رضوان اللہ علیہم اجمعین کے نام شامل ہیں۔ سلف صالحین اور اکابر علماء کے احوال سے پتہ چلتا ہے کہ اس رات کو عبادت کرنا ان کے معمولات میں سے تھا۔ لیکن بعض لوگ اس رات عبادت، ذکر اور وعظ و نصیحت پر مشتمل محافل منعقد کرنے کو بدعت ضلالۃ کہنے سے بھی نہیں ہچکچاتے اور اس رات کسی عمل کو صحیح نہیں کہنے سے باز نہیں آتے، جو سراسر اَحادیثِ نبوی ﷺ کی تعلیمات کے خلاف ہے، اس لئے کہ اس رات کی فضیلت پر اُمت تواتر سے عمل کرتی چلی آرہی ہے۔

شب برأت کی حجت اس بات سے بھی ثابت ہوتی ہے کہ شروع سے ہی صحابہ کرامؓ، تابعین، اَتباع تابعین اور تمام اَئمہ حدیث بشمول آئمہ صحاح ستہ اکثر نے شبِ برأت کا تذکرہ کیا اور اپنی کتب حدیث میں "بَابُ مَا جَائَ فِي لَیْلَۃِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ” یعنی شعبان کی پندرہویں رات کے عنوان سے مستقل ابواب بھی قائم کئے۔ یہ بات واضح رہے کہ جب آئمہ حدیث اپنی کتاب میـں کسی عنوان سے کوئی مستقل باب قائم کرتے ہیں اور وہ باب قائم کرکے اس کے تحت کئی احادیث لاتے ہیں تو اس سے مراد محض اپنی کتاب حدیث کا ایک باب قائم کرنا نہیں ہوتا بلکہ اس سے مقصود ان کا ایمان اور عقیدہ قرآن و حدیث کی روشنی میں واضح ہوتا ہے۔

ان کی کتب کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ امام ترمذی، نسائی، ابن ماجہ، امام احمد بن حنبل، ابن خزیمہ، ابن حبان، ابن ابی شیبہ، بزار، طبرانی، بیہقی، ابن ابی عاصم، ہیثمی رحمہم اللہ الغرض تمام اَئمہ حدیث کا یہی عقیدہ تھا اور اسی پر اُن کا عمل بھی تھا۔ اور اس رات وہ خود بھی خصوصی اہتمام کے ساتھ جاگ کر عبادت کرتے، روزہ رکھتے، قبرستان جاتے اور جمیع اُمت مسلمہ کے لئے بخشش و مغفرت کی دعائیں کرتے‘‘۔ چنانچہ حضرت سیدنا علیؓ فرماتے ہیں: "يُعْجِبُنِي أَنْ يُفَرِّغَ الرَّجُلُ نَفْسَهُ فِي أَرْبَعِ لَيَالٍ: لَيْلَةُ الْفِطْرِ، وَلَيْلَةُ الأَضْحٰی، وَلَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، وَأَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ رَجَبٍ”0 (ابن جوزی، التبصرة، ۲/۲۱) ’’مجھے یہ بات پسند ہے کہ ان چار راتوں میں آدمی خود کو (تمام دنیاوی مصروفیات سے عبادت الٰہی کے لئے) فارغ رکھے۔ وہ چار راتیں یہ ہیں: عید الفطر کی رات، عید الاضحی کی رات، شعبان کی پندرہویں رات اور رجب کی پہلی رات۔‘‘ حضرت طاؤوس یمانیؒ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت امام حسن بن علیؓ سے پندرہ شعبان کی رات اور اس میں عمل کے بارے میں پوچھا تو آپؓ نے ارشاد فرمایا: ’’میں اس رات کو تین حصوں میں تقسیم کرتا ہوں: ایک حصے میں اپنے نانا جان رسول کریم ﷺ پر درود شریف پڑھتا ہوں دوسرے حصے میں اللہ تعالیٰ سے اِستغفار کرتا ہوں اور تیسرے حصے میں نماز پڑھتا ہوں۔ میں نے عرض کیا: جو شخص یہ عمل کرے اس کے لئے کیا ثواب ہوگا۔ آپؓ نے فرمایا: میں نے حضرت سیدنا علیؓ سے سُنا اور انہوں نے رسول کریم ﷺ سے سُنا، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اسے مقربین لوگوں میں لکھ دیا جاتا ہے۔‘‘ (سخاوی، القول البديع، باب الصلاة عليه فی شعبان: ۲۰۷) حضرت عبد ﷲ بن عمرؓ فرماتے ہیں:

خَمْسُ لَيَالٍ لَا يُرَدُّ فِيهِنَّ الدُّعَاءُ: لَيْلَةُ الْجُمُعَةِ، وَأَوَّلُ لَيْلَةٍ مِنْ رَجَبٍ، وَلَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، وَلَيْلَةُ الْعِيْدِ وَلَيْلَةُ النَّحْرِ.0 ’’پانچ راتیں ایسی ہیں جن میں دعا رد نہیں ہوتی: جمعہ کی رات، رجب کی پہلی رات، شعبان کی پندرہویں رات، عید الفطر کی رات اور عید الاضحی کی رات۔‘‘ (بیہقی شعب الايمان، ۳/۳۴۲) حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا: اس رات میں ایک سال سے دوسرے سال تک دنیا کے معاملات کی تقسیم کی جاتی ہے۔‘‘

(طبری، جامع البيان، ۲۵/۱۰۹) حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی غوث الاعظمؒ نے ارشاد فرمایا: شب برأت فیصلے، قضا، قہر و رِضا، قبول و ردّ، نزدیکی و دوری، سعادت و شقاوت اور پرہیزگاری کی رات ہے۔ کوئی شخص اس میں نیک بختی حاصل کرتا ہے اور کوئی مردود ہوجاتا ہے، ایک ثواب پاتا ہے اور دوسرا ذلیل ہوتا ہے۔ ایک معزز و مکرم ہوتا ہے اور دوسرا محروم رہتا ہے۔ ایک کو اجر دیا جاتا ہے جب کہ دوسرے کو محروم کردیا جاتا ہے۔ کتنے ہی لوگوں کا کفن دھویا جارہا ہے اور وہ بازاروں میں مشغول ہیں، کتنی قبریں کھودی جارہی ہیں لیکن قبر میں دفن ہونے والا اپنی بے خبری کے باعث خوشی اور غرور میں ڈوبا ہوا ہے، کتنے ہی چہرے کِھلکِھلا رہے ہیں حالانکہ وہ ہلاکت کے قریب ہیں، کتنے مکانوں کی تعمیر مکمل ہوگئی ہے لیکن ان کا مالک موت کے قریب پہنچ چکا ہے، کتنے ہی بندے رحمت کے امیدوار ہیں پس انہیں عذاب پہنچتا ہے، کتنے ہی بندے خوش خبری کی اُمید رکھتے ہیں پس وہ خسارہ پاتے ہیں، کتنے ہی بندوں کو جنت کی امید ہوتی ہے پھر ان کو دوزخ میں جانا پڑتا ہے، کتنے ہی بندے اللہ تعالیٰ سے ملاقات کے امیدوار ہوتے ہیں لیکن وہ جدائی کا شکار ہوتے ہیں، کتنے ہی لوگوں کو عطائے خداوندی کی اُمید ہوتی ہے لیکن وہ مصائب کا مُنہ دیکھتے ہیں اور کتنے ہی لوگوں کو بادشاہی کی اُمید ہوتی ہے لیکن وہ ہلاک ہوتے ہیں۔ (غُنیۃ الطالبین) قارئینِ کرام! شبِ برأت پر اتنی کثیر تعداد میں مروی احادیث، تعاملِ صحابہ و تابعین اور تبع تابعین و آئمہ سلف صالحین صرف اس لئے نہیں ہیں کہ کوئی بھی شخص فقط ان کا مطالعہ کرکے یا مطالعہ کے بغیر ہی انہیں قصے، کہانیاں سمجھتے ہوئے صرفِ نظر کردے بلکہ ان کے بیان سے مقصود یہ ہے کہ انسان اپنے مولا خالقِ کبریا کے ساتھ اپنے ٹوٹے ہوئے تعلق کو پھر سے اُستوار کرے جو کہ اس رات اور اس جیسی دیگر روحانی راتوں میں عبادت سے با سہولت میسر ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالٰی ہمیں مقدس و متبرک راتوں اور اوقات میں اپنی طرف رجوع ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

کر لیجیے توبہ اپنے گناہوں سے دوستو!
رحم و کرم کے سائے میں آنے کی رات ہے
٭٭٭